24 اگست 2010 - 19:30

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: حدیثی حدیث ابی (ع) و حدیث ابی (ع) حدیث جدی (ع) و حدیث جدی (ع) حدیث الحسین (ع) و حدیث الحسین (ع) حدیث الحسن (ع) و حدیث الحسن (ع) حدیث امیر المومنین (ع) و حدیث امیر المومنین (ع) حدیث رسول اللّٰہ (ص) و حدیث رسول اللّٰہ (ص) قول اللّٰہ عز و جل“ (جامع احادیث الشیعۃ، ج۱ ص 127) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور ان کی حدیث میرے دادا علی بن الحسین (ع) کی حدیث ہے اور ان کی حدیث حسین ابن علی (ع) کی حدیث ہے اور حسین ابن علی (ع) کی حدیث حسن ابن علی (ع) کی حدیث ہے اور حسن ابن علی (ع) کی حدیث امام علی علیہ السلام کی حدیث ہے اور حضرت علی (ع) کی حدیث،کلام رسول خدا (ص) ہے اور رسول خدا (ص) کا کلام، کلام الٰہی ہے۔

1۔ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام إِنَّ الْعَزِيزَ الْجَبَّارَ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ كِتَابَهُ وَ هُوَ الصَّادِقُ الْبَارُّ فِيهِ خَبَرُكُمْ وَ خَبَرُ مَنْ قَبْلَكُمْ وَ خَبَرُ مَنْ بَعْدَكُمْ وَ خَبَرُ السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ وَ لَوْ أَتَاكُمْ مَنْ يُخْبِرُكُمْ عَنْ ذَلِكَ لَتَعَجَّبْتُمْ۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: خداوند عزیز و جبار نے تم پر اپنی کتاب نازل فرمائی؛ جبکہ وہ (اللہ) صادق اور نیک خواہ اور نیکی کرنے والا ہے؛ اس کتاب میں تمہاری خبر بھی ہے اور تم سے پہلے گذرنے والوں کی خبر بھی ہے اور بعد میں آنے والوں کی خبر بھی ہے؛ اور اس میں آسمان و زمیں کی خبر بھی ہے تاہم اگر کوئی تمہارے پاس آکر ان چیزوں کی خبر دے تو تم تعجب کرتے ہو۔

2۔ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ عليه السلام قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه و آله و سلم أَنَا أَوَّلُ وَافِدٍ عَلَى الْعَزِيزِ الْجَبَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ كِتَابُهُ وَ أَهْلُ بَيْتِي ثُمَّ أُمَّتِي ثُمَّ أَسْأَلُهُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ وَ بِأَهْلِ بَيْتِي۔

حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: میں سب سے پہلا فرد ہوں کہ روز قیامت خدائی عزیز و جبار کی بارگاہ میں حاضر ہونگا اور اس کی بعد خدا کی کتاب اور میری اہل بیت علیہم السلام ہونگی اور اس کی بعد میری امت حاضر ہوجائی گی اور میں ان سے پوچھ لونگا کہ "تم نے کتاب خدا اور میری اہل بیت علیہم السلام کی ساتھ کیسا سلوک روا رکھا"۔

3۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ فِيهِ مَنَارُ الْهُدَى وَ مَصَابِيحُ الدُّجَى فَلْيَجْلُ جَالٍ بَصَرَهُ وَ يَفْتَحُ لِلضِّيَاءِ نَظَرَهُ فَإِنَّ التَّفَكُّرَ حَيَاةُ قَلْبِ الْبَصِيرِ كَمَا يَمْشِي الْمُسْتَنِيرُ فِي الظُّلُمَاتِ بِالنُّورِ۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: بی شک یہ قرآن (ایسی کتاب) ہی جس میں ہدایت کی میںار، شب دیجور کے (لئے درکار) چراغ، ہیں پس انسان کو تیزبین اور زیرک ہونا چاہئے کہ اس میں غور کرے اور اس کی روشنی کی کرنوں کے لئے اپنی آنکھیں کھول دے کیونکہ غور و تفکر بصیر دلوں کی حیات ہے گویا کہ وہ دلِ بینا نور کے ذریعے تاریکیوں میں راہ پیمائی کرتا ہے۔

