پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے مرکز کوئٹہ میں یوم قدس کی ریلی میں دہشت گردانہ حملے میں کم ازکم 54 افراد شہید ہوگئے ہیں۔اطلاعات کے مطابق پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح آج کوئٹہ میں بھی یوم قدس کی ریلی نکالی گئی، ریلی میں شریک روزے دار امریکہ اور اسرائیل کے خلاف نعرے لگارہے تھے ۔اطلاعات کے مطابق فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت بیت المقدس کی آزادی اور اسرائیل و امریکہ کے خلاف نکالی گئی یہ ریلی جیسے ہی میزان چوک پر پہنچی تو ایک مبینہ خودکش دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا ۔دھماکے کے بعد ہرطرف لوگوں کے اعضائے بدن بکھرے پڑے نظر آرہے تھے اور ہر طرف چـیخ وپکار کی صدائیں سنائی دے رہی تھیں۔پاکستان میں ایک منظم سازش کے تحت ملت جعفریہ کو خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ البتہ ملت جعفریہ کے قائدین کی بردباری اور صبر تحمل کے باعث دہشت گرد عناصر اور ان کے سرپرست، اپنے وہ مقاصد حاصل نہیں کرسکے ہیں جن کی وہ توقع رکھتے تھے، بلکہ اس قسم کے واقعات کے بعد لوگوں میں ایک دوسرے کے تعلق سے همدری اور مفاہمت کے جذبات ابھرے اور اتحاد و یکجہتی کی ضرورت کا احساس پروان چڑہا۔اس قسم کے واقعات کے ذریعے لوگوں کو ہراساں کرکے مذھبی اور سیاسی سرگرمیوں سے لوگوں کو دور کرکے انہیں ان کے گھروں میں بند کردینا وہ بنیادی مقصد ہے، جس کو دہشت گردی کے سرپرست اور بانی مد نظر رکھے ہوئے ہیں، لیکن 21 رمضان کو لاہور اور کراچی میں دہشت گردی کے المناک واقعات کو وجود بخشنے والوں نے دیکھا کہ ان دونوں شہروں میں لوگ آج پھر سڑکوں پر نکل آئے اور ملک وقوم کے دشمنوں کو بتادیا کہ بم دھماکے اور خودکش حملے لوگوں کو خوفزدہ نہیں کرسکتے ۔جس وقت کوئٹہ میں دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوا اس وقت بعض دیگر شہروں میں لوگ یوم قدس کے جلوسوں کی تیاریاں کررہے تھے، لیکن وہ نہ تو خائف ہوئے نہ ہی انھوں نے جلوسوں کا راستہ تبدیل کیا۔اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو چند بے گناہ روزے داروں کو خاک وخون میں غلطاں کرنے کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا ہے بلکہ اس طرح کے ہر واقعے کے بعد لوگوں کا جوش جذبہ مزید بڑھ جاتا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خدا کا عذاب اور قہر الہی دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو اسی دنیا میں دامنگیر ہوکر رہے گا۔
(بشکریہ از ریڈیو تہران)
اب اصلی سوال کی طرف لوٹتے ہیں کہ یہ دہشت گرد کس کے ایجنٹ ہیں؟ ان کے اس اقدام کا فائدہ کس کو ملا؟ القدس کی ریلی میں قدس اور قبلۂ اول کی آزادی کے حوالے سے نعرے لگ رہے تھے، میزان چوک پر تقریریں ہونی تھیں اور اس کے بعد امریکہ اور غاصب صہیونی ریاست کے جھنڈے جلنے تھے، دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں تقریریں نہیں ہوسکیں اور جھنڈے نہ جل سکے؛ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ اسرائیل اور امریکہ کی غلامی میں اس نقطے تک آگے جاسکتے ہیں جہاں وہ قبلۂ اول کے نہتے مجاہدین کو قتل کرنے اور روزہ داروں کو خاک و خون مین تڑپانے تک سے دریغ نہیں کرتے اور ان کے ان اقدامات کا فائدہ صرف ان قوتوں کو ملتا ہے جنہوں نے قبلۂ اول پر قبضہ کررکھا ہے یا اس قبضے کی حمایت کررہے ہیں۔ان بالفطرہ مجرمین نے اس سے پہلے لاہور میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کے عزاداروں کا قتل عام کیا لیکن اس حادثے کا جواز یہ ہوسکتا تھا کہ خلیفہ مسلمین اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے خلاف بغاوت کرنے والے اموی حکمرانوں کے چیلوں کو علی علیہ السلام کی عزاداری پسند نہ آئی چنانچہ انہوں نے حملہ کرکے انہیں شہید و زخمی کیا لیکن آج کے حملے میں انھوں نے فلسطین کی سنی ملت کے حامیوں اور مسلمانان عالم کے قبلۂ اول کی آزادی کے نعرے لگانے والے روزہ داروں کو نشانہ بنایا ہے چنانچہ اگر کسی مفتی یا محدث کے نزدیک اموی بادشاہوں کے ماننے والوں کو بہرصورت اسلام کے زمرے میں شمار کیا جاسکتا ہوگا تو آج قبلۂ اول کی حمایت میں نکلنے والے مسلمانوں پر حملہ کرنے والے کس حدیث یا فتوے کے مطابق مسلمانوں کے زمرے میں شمار ہوسکتے ہیں؟؟؟کیا کوئی مسلمان ایسا کوئی اقدام کرسکتا ہے؟ کیا ایسا قدم اٹھانے والا مسلمان ہوسکتا ہے؟ اور ہاں یہ اقدام کرنے والے جو مسلمان نہیں ہوسکتے اور انسان بھی نہیں ہوسکتے تو پھر وہ کس کے ایجنٹ ہو سکتے ہیں؟
/110
سانحۂ کوئٹہ کی تفصیلات: