اہلبیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ محمد صدیق بہجت نے ریڈیو معارف کے ساتھ گفتگو میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں اہلسنت کے نظریے کو بیان کرتے ہوئے کہا: علی بن ابی طالب ایسی بے مثال شخصیت ہیں کہ جن کے فضائل و مناقب کسی پر پنہاں نہیں ہیں؛ بعثت سے پہلے آپ کی تربیت رسول خدا(ص) نے کی۔ضلع بندر لنگہ کے سنی علماء کونسل کے سربراہ نے مزید کہا: علی ابن ابی طالب ان افراد میں سے تھے جو سب سے پہلے رسول اسلام (ص) ایمان لائے اور تمام صحابہ میں سے صرف حضرت علی تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی کبھی بت کے آگے سجدہ نہیں کیا لہذا اسی وجہ سے اہلسنت دیگر تمام صحابہ کو ’’رضی اللہ عنہ‘‘ کہتے ہیں لیکن حضرت علی کو ’’کّرم اللہ وجہہ‘‘ کہتے ہیں۔بندر لنگہ کے اہلسنت و الجماعت کے امام جمعہ نے مزید کہا: آپ اسلام کے سب سے پہلے فدائی ہیں اس لیے کہ اس رات جب رسول اسلام نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو آپ رسول کے بستر پر سوئے اور قبا کے مقام پر رسول خدا(ص) آپ کے منتظر رہے تاکہ آاپ کو ساتھ لے کر مدینہ میں داخل ہوں۔شیخ بہجت نے واضح کیا: آپ تمام غزوات میں پیغمبر گرامی اسلام کے ساتھ ساتھ رہے جنگ بدر، احد، خندق اور خیبر میں آپ کی شجاعت کے کرشمے کسی پر پوشیدہ نہیں ہیں۔ جنگ خیبر تھی جس میں پیغمبر اسلام نے فرمایا: کل میں اسے شخص کو پرچم دوں گا جسے خدا اور رسول دوست رکھتے ہیں اور وہ خدا اور رسول کو دوست رکھتا ہے اس کے بعد دوسرے دن پرچم آپ کو دیا اور قلعہ خیبر آپ کے ہاتھوں فتح ہوا صرف ایک غزوہ میں آپ پیغمبر کے ہمراہ نہیں تھے اور آپ نے دکھ کا اظہار کیا تو رسول خدا نے آپ سے فرمایا کہ آپ میرے نزدیک ایسے ہی ہیں جیسے ہارون موسی کے نزدیک تھے صرف یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا: اگر علمی اعتبار سے آپ کی شخصیت پر نگاہ کریں تو ابن عباس آپ کے سلسلے میں کہتے ہیں: اگر علم کے ۱۰ درجے ہوں تو ۹ درجے علی بن ابی طالب کے پاس ہیں اور دسویں مرتبے میں بھی آپ سب کے ساتھ شریک ہیں۔ اسی طرح سعید بن مسیب کا کہنا ہے علی بن ابی طالب کے علاوہ کوئی نہیں کہتا تھا کہ مجھ سے پوچھ لو جو پوچھنا ہے۔بندر لنگہ کے سنی امام جمعہ نے آخر میں کہا: پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت کے بعد اگر خلفائے راشدین نے مقام حاصل کیا تو آپ کے مشورے سے حاصل کیا اور آپ اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ خلفائے راشدین کے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۴۲
25 اکتوبر 2013 - 20:30
News ID: 475777

بندر لنگہ کے سنی امام جمعہ نے آخر میں کہا: پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت کے بعد اگر خلفائے راشدین نے مقام حاصل کیا تو آپ کے مشورے سے حاصل کیا اور آپ اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ خلفائے راشدین کے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