اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : IRIB
پیر

15 جون 2009

7:30:00 PM
113040

مولانا حسن جان کا آخری انٹرویو

س : پاکستان میں اس وقت خود کش حملے عروج پر ہیں گزشتہ دنوں سوات کے علاقے شانگار میں پولیس کے اہلکاروں پر ایک خود کش حملہ ہوا ہے جس میں ایک پولیس آفیسر سمیت چار سرکاری اہلکار ہلاک ہوئے ہیں آپ ان خود کش حملوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ۔

مولانا حسن جان : اسلام کے مطابق یہ حملے جائز نہیں ہیں اور ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے اور یہ سراسر ظلم ہے پاکستانی پولیس ہو یا فوج وہ مسلمان ہیں اور ہمارے بھائي ہیں اگر خودکش کارروائیاں کرنے والے جنرل پرویز مشرف کے مخالف ہیں تو جائیں مشرف سے جنگ کریں اپنے مسلمان بھائیوں کو کیوں قتل کرتے ہیں ۔ہم ان خودکش حملوں کے مخالف ہیں ان کی مذمت کرتے ہیں اور اس کو غیر شرعی فعل سمجھتے ہیں ۔

 س: آپ سمیت اکثر علماء ان حملوں کو غیر شرعی سمجھتے ہیں اور اس کی مذمت کرتے ہیں لیکن یہ فرمائیں کہ ان حملوں پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے اور کونسے سے ایسے علماء ہیں جو ان کو جائز سمجھتے ہیں اور اس بارے میں فتوے صادر کرتے ہیں ؟

 ج : میرا یہ ایمان ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی عالم دین ان حملوں کی حمایت نہیں کرتا ہے البتہ کچھ انتہا پسند تنظیمیں جیسے جیش محمد اور سپاہ صحابہ ہیں جن کے کارکن جو بے وقوف اور سادہ لوح ہیں اور انہیں کسی چیز کا شعور نہیں ہے وہ اس طرح کی کارروائیاں انجام دیتے ہیں یا تو یہ بے شعور ہیں یا اپنی زندگي سے تھک چکے ہیں یاخفیہ ایجنسیوں کے دھوکے میں آکر یا پیسے کی لالچ میں خود کش کارروائیاں انجام دیتے ہیں ۔

 س : ان حملات کو کس طرح کنٹرول کیاجاسکتا ہے کیونکہ ان حملوں میں نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ خود کش حملہ آور بھی جہنم میں جاتا ہے ؟

 مولانا حسن جان : یہ تمام مسائل جہالت کی وجہ سے ہیں بعض افراد سادہ لوح نوجوانوں کو جنت کی لالچ میں خود کش کارروائیوں پر تیار کرتے ہیں یہ ایک طرح کی برین واشنگ ہے اس سے نوجوانوں کو گمراہ کرکے خود کش حملوں کے لئے تیار کیاجاتا ہے ۔

س : بعض علماء حتیٰ بعض جہادی عناصر ان خودکش حملوں کے حمایت کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اس طریقے سے پاکستان میں اسلامی انقلاب لائیں گے ؟

 مولانا حسن جان : انقلاب کا یہ راستہ نہیں ہے ۔یہ جاہلانہ طرز فکر ہے اس کا نتیجہ فقط قتل و غارت اور ملک میں اختلافات اور تفرقہ پھیلانا ہے ۔

اسلامی انقلاب کے دو راستے ہیں یا تو اتحادی حکومت مکمل طور پر ختم ہوجائے یا طاقت کے زور پر ملک میں انقلاب لایا جائے یا انتخابات اور عوامی رائے سے لائق اور اسلامی فکر رکھنے والے لوگوں کو اقتدار میں لایا جائے اس سے ملک میں اسلامی تبدیلی آسکتی ہے اگریہ روش اختیار نہ کی جائے اور ہم خود کش حملوں اور دھماکوں کا سلسلہ شروع کردیں تو کہیں بھی نہیں پہنچ پائیں گے اور کوئی انقلاب و غیرہ بر پا نہیں ہوگا ۔

