13 جولائی 2013 - 19:30
مولانا یوسف حسین:امریکی ایجنٹ سعودی شیوخ، اسرائیلی مفادات کیلئے سرگرم ہیں، ایران سے خطرہ محسوس کرتے ہیں

متحدہ علماء محاذ پاکستان کے سربراہ کا قضیہ بلاد شام کے بارے میں انٹرویو میں کہنا تھا کہ یہ بنی امیہ اور بنو ہاشم والی جنگ کی صورتحال ہے۔ ایک مرتبہ پھر بنی امیہ، بنی ہاشم کے خلاف متحد ہو رہے ہیں۔ جمہوری اسلامی ایران جہاں ایک اسلامی حکومت ہے۔ اس انقلاب اور اسلامی حکومت کو دشمن اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ وہی اسلام ہے جس سے امریکہ خوفزدہ ہے۔ جس سے برطانیہ، فرانس، سعودی عرب اور قطرکے نام نہاد حکمران خائف ہیں۔ علاقے کے شیوخ جو امریکی ایجنٹ ہیں۔ جو امریکہ و اسرائیلی مفادات کے لئے سرگرم ہیں سب ایران سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ لہذا وہ اس اسلام کاراستہ روکنا چاہتے ہیں۔ شام کا راستہ روکنا چاہتے ہیں چونکہ اسی شام کے ذریعے فلسطین کو رسد ملتی ہے۔ ان کو خوراک اور اسلحہ مہیا کیا جاتا ہے۔ تو انہوں نے فلسطینی مجاہدین کو نہتے کرنے کے لئے اور انہیں حزب اللہ اور ایران سے کاٹنے کے لئے یہ سارا جال بچھایا ہے۔

ابنا: سربراہ متحدہ علماء محاذ و آل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی کے مرکزی محرک، نامور عالم دین مولانا مرزا یوسف حسین کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز نے سانحہ مدرسہ عارف حسین الحسینی، قضیہ بلاد شام اور پاک ایران گیس پائپ لائن اور دیگر حوالوں سے ان کا ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے۔ جو قارئین کی خدمت کیلئے پیش ہے۔

متحدہ علماء محاذ کے اغراض و مقاصد کے بارے میں بتائیں۔؟

متحدہ علماء محاذ کے نام سے ہی اس کے مقاصد واضح ہیں۔ اتحاد بین المسلمین ہمارا اصل مقصد ہے، کہ تمام مکاتب فکر ایک دوسرے کے عقائد و نظریات کا احترام کریں۔ آپس میں صبر و تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کریں۔ جب ایک دوسرے کا احترام کریں گے، امن کا قیام بھی یقینی ہوگا اور ایک دوسرے کے درمیان پیار کا جذبہ بھی فروغ پائے گا۔ متحدہ علماء محاذ کا آغاز کراچی سے شروع کیا گیا، اب راولپنڈی میں بھی اس کا دفتر قائم کیا گیا ہے۔ انشاءاللہ بہت جلد بلوچستان میں بھی متحدہ علماء محاذ کا سیٹ اپ قائم کیا جائے گا۔ علماء اور امن پسند لوگوں کی طرف سے بہت اچھا ردعمل ظاہر ہو رہا ہے اور وہ تمام تعاون کرنے کے لئے آمادہ و تیار ہیں۔

مختلف مسالک کے متحدہ محاذ بننے کے ساتھ ساتھ اتحاد بین المسلمین کے لئے بے انتہا کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن دہشت گردی رکنے کا نام نہیں لے رہی اور یہ ناسور پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے، حال ہی میں پاکستان کے اہم ترین مدرسے، مدرسہ شہید عارف حسین الحسینی پر بم حملہ کیا گیا، جس میں قائد شہید کے کم سن پوتے شہید ہوئے، تو اس صورتحال کا کیسے جائزہ لیتے ہیں۔؟

حکومت نے اتحاد بین المسلمین کے لئے کبھی بھی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے، جو لوگ اتحاد بین المسلمین چاہتے ہیں، انہیں آگے نہیں آنے دیا جاتا اور ایسے لوگ حکومت کر رہے ہیں جو دیاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ اگر وہ قیام امن کے سلسلہ میں مخلص ہوں، ہمارے اس پلیٹ فارم پر مختلف مسالک کے لوگ متفق ہیں، اور عملی طور پر ہم گذشتہ چھ سالوں سے کام کر رہے ہیں۔ اس سے قبل ہم نے پچیس سال تک متحدہ مسلم محاذ کے نام سے کام کیا۔ اتحاد کے لئے زمین تیار ہے، لوگ امن چاہتے ہیں۔ چند مٹھی بھر فتنہ پرست عناصر ہیں جو بیرونی استعماری ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ حکومت کی مصلحت پسندی کی وجہ سے وہ اپنی کارروائیوں میں کامیابی بھی حاصل کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کو فروغ بھی دے رہے ہیں اور معصوم افراد کا قتل عام بھی جاری ہے۔ جس طرح آپ نے اشارہ کیا، شہید قائد کا مدرسہ انتہائی اہم مدرسہ ہے۔ اس کی سکیورٹی حکومت کی ذمہ داری تھی، جسے کماحقہ ادا نہیں کیا گیا۔ اس سانحہ میں شہید (شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی)کے تین پوتے زخمی ہیں، ایک شہید ہوا ہے، دیگر درجنوں بےگناہ افراد شہید اور زخمی ہوئے۔

اہم مدرسے کی ناکافی سکیورٹی کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا حکومت نے سانحہ کے بعد بھی غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے، جس کا واضح ثبوت وزیر اطلاعات کے پی کے کا حالیہ بیان ہے، آپ کے خیال میں کیا خیبر پختونخوا حکومت جانبداری کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔؟

امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے، لیکن ظالم کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ یہ لوگ ظلم کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ لوگ کئی مرتبہ برسر اقتدار آئے ہیں۔ کئی مرتبہ انہیں اقتدار سے محروم کیا گیا اور پس زندان ڈالا گیا۔ ہم آج یہ دیکھ رہے ہیں کہ نواز شریف کے اندر ایک انتقامی جذبہ ابھر کر آیا کہ ہم مشرف کو سزا دیں گے، اس ملک میں فقط ایک مشرف تھوڑا ہی ہے۔ اگر آپ کو مشرف کو سزا دینی ہے تو ہر مشرف کو سزا دیں۔ آپ صرف اس لئے اس شخص کو سزا دینا چاہتے ہیں کہ اس نے آپ کی حکومت کا خاتمہ کیا۔ اگر آپ جمہوری تقاضوں کو پورا کرتے، آئین کی پاسداری کو ملحوظ خاطر رکھتے تو یہ کچھ اس ملک میں نہ ہوتا، دہشت گردی نہ ہوتی، آج تک کسی دہشت گرد کو سزا نہیں ملی، کیا پاکستان کا آئین یہ کہتا ہے کہ آپ دہشت گردوں کو سزا نہ دیں۔ بلکہ ان کو نکلنے کا راستہ فراہم کریں۔ تو یہاں کسی قسم کا کوئی قانون و آئین نہیں ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ اقتدار میں آنے سے پہلے اور باتیں ہوتی ہیں، اقتدار میں آنے کے بعد تمام وعدے بھول جاتے ہیں۔

قضیہ بلاد شام عالمی طاقتوں کی مداخلت سے گھمبیر تر ہوتا جا رہا ہے، امریکہ، اسرائیل، یورپ، سعودی عرب، ترکی اور قطر نے علی اعلان دہشت گردوں کی پشت پناہی کی، اب جبکہ حزب اللہ لبنان کے دفاع کے لئے میدان میں اتری ہے تو یہ تمام ممالک چلا اٹھے ہیں اور کردار کشی پر اتر آئے ہیں، اس ساری صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟

یہ بنی امیہ اور بنو ہاشم والی جنگ کی صورتحال ہے۔ ایک مرتبہ پھر بنی امیہ، بنی ہاشم کے خلاف متحد ہو رہے ہیں۔ جمہوری اسلامی ایران جہاں ایک اسلامی حکومت ہے، اس انقلاب اور اسلامی حکومت کو دشمن اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ وہی اسلام ہے جس سے امریکہ خوفزدہ ہے۔ جس سے برطانیہ، فرانس، سعودی عرب اور قطر کے نام نہاد حکمران خائف ہیں۔ علاقے کے شیوخ جو امریکی ایجنٹ ہیں، جو امریکہ و اسرائیلی مفادات کے لئے سرگرم ہیں، سب ایران سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ لہذا وہ اس اسلام ناب کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ شام کا راستہ روکنا چاہتے ہیں، چونکہ اسی شام کے ذریعے فلسطین کو رسد ملتی ہے۔ ان کو خوراک اور اسلحہ مہیا کیا جاتا ہے۔ تو انہوں نے فلسطینی مجاہدین کو نہتے کرنے کے لئے اور انہیں حزب اللہ اور ایران سے کاٹنے کے لئے یہ سارا جال بچھایا ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ جمہوریت اور تحفظ کے نام پر بدمعاشی کی ہے، دہشت گردوں کی سرپرستی کی ہے۔ آج دیکھیں افغانستان، عراق، پاکستان میں امریکہ کی وجہ سے تباہی ہے۔ وہ دہشت گردی کو مسلم ممالک میں لاکر فروغ دے رہا ہے۔ مسلم حکمران امریکی مفادات کے لئے کام کر رہے ہیں، انہیں اپنے ملک اور اپنی رعایا کی فکر نہیں ہے۔ خدا ناراض ہو جائے امریکہ ناراض نہ ہو۔

امریکہ کی خوشامد اور اسے راضی رکھنے کے لئے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ سرد خانے کی نظر کر دیا گیا ہے، کیا یہ اقدام پاکستان کی مستضعف عوام کے ساتھ ناانصافی نہیں ہے۔؟

یہ سراسر عوام کے ساتھ زیادتی ہے اور نواز شریف کے خلاف عوامی ردعمل آئے گا۔ نواز شریف کو اللہ تعالٰی نے ایک موقع دیا ہے، اسے اگر امریکہ کو خوش کرنے کے لئے استعمال کیا اور عوام کا استحصال کیا تو نواز حکومت پانچ سال آسانی سے نہیں لگاسکے گی، لہذا اس کو سوچنا چاہیے، پاکستانی عوام کے لئے کام کرنا چاہیے، امریکہ آج تک کسی کا دوست ثابت نہیں ہوا ہے۔ شہنشاہ ایران، صدام، حسنی مبارک کو دیکھیں کس طرح انہیں امریکہ نے آلہ کار بنایا اور بعد ازاں ذلیل و رسوا کیا۔

.....

/169