اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
ہفتہ

10 جولائی 2021

2:04:19 PM
1158865

مودی کا "کُل جماعتی اجلاس" اور کشمیری عوام کی مایوسی

میٹنگ کے دوران مودی نے کشمیر کو ریاستی درجے کی بحالی کا وعدہ کیا، لیکن اس کے لئے شرط یہ رکھی کہ پہلے کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرائے جائیں، جس کی گپکار الائنس نے بعد میں مخالفت کی۔

بقلم جے اے رضوی

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی پوزیشن (دفعہ 370) کی بحالی کی خاطر قائم "گپکار الائنس" کا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی زیر صدارت میں 24 جون کو ہوئی "کل جماعتی میٹنگ" میں شرکت کا فیصلہ نہ صرف اہمیت کا حامل تھا بلکہ ایک ایسا قدم بھی ہے، جس سے اس اتحاد ګی آئندہ سیاسی سرگرمیوں کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ گپکار الائنس کی اہم اکائیاں یعنی نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بہرحال ایسی سیاست کا حصہ ہیں، جس میں جمہوری سرگرمیوں کے اندر شمولیت کو اولیت حاصل ہے، تاکہ تخت و تاج تک رسائی میں مدد مل سکے۔ ان جیسی سیاسی جماعتوں کا عقیدہ ہے کہ صرف انتخابات اور ان کے نتیجے میں پیدا صورتحال کے ذریعے سے ہی عوام کے جذبات اور احساسات کی جمہوری طرز پر نمائندگی کا امکان ہوتا ہے۔ بہرحال جموں و کشمیر کی سبھی بھارت نواز پارٹیوں نے 24 جون کے لئے نئی دہلی کی دعوت قبول کی اور نریندر مودی کے ساتھ کم و بیش تین گھنٹے کی میٹنگ میں شرکت کی۔

گذشتہ دو برس کے دوران نئی دہلی اور خاص طور پر کشمیر سے تعلق رکھنے والی سیاسی شخصیات کے مابین دوریاں اس حد تک بڑھ گئی تھیں کہ اُنہیں پاٹنا ضروری بن گیا تھا۔ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی پر تو نئی دہلی کی طرف سے "خاندانی اور بدعنوانیوں میں ملوث پارٹیاں" یہاں تک کہ "بھارت دشمن پارٹیاں" تک کے الزامات عائد کئے گئے تھے اور گپکار الائنس کو گپکار گینگ کہا گیا تھا۔ پھر 5 اگست 2019ء کو دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مذکورہ پارٹیوں کے ساتھ ساتھ دیگر چھوٹے بڑے گروہوں کے سبھی سرکردہ ذمہ داروں اور کارکنان کو جیلوں میں رکھا گیا۔ ان ساری کارروائیوں سے نئی دہلی اور مذکورہ سیاسی شخصیات کے درمیان فاصلہ قابل ذکر حد تک بڑھ گیا تھا۔ چونکہ جمہوریت میں صدر راج یا گورنر راج کوئی مستقل نظام حکمرانی نہیں ہوتا ہے، اس لئے ایک مخصوص مدت کے بعد اُس کو "عوامی حکومت" سے بدلنا پڑتا ہے، جس کے لئے اقتداری سیاست پر یقین رکھنے والی پارٹیوں کی ضرورت پڑتی ہے، تاکہ کہنے اور دکھانے کو ہی سہی، ایک انتخابی دنگل کا اہتمام کیا جائے، جس میں ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے والے اور عوام کو مختلف نوعیت کے خواب دکھانے والے شرکت کرکے اعداد و شمار پر مبنی انتخابی نتائج پیدا کرنے میں ریاست کی معاونت کرتے ہیں۔

جموں و کشمیر میں بظاہر جسے "عوامی حکومت" کہا جاتا ہے، وہ گذشتہ دو سال سے زیادہ عرصہ سے مفقود ہے، جس کو لیکر بیرون دنیا میں کبھی کبھی کوئی آواز سنائی دیتی ہے یا کبھی کبھی بیانیہ تیار کرنے کے لئے جان بوجھ کر کوئی آواز بلند کروائی جاتی ہیں۔ ان آوازوں کو بند کرنے کے لئے بھارت کو یہاں انتخابات کے انعقاد کے لئے ایک خاص ماحول تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ باہر کی دنیا میں ایک شورش زدہ خطے میں انتخابات کے انعقاد کو "نارملسی" یا "پولٹیکل پراسیس" سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس "پراسیس" کے کامیاب انعقاد کا ایک تجربہ نئی دہلی نے 1996ء میں کیا، جب حالات ایسے تھے کہ اُسے محض نیشنل کانفرنس پر ہی تکیہ کرنا پڑا تھا، لیکن اب صرف فاروق عبداللہ نہیں بلکہ کشمیر میں نئی دہلی کے "پولٹیکل پراسیس" کی کامیابی کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک مہارتی تیار بیٹھے ہیں، جو فقط دہلی کے ایک اشارے کے منتظر ہیں۔ اب اگر اس سلسلے میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی جیسی علاقائی سیاسی قوتوں کا بھی تعاون شامل حال رہے تو نئی دہلی کے لئے وارے نیارے ہیں۔

کئی مبصرین کا ماننا ہے کہ "گپکار اتحاد" کا نئی دہلی جا کر نریندر مودی سے ملاقات صرف اور صرف اپنی نوکریاں اور کرسیاں پکی کرنا تھا۔ گپکار اتحاد کے لیڈران نے سرینگر سے نئی دہلی اور بعد میں نئی دہلی سے سرینگر تک کئی بیانات دیئے، جن کا خلاصہ یہ تھا کہ "کل جماعتی میٹنگ" کے دوران گپکار اتحاد کے ایجنڈا کی بھرپور وکالت کی گئی، لیکن غلام نبی آزاد کی مانیں تو کسی ایک لیڈر نے بھی دفعہ 370 سے متعلق بات نہیں کی۔ ادھر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ بدقسمتی سے مظفر حسین بیگ اور غلام نبی آزاد نے دفعہ 370 کے معاملے کو عدالتی معاملہ قرار دیا۔ ویسے دہلی سے واپسی کے بعد گپکار الائنس نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں مشترکہ طور پر کہا کہ ہم "کل جماعتی اجلاس" سے مایوس ہیں اور اس میٹنگ سے ہمیں اب کوئی امید وابستہ نہیں ہے۔ ادھر ناقدین کا کہنا ہے کہ گپکار الائنس دہلی سے خالی ہاتھ پلٹ آیا، لیکن خالی ہاتھ پلٹ آنے سے بڑی بات یہ ہے کہ گپکار الائنس کشمیر سے دہلی بھی خالی ہاتھ گئے تھے، یعنی انکے پاس کوئی ایجنڈا نہیں تھا۔

میٹنگ کے دوران مودی نے کشمیر کو ریاستی درجے کی بحالی کا وعدہ کیا، لیکن اس کے لئے شرط یہ رکھی کہ پہلے کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرائے جائیں، جس کی گپکار الائنس نے بعد میں مخالفت کی۔ پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے یہاں تک کہا کہ ہم تب تک کسی الیکشن کا حصہ نہیں بنیں گے، جب تک کشمیر کے ریاستی درجے کو بحال نہیں کیا جاتا ہے۔ اب بات کریں کشمیری عوام کی تو عوام ایک طویل عرصہ سے جن حالات میں سانس لے رہے ہیں۔ بھارت نواز سیاستدانوں نے اُنہیں مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل رکھا ہے۔ کشمیری عوام محسوس کرتی ہے کہ ان کا کوئی خیر خواہ نہیں ہے اور نہ اُن کے احساسات کا کوئی ترجمان ہے۔ کشمیری عوام اب حد سے زیادہ مایوس ہوچکے ہیں۔ انہیں اب بھارت کے کسی مذاکراتی عمل پر بھروسہ نہیں رہا ہے۔

یہاں اب بھارت نواز سیاسی جماعتیں عوامی حلقوں کے اندر اچھا مقام نہیں رکھتی ہیں۔ ان پارٹیوں کا ماضی بھی اتنا شاندار نہیں ہے کہ جس کو پیش کرکے عوامی حلقوں کو لبھایا جاسکے۔ اب ان سیاسی پارٹیوں کو ایک موقع فراہم ہوا ہے کہ وہ عوامی حلقوں کے اندر اپنی بگڑی شبیہ کو ٹھیک کریں۔ ایسا تب ہوگا، جب مذکورہ پارٹیاں اقتداری سیاست کی وقتی مراعات اور پارٹی مفادات سے اُوپر اُٹھ کر عوامی جذبات اور احساسات کی نمائندگی کریں گی۔ کشمیر کی بھارت نواز سیاسی جماعتوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ جموں کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن (دفعہ 370) کی رکھوالی کے اصولی ذمہ دار تھے اور وہ اپنی ذمہ داریاں انجام دینے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ اب ان پارٹیوں نے مذکورہ پوزیشن کی بحالی کا کام ہاتھ میں لیا ہے اور اس لئے یہ اُن کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میں دیانتداری کا مظاہرہ کریں۔ ایک بار وہ اپنی بنیادی سیاست سے منحرف ہوئیں تو اُن کا وجود خطرے میں پڑجائے گا، کیونکہ جس عوام کا اُنہیں اب سامنا ہے، وہ پہلے سے مختلف اور بہت مختلف ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