 س: آپ کو پاکستان کےقبائلی علاقوں کے بارے میں اطلاعات ہوں گی کہ بعض عناصر نہ صرف ان علاقوں میں خود کش کارروائیاں اور دھماکے کررہے ہیں بلکہ پولیس یا پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے افراد حتی عام افراد کو حکومت کے لئے جاسوسی کرنے کے الزام میں پکڑتے ہیں ان کوقتل کرکے ان کامثلہ کرتے ہیں مثلا" چند دن پہلے ان عناصر نے ملیشیا کے افراد کو گرفتار کیا اور ان میں سے ایک کا سر ایک بچے کے ذریعے سے قلم کرایا اور اس کی ویڈیو فلم بھی بنائی اور اس فلم کوعام لوگوں میں تقسیم بھی کیا ۔آپ اس طرح کی کارروائیوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟

مولانا حسن جان : یہ بہت بڑا ظلم ہے ۔یہ سب دیوانگی اور پاگل پن کا نتیجہ ہے ۔اس طرح کی کارروائیاں کرنے والے پاگل ہیں ۔یہ لوگ منفی پروپیگنڈے اور جذباتی نعروں کے فریب میں آئے ہوئے ہیں بعض خفیہ ادارے ان بے وقوفوں کی حرکات سے فائدہ اٹھاتے ہیں یہ پاکستان مخالف ہیں ان کے ہندوستان اور اسرائیل سے رابطے ہیں یہ لوگ پاکستان میں امن و امان کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔

س : مولانا حسن جان آپ درست فرما رہے ہیں آج جب ان خود کش حملوں ، سرقلم کرنے اور مثلہ کرنے والے مناظر کو مغربی اور صیہونی میڈیا اپنے ذرائع ابلاغ پر دکھاتا ہے تو ساتھ یہ بھی پروپیگنڈا کرتا ہے کہ یہ اسلام ہے گویا اسلام کا چہرہ مسخ کرکے پیش کیا جارہا ہے آپ کیا کہتے ہیں ؟

مولانا حسن جان : جو لوگ یہ کام انجام دیتے ہیں اسلام کو بدنام کررہے ہیں طاغوتی اوراستعماری طاقتیں اس طرح کے اقدامات سے فائدہ اٹھاتی ہیں اسلام کےخلاف پروپیگنڈا کرتی ہیں اور اپنے لوگوں کے اذہان  میں اسلام کے خلاف نفرت کےبیج بوتی ہیں ۔

س: اب جبکہ پاکستان میں خود کش کارروائیاں عروج پر ہیں آپ ان کو روکنے کےلئے کیا تجاویز پیش کریں گے ؟

مولانا حسن جان : حقیقت میں انتہا پسندانہ کارروائیاں کرنے والے یہ عناصر جنرل مشرف کی پالیسیوں اور افغانستان پر امریکی حملے پرناراض ہیں ۔جنرل پرویز مشرف نے اپنی پالیسیوں سے نہ صرف عوام کواپنا مخالف بنادیا ہے بلکہ لوگ بھی ایک دوسرے کی جانوں کے دشمن بن گئے ہیں جبکہ دوسری طرف امریکہ بھی خوش نہیں ہے اور بارہا کہہ چکا ہے کہ پاکستان نے دوستی اورتعاون کا حق ادا نہیں کیا ہے اور اسامہ بن لادن اورملاعمر کی پاکستان میں موجودگی کے بہانے پاکستان کوعالمی سطح پربھی بدنام کررہا ہے ۔

س : ممکن ہے صدر پرویز مشرف کی پالیسیاں غلط اوراسلام مخالف ہوں کیا اس کو دلیل بنا کر اسلام اور جہاد کوبدنام کیا جاسکتا ہے اور ایسی کارروائیاں کی جاسکتی ہیں جو مسلمان تو ایک طرف کفار بھی انجام دیتے ہوئے گبھراتے ہیں ۔

مولانا حسن جان : جی ہاں ہم بھی امریکہ اورنیٹو فورسز کے مخالف ہیں اسی طرح ہم ان تمام کارروائیوں کی بھی مخالفت کرتے ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر انجام دی جارہی ہیں لیکن بعض عناصر کی طرف سے خود کش حملوں اور دھماکوں کے ذریعے ردعمل کا اظہار بھی درست اقدام نہیں ہے ۔

س : کیا مستقبل میں اس بات کی امید ہے کہ یہ حملے کم یا ختم ہوجائیں ؟

حسن جان : قومی انتخابات قریب ہیں اگر اچھے افراد اقتدار میں آگئے تو ممکن ہے ان مسائل پر قابو پایا جاسکے ۔