اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
بدھ

1 ستمبر 2021

2:31:04 PM
1175592

افغان محاذ پر شکست، بھارت طالبان کا اعتماد حاصل کرسکے گا؟

انڈیا کا اشرف غنی حکومت سے یارانہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، انڈیا نے گذشتہ 20 برسوں میں افغانستان میں مختلف ترقیاتی منصوبوں پر 3 ارب ڈالر کے قریب سرمایہ کاری کی ہے۔

بقلم تصور حسین شہزاد

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ افغان محاذ سے عبرتناک شکست اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ڈوبنے کے بعد انڈیا میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلاء مکمل ہوچکا ہے۔ جب افغانستان سے امریکہ کا آخری سپاہی روانہ ہو رہا تھا، عین اسی وقت بھارت نے اپنے مایوسی کی تصویر بنے عوام کو دلاسہ دینے کیلئے ایک ایسی خبر چلوا دی کہ بھارتی عوام خوش ہو جائیں اور یہ سمجھیں کہ انڈیا کا طالبان کیساتھ رابطہ ہوگیا ہے اور طالبان نے دوستی کا ہاتھ بھی بڑھا دیا ہے، اس خبر کے پیچھے مقصد بھارتی عوام کو تسلی دینا تھا کہ جو سرمایہ کاری ڈوبنے پر نوحہ کناں ہیں۔ بھارت نے یہاں بھی جھوٹ بولا اور کہا کہ یہ ملاقات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں انڈین سفیر اور طالبان کے ایک سینیئر رہنماء کے درمیان بھارتی سفارتخانے میں ہوئی، جبکہ یہ ملاقات بھارتی سفارتخانے میں نہیں بلکہ طالبان کے رابطہ دفتر میں ہوئی، جہاں خود بھارتی سفیر چل کر گیا۔

مغربی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق اس ملاقات میں صرف کابل میں موجود بھارتی شہریوں کے محفوظ انخلاء پر گفتگو ہوئی ہے، اس کے علاوہ طالبان نے کوئی دوسری بات نہیں کی۔ بھارتی سفیر دیپک متل خود طالبان رہنماء شیر محمد عباس ستانگزئی سے ملنے طالبان کے دفتر گئے۔ انڈیا روز اول سے طالبان کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتا۔ برطانوی خبر رساں ادارے روائٹرز کے مطابق انڈیا کو شدت پسند نظریات اور خاص طور پر پاکستان کیساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے ہمیشہ طالبان کے بارے میں شدید تحفظات رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا نے اشرف غنی کی حکومت کو بچانے اور طالبان کی چڑھائی کو پسپا کرنے کیلئے اسلحہ سے بھرے جہاز بھی کابل پہنچائے تھے، مگر انڈیا کی ساری کوششیں رائیگاں چلی گئیں اور اس وقت طالبان افغانستان میں اپنی حکومت کے سیٹ اپ کا اعلان کرنے جا رہے ہیں۔

انڈیا کا اشرف غنی حکومت سے یارانہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، انڈیا نے گذشتہ 20 برسوں میں افغانستان میں مختلف ترقیاتی منصوبوں پر 3 ارب ڈالر کے قریب سرمایہ کاری کی ہے۔ انڈیا نے طالبان کی حالیہ چڑھائی کو دیکھتے ہوئے بھی بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا کہ طالبان کے مقابلے میں اشرف غنی کی ڈوبتی ناو کو سہارا دینے کی ناکام کوشش کی۔ اس پالیسی پر انڈین دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے مودی سرکار کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انڈیا کے تجزیہ کاروں نے بھانپ لیا تھا کہ طالبان اقتدار میں آنیوالے ہیں اور بھارتی دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے مودی سرکار کو یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ انڈین سرکار فوری پالیسی بدلے اور طالبان سے رابطہ کرکے تعلقات قائم کر لے، مگر مودی سرکار نے ایسا نہ کیا۔ جس کے باعث اب اسے سبکی کا سامنا ہے، دانشور اور تجزیہ کار بھی مودی سرکار کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

