اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
منگل

9 مارچ 2021

8:03:41 PM
1122012

اختری: جناب ابوطالب کے ایمان کا مسئلہ واضح اور روشن ہے/ تاریخی حقائق کو واضح کرنے کی ضرورت ہے

آیت اللہ اختری نے کہا: آپ کے ایمان کا مسئلہ ایک واضح اور روشن مسئلہ ہے لیکن تحریف، حسد، بدنیتی، دشمنی، ان چیزوں نے تاریخی حقیقت پر پردہ پوشی کر دی، ابتدائے اسلام میں بھی اس حقیقت کو چھپایا گیا اور آج بھی اس پر پردہ ڈالا جا رہا ہے اور حقیقت کو آشکار کرنے کے بجائے الٹا یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ابوطالب مومن تھے یا نہیں؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ جناب ابوطالب (ع) حامی پیغمبر اعظم (ص) بین الاقوامی کانفرنس کی افتتاحی تقریب آج بروز منگل کو مدرسہ امام خمینی (رہ) قم میں منعقد ہوئی۔
افتتاحی تقریب کے پہلے اسپیکر اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی مجلس اعلیٰ کے سربراہ آیت اللہ محمد حسن اختری نے کہا: خداوند متعال کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم اس کے دین، دین اسلام پر ایمان رکھتے ہیں اور اس نے ہمارے اوپر احسان کر کے دین کی اس نعمت سے ہمیں نوازا۔
انہوں نے مزید کہا: پروردگار عالم کی سب سے بڑی نعمت، دین کی نعمت اور انسان کی ہدایت کی نعمت ہے، قرآن کریم میں خدا نے دو جگہوں پر دین کو نعمت اور منت(احسان) کے نام سے یاد کیا ہے ہم خدا کی اس نعمت پر شکرگزار ہیں۔
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سابق سیکرٹری جنرل نے کہا: میں ایک طالبعلم ہونے کے عنوان سے بہت خوش ہوں کہ جناب ابوطالب (ع) جیسی عظیم شخصیت کے بارے میں ایک سیمینار کے انعقاد کا مشاہدہ کر رہا ہوں، وہ شخصیت جو تاریخ کے تمام مظلومین سے زیادہ مظلوم تھی، جناب ابوطالب اور ان کے بیٹے امیر المومنین علی علیہ السلام کی مظلومیت واضح اور روشن ہے انسان معمولی غور کرے تو اس مظلومیت سے آگاہ ہو سکتا ہے۔
آیت اللہ اختری نے دینی رہنماؤں اور بزرگ شخصیتوں کی یاد کو تازہ کرنا رہبر انقلاب اسلامی کے حکم کی تعمیل جانتے ہوئے کہا: یہ ذمہ داری اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے دوش پر اس کے بنیادی قوانین میں رکھی گئی ہے، انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اب تک ایسی کوئی کانفرنس منعقد نہیں ہوئی لہذا اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس عظیم شخصیت کے حوالے سے ایک علمی سیمینار منعقد کروا رہی ہے، کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے اس سیمینار کے انعقاد میں تاخیر ہوئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: مراجع تقلید نے جناب ابوطالب سیمینار کے انعقاد کی حمایت کی اور خصوصا آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی نے اس میں خصوصی حصہ لیا اور اپنا پیغام دیا۔
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی سپریم کونسل کے سربراہ نے کہا: اس کانفرنس میں بزرگ علماء تقاریر کریں گے اور مختلف علمی مقالات بھی اس سیمینار میں پیش کئے جائیں گے، سیمینار کا انعقاد بعثت رسول اکرم (ص) کے ایام میں بھی ہو رہا ہے تو اگر جناب ابوطالب کی زحمتیں نہ ہوتیں تو بعثت کا مقصد پورا نہ ہو پاتا جناب ابوطالب اور جناب خدیجہ نے مقصد بعثت کو آگے بڑھانے میں اپنے تمام وجود سے رسول اکرم (ص) کا ساتھ دیا۔
آیت اللہ اختری نے جناب ابوطالب کے ایمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: آپ کے ایمان کا مسئلہ ایک واضح اور روشن مسئلہ ہے لیکن تحریف، حسد، بدنیتی، دشمنی، ان چیزوں نے تاریخی حقیقت پر پردہ پوشی کر دی، ابتدائے اسلام میں بھی اس حقیقت کو چھپایا گیا اور آج بھی اس پر پردہ ڈالا جا رہا ہے اور حقیقت کو آشکار کرنے کے بجائے الٹا یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ابوطالب مومن تھے یا نہیں؟
انہوں نے مزید کہا: جناب ابوطالب سے منسوب جو اشعار تاریخ نے نقل کئے ہیں ان میں آپ نے واضح طور پر رسول اکرم (ص) پر اپنے ایمان کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی مجلس اعلیٰ کے سربراہ نے امام رضا علیہ السلام کی ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا اور کہا: امام رضا (ع) نے جناب ابوطالب کے ایمان کے سلسلے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں سوال پوچھنے والے سے کہا کہ اگر تم اس شخصیت کے ایمان میں شک کرتے ہو تو تمہارا راستہ دوزخ کی طرف جا رہا ہے۔
آیت اللہ اختری نے حدیثیں جعل کرنے والی مشینری کو جناب ابوطالب کے مقام کو گھٹانے کی قصور وار ٹھہراتے ہوئے واضح کیا: یہ مشینری جانتی تھی کہ اگر جناب ابوطالب کو مومن پہچنوایا گیا تو امام علی (ع) کی دوسروں پر فضیلت ثابت ہو جائے گی۔ حالانکہ بعض اہل سنت کے علماء بھی شیعہ عقائد کے مطابق یقین رکھتے ہیں کہ اجداد پیغمبر اکرم سب موحد تھے جبکہ بعض اس بات کے منکر بھی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ہم ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں کہ دنیا میں ایک شیعہ حکومت اور اہل بیت(ع) کی حکومت حاکمفرما ہے، اگر آج اہل بیت(ع) کا دفاع نہ کیا گیا اور پوشیدہ حقائق کو سامنے نہ لایا گیا تو پھر کب ایسا ہو گا طول تاریخ میں ہم شاہد ہیں کہ شیعہ حکومتیں جیسے صفوی حکومت اہل بیت (ع) کے دفاع میں اور شیعہ مکتب فکر کی نشر و اشاعت میں اپنے طریقے سے عمل کرتی رہی ہے۔
آیت اللہ اختری نے تاریخ اسلام پر نظر ثانی کی ضرورت کی طرف اشارہ کیا اور کہا: تاریخ اسلام کا دقیق جائزہ لینا اور اس حوالے سے حقائق کو سامنے لانا بہت ضروری ہے اس لیے کہ دنیا اس وقت غلط اور جھوٹی معلومات انٹرنٹ کے ذریعے حاصل کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا: وہی راستہ جو کل بنی امیہ نے اپنایا تھا وہی آج تکفیری وہابی اپنائے ہوئے ہیں مثال کے طور پر وہابی جناب عمار یاسر کو باغی فرقہ کا رکن سمجھتے ہیں یا ان کا یہ کہنا ہے کہ امام حسین کی شہادت کوئی سانحہ نہیں تھی بلکہ وہ حکومت وقت کے خلاف خروج کی سزا تھی اور وقت کے مفتی کے فتوے کے مطابق انہیں قتل کیا گیا۔
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی سپریم کونسل کے سربراہ نے اس گمراہ کن مشینری کا مقابلہ کرنے کو ضروری قرار دیا اور واضح کیا: یہ گروہ اسلام کی عظیم شخصیات کو داغدار کر رہا ہے یہ وہ گروہ ہے جو رسول اکرم (ص) کی توہین کے مقابلے میں خاموش ہے۔
انہوں نے آخر میں کہا: آج کے دور میں دیگر علماء کے نظریات کو حاصل کرنا بہت آسان ہے اور ہمیں بہرصورت تاریخی حقائق کو آشکار کرنے کی ضرورت ہے اور یہ چیز اسلامی وحدت کے منافی بھی نہیں ہے۔

...............

242