ابنا: امریکی حکومت اور دیگر مغربی ممالک نے قران سوزی کے اس شرمناک فعل کو مسلمانوں کی دل آزاری کا باعث سمجھنے کے باوجود، آزادی بیان کا سہارا لیکر ٹری جونز اور اس جیسے دیگر اسلام دشمنوں کو اس بات کی کھلی چھوٹ دیدی کہ وہ اپنے کسی بھی فعل میں خودمختار ہیں اور کوئی قانون انہیں سزا دئیے جانے کا مجاز نہیں ہے۔
اسلامی اقدار کی توہین اور اہانت کا سلسلہ، کتاب شیطانی آیات کے منظر عام آنے کے بعد شروع ہوا اور پھر سارے یورپی ملکوں میں وقتا فوقتا اس داستان کو مختلف شکلوں میں دہرایا جانے لگا۔ کچھ روشن خیال قسم کے افراد برطانوی نژاد مصنف سلمان رشدی، ڈینمارک کے شر پسند کارٹونسٹ اور امریکہ پادری ٹیری جونز کے اقدامات کو ان کا ذاتی اور انفرادی فعل سمجھ کر نظر انداز کئے جانے کا مشورہ دیتے ہیں حالانکہ ان کے پیچھے ان ملکوں کے خفیہ ادارے اور حکام کا چہرہ نمایاں آور آشکارا ہے کہ جس سے انکار نہین کیا جاسکتا۔ قران سوزی ٹیری جونز کے ذاتی بغض و عناد کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔
کتاب شیطانی آیات، سلمان رشدی کے خبیثانہ افکار نظریات کا نتیجہ ضرور ہے لیکن یہ افراد صرف مہرے ہیں۔ مغربی ملکوں کے خفیہ اداروں نے انہی افکار و نظریات کی بنا پر ان لوگوں کو استعمال کیا ہے اور ان کو اپنی حفاظت اور پناہ میں لئے ہوئے ہیں۔ دنیا کے جس ملک میں بھی کوئی اسلام اور اسلامی اقدار کی توہین کا مبینہ طور پر مرتکب ہوتا ہے اور این جی اوز کی شکل میں کام کر نے والے مغربی ممالک کے جاسوس ادارے فورا متحرک ہوجاتے ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر مغربی ملکوں کے خفیہ اداروں اور حکام کی سر پرستی حاصل نہ تو کوئی بھی شخص اتنی آسانی سے اسلامی اقدار کی توہین کرنے کی جرات نہ کرتا۔ قندھار میں قران کریم کے نسخوں کو جلاکر اسلام کے خلاف اپنے بغض و عناد کا اظہار کرنے والے ایک فوجی سپاہی کو جس انداز میں امریکی حکام نے تحفظ فراہم کیا، اس کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ یہ ایک سپاہی کا ذاتی فعل نہیں تھا بلکہ یہ امریکی فوج کا دستور اور حکم تھا کہ جس پر عمل کیا گیا۔ چونکہ اسلام اور اسلامی قدروں کی پامالی کو مغربی ملکوں نے اپنا شیوہ بنا رکھا ہے لہذا سر پھرے سپاہیوں اور بد دماغ پادریوں کے ہاتھوں قران کریم کی توہین کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ چنانچہ ٹیری جونز نے ایک بار پھر اس بھیانک جرم کا ارتکاب کرکے مسلمانوں کے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچائی ہے کہ جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے اس اقدام کو توہین آمیز، اشتعال انگیز اور گھناونا قراردیا ہے۔ امریکہ میں مخلتف بہانوں سے پیش آنے والے ایسے توہین آمیز واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ایرانی وزارت خارجہ کہا ہے کہ عالمی برادری کو توقع ہے کہ امریکی حکومت ایسے توہین آمیز اقدامات اور ان کے ذمہ داروں کےخلاف سخت اقدامات کرے گي اس کے ساتھ ساتھ انہیں مستقبل میں روکنے کےلئے بھی موثر قدم اٹھائے گي۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گيا ہے کہ ابو غریب اور گوانتانامو جیلوں میں امریکی فوجیوں کے غیر انسانی اقدامات، اور حالیہ دنوں میں بگرام میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قرآن کی بے حرمتی جیسے اقدامات کا نوٹس نہ لئے جانے کی وجہ سے ٹری جونز جیسے انتھا پسند اور گستاخ افراد کی جرات اور گستاخی مزید بڑھ چکی ہے اور ان جیسے افراد کی گستاخانہ حرکتوں کو دیکھ کر شک ہوتا ہےکہ شاید امریکی حکومت انہیں شہ دے رہی ہے۔ اس بیان میں کہا گيا ہےکہ امریکہ حکومت کو ان اقدامات پر عالم اسلام سے فوری طور پر معافی مانگنا چاہیے۔قران سوزی ٹیری جونز کے ذاتی بغض و عناد کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔
کتاب شیطانی آیات سلمان رشدی کے خبیثانہ افکار نظریات کا نتیجہ ضرور ہے لیکن یہ افراد صرف مہرے ہیں۔ مغربی ملکوں کے خفیہ اداروں نے انہی افکار و نظریات کی بنا پر ان لوگوں کو استعمال کیا ہے اور ان کو اپنی حفاظت اور پناہ میں لئے ہوئے ہیں
اس بیان میں آیا ہےکہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے تجربوں کی بنیاد پر مغربی حکام سے مایوسی کی وجہ سے کہ وہ ہرگز کوئي موثر اقدام نہیں کریں گے عیسائي دنیا کے دانشوروں اور علماء نیز دینی رواداری اور مذاھب کے درمیاں گفتگو کے قائل افراد نیز اسلامی ممالک کے علماء، دانشوروں اور سیاسی رہنماوں اور حکام سے بالخصوص اسلامی تعاون تنظیم سے توقع رکھتا ہےکہ وہ ایسے اسلام مخالف اقدامات اور امریکی حکومت کی معنی خیز خاموشی کے خلاف موثر موقف اپنائيں گے اور مستقبل میں بھی ان کا سد باب کریں گے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عرب اور اسلامی دنیا کے مغربی ملکوں خصوصا امریکہ کے ساتھ ان کے دوستانہ اور قریبی تعلقات بالفاظ دیگر ان کی وابستگی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اس پر کوئی ٹھوس اور موثر رد عمل دکھائیں جس کی بنا پر مسلم امہ کو تھوڑے تھوڑے کی وقفے کے بعد اس قسم کے توہین آمیز اقدامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مغربی ملکوں کے بعض حکام خصوص فرانس کے شسکت خوردہ صدر سرکوزی جس طرح عالمی اداروں اور ملکی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کی توہین کرتا رہا ہے اگر عرب اور اسلامی ملکوں کے حکام اس سے اسی کی زبان میں بات کرتے تو وہ یقینا گستاخانہ رویہ اختیار نہ کرپاتا۔ بہر حال ایران نے ہمیشہ اور ہر سطح پر مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کیا ہے اور مغرب کی ہر گستاخی کا سخت نوٹس لیا ہے لیکن اس معاملے میں ایران ہمیشہ تنہا پڑجاتا ہے۔ م
تعدد بار ایسے مواقع آئے کہ جب یورپ نے مشترکہ طور پر ایران سے اپنے سفیروں کو بلالیا اور ایران کے سفیر بھی اپنے سفارتی مشن چھوڑ کر تہران واپس آگئے لیکن کسی اور عرب اور اسلامی ملک کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ آج تک پیش نہیں آیا۔ بہر حال ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام عرب اور اسلامی مملک ملکر عوامی اور سرکاری سطح پر اس اقدام کی مذمت کریں اور عالمی اداروں میں بھی اس مسئلے کو اٹھائیں اور مغربی ملکوں کو مجبور کریں کہ آزادی بیان کی آڑ لے کر اسلامی اقدار کی توہین کرنے والوں کو کھلی چھوٹ نہ دیں۔ .....
/169