انڈیا نے دو ماہ قبل دوحہ میں طالبان کیساتھ رابطے بڑھانے کی کوشش کی تھی، لیکن طالبان کی جانب سے مثبت ردعمل نہیں ملا، جس پر انڈیا نے خاموشی اختیار کر لی تھی۔ کیونکہ طالبان جانتے تھے کہ نوے کی دہائی میں انڈیا طالبان کے پہلے دور اقتدار میں شمالی اتحاد کیساتھ مل کر طالبان کیخلاف سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب طالبان انڈیا پر اعتماد کرنے کو تیار دکھائی نہیں دیتے۔ مگر کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی، ممکن ہے کہ طالبان انڈیا کی ماضی کی غلطیاں معاف بھی کر دیں، لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ ماضی میں کبھی بھی انڈیا نے طالبان کیلئے کوئی اچھا کام نہیں کیا، جب بھی کی، مخالفت ہی کی، طالبان کی راہ میں روڑے اٹکائے، اب طالبان میچور ہوچکے ہیں، جانتے ہیں کہ کون دوست ہے اور کون دشمن، یہی وجہ ہے کہ طالبان نے ایران اور روس کیساتھ اچھے تعلقات بنا لئے ہیں، لیکن انڈیا کو ابھی تک لفٹ نہیں کروائی۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طالبان رہنماء شیر محمد عباس ستانکزئی انڈین آرمی سے انڈیا میں فوجی ٹریننگ بھی لے چکے ہیں، ہوسکتا ہے، ان کے دل میں انڈیا کیلئے نرم گوشہ ہو، لیکن فیصلہ شیر محمد عباس ستانکزئی نے نہیں کرنا، بلکہ طالبان کی شوریٰ عالی کو اختیار ہے کہ وہ پالیسی سازی کرے کہ کس ملک کیساتھ کس طرز کے تعلقات رکھنے ہیں، اس کا فیصلہ بھی شوریٰ عالی کرے گی۔ ایران، چین اور روس کیساتھ اگر طالبان کے تعلقات میں بہتری ہوتی دکھائی دے رہی ہے تو اس میں مذکورہ تینوں ملکوں کا امریکہ کو نکالنے میں نمایاں کردار ہے، جبکہ انڈیا یہاں امریکہ کے پاوں پکڑا دکھائی دیتا ہے کہ وہ افغانستان سے نہ نکلے۔ تو ایسی پوزیشن میں انڈیا اگر طالبان سے کسی اچھے کی امید رکھتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ انڈیا اگر طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے اچھے تعلقات قائم کر لیتا تو ہوسکتا تھا کہ طالبان اپنی پالیسی تبدیل کر لیتے، مگر اب ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

انڈیا کی مودی سرکار یہ یاد رکھے کہ جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے، اپنے عوام کو گمراہ نہیں کریں، انہیں زمینی حقائق سے آگاہ رکھیں۔ گذشتہ شب جب امریکہ کا آخری فوجی بھی افغانستان سے نکل گیا تو طالبان نے ہوائی فائرنگ کرکے امریکی انخلاء کا جشن منایا۔ اب طالبان کی نئی پالیسی کے تحت کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے، ہمسایہ ممالک کی یہاں ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں کہ وہ افغانستان کی تعمیر نوء اور استحکام کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کریں، کیونکہ افغانستان میں امن ہوگا تو خطے میں بھی امن قائم ہو سکے گا۔ دوسرا انڈیا اگر خطے میں اپنی ساکھ بچانا چاہتا ہے تو اسے پاکستان دشمن سے بھی باہر آکر پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ہر معاملے میں مائنس پاکستان کا بھارتی مطالبہ پاکستان کو نہیں، بلکہ خود انڈیا کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتا آیا ہے اور ثابت ہوتا رہے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