ابنا: ایک امریکی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے ٹیری جونز نے کہا کہ وہ قرآن کی بے حرمتی کے ارتکاب پر قطعاً شرمندہ نہیں ہے، اسے مسلم دنیا کے احتجاج اور مذمت کی بھی پرواہ نہیں اور نہ ہی افغانستان میں اقوام متحدہ کے عملے کے افراد کی ہلاکتوں کے خود کو ذمہ دار سمجھتا ہے بلکہ اقوام متحدہ کے عملے کے افراد کی ہلاکتوں کے ذمہ دار وہ افغانی مسلمان ہیں جنہوں نے احتجاج اور اشتعال کے تحت اقوام متحدہ کے عملے کے افراد کو ہلاک کیا ہے۔ٹیری جونز نے مزید کہا کہ امریکہ کے مسلمان امریکی آئین کے بجائے قانون شریعت پر عمل کی بات کرتے ہیں یہ ہم برداشت نہیں کریں گے، انہیں اس ملک میں رہنا ہے تو امریکی آئین کے تحت رہنا ہوگا، انہیں شریعت کے قانون کی مذمت کرنا ہوگی اور میں جلدہی امریکی ریاست کے شہر ڈیربورن جاؤں گا جہاں کئی ہزار عرب نژاد مسلمان آباد ہیں اور وہاں ان سے کہوں گا کہ وہ امریکہ کیلئے خطرہ بننے کے بجائےامریکی آئین کی پابندی کریں۔اسلامی طرز فکر شریعت کے قانون اور روایات کو ترک کرکے مفید امریکی شہری بن جائیں تاہم پادری ٹیری جونز نے اپنے اس شرمناک اسلام دشمن پروگرام کی تاریخ اور تفصیل نہیں بتائی۔واضح رہے کہ امریکہ سمیت مغربی ممالک ٹیری جونز کے اس قسم کے اشتعال انگیزاقدامات کو آزادی بیان کانام دے کر مسلسل اس کی حمایت کررہے ہیں۔پچھلے کئي مہینوں خاص طورپر حالیہ چند ہفتوں سے مغربی ملکوں میں اسلام مخالف سرگرمیوں میں شدت آئی ہے اورجب ہم مغرب میں اسلامی مقدسات کی شان میں ہونےوالی اہانتوں پرنظرڈالتے ہیں تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ سب کچھ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے اوران کی اہانت کے لئے ایک منظم منصوبے کے تحت ہورہا ہے۔بعض مغربی ممالک اسلام مخالف سرگرمیوں میں ملوث عناصر کی پوری طرح سرپرستی اوردینی ومذہبی امور کی انجام دہی میں مسلمانوں کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے اورخواتین کے پردے پرپابندیاں لگانے جیسے اقدامات سے اسلامی شعائرومقدسات کی اہانت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہيں،اور یہ سب کچھ آزادی بیان کی آڑ میں ہورہا ہے ۔بہحرحال C I A کے حمایت یافتہ بدنام زمانہ امریکی پادری ٹیری جونز کے اقدامات کو امریکی حکام کی بھر پور حمایت حاصل ہے کہ جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
/110