4۔ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام كَانَ فِي وَصِيَّةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام أَصْحَابَهُ اعْلَمُوا أَنَّ الْقُرْآنَ هُدَى النَّهَارِ وَ نُورُ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ جَهْدٍ وَ فَاقَةٍ۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے وصیت کرتے ہوئے فرمایا: جان لو کہ قرآن دن کے وقت ہدایت اور اندھیری راتوں کی روشنی ہے خواہ (اس کی روشنی ڈھونڈنے والا اور اس سے راہنمائی حاصل کرنے والا) شخص مشقت اور ناداری کا شکار ہو (کیونکہ غربت و مشقت اس شخص کو قرآن سے باز نہیں رکھتی بلکہ اس کی رغبت میں اضافہ کرتی ہے)۔

5۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ آبَائِهِ عليه السلام قَالَ شَكَا رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلی الله علیه و آله وَجَعاً فِي صَدْرِهِ فَقَالَ صلی الله علیه و آله ‍ اسْتَشْفِ بِالْقُرْآنِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ يَقُولُ وَ شِف اءٌ لِم ا فِي الصُّدُورِ۔

امام صادق علیہ السلام اپنے آباء طاہرین سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوکر سینے کے درد کی شکایت کی تو آپ صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: قرآن سے شفاء حاصل کرو کیونکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے: "یہ قرآن شفاء ہے ان دکھوں کے لئے جو سینوں میں ہیں"۔

 (سورہ يونس آيت 57)۔

6۔ عن ابي بصير قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام يَقُولُ إِنَّ الْقُرْآنَ زَاجِرٌ وَ آمِرٌ يَأْمُرُ بِالْجَنَّةِ وَ يَزْجُرُ عَنِ النَّارِ۔

ابوبصير کہتے ہیں: میں نے امام صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک قرآن باز رکھنے والا اور فرمان دینے والا ہے؛ جنت کا فرمان دیتا ہے اور دوزخ سے باز رکھتا ہے۔

7۔ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ عليه السلام لَوْ مَاتَ مَنْ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لَمَا اسْتَوْحَشْتُ بَعْدَ أَنْ يَكُونَ الْقُرْآنُ مَعِي وَ كَانَ عليه السلام إِذَا قَرَأَ م الِكِ يَوْمِ الدِّينِ يُكَرِّرُهَا حَتَّى كَادَ أَنْ يَمُوتَ۔

زھری کہتے ہیں کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: اگر مشرق اور مغرب کے مابین رہنے والے تمام لوگ مر جائیں میں تنہائی سے ہراساں نہیں ہونگا جب کہ قرآن مجید میرے پاس ہو؛ اور حضرت سجاد عليہ السلام کا شيوہ تھا کہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت جب سورہ فاتحہ کی آیت "مالك يوم الدين" پر پہنچتے تو اسے  اس قدر زیادہ دہراتے کہ موت کے قریب پہنچ جاتے۔

8۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه و آله و سلم إِنَّ أَهْلَ الْقُرْآنِ فِي أَعْلَى دَرَجَةٍ مِنَ الْآدَمِيِّينَ مَا خَلَا النَّبِيِّينَ وَ الْمُرْسَلِينَ فَلَا تَسْتَضْعِفُوا أَهْلَ الْقُرْآنِ حُقُوقَهُمْ فَإِنَّ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْجَبَّارِ لَمَكَاناً عَلِيّاً۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: بے شک قرآن والے انسانوں کے بلندترین درجات پر فائز ہیں سوائے انبیاء اور مرسلین علیہم السلام کے؛ پس قرآن والوں کے حقوق کو کم اور ناچیز مت سمجھو کیونکہ خدائے عزیز و جبار کی کی بارگاہ میں بہت اونچے مقام پر فائز ہیں۔

9۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ الْحَافِظُ لِلْقُرْآنِ الْعَامِلُ بِهِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: قرآن پر عمل پیرا حافظین قرآن ان فرشتوں کے ہم نشین ہیں جو خدا کے سفیر اور عزت دار اور نیک کردار ہیں۔

10۔ قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَهُوَ غَنِيٌّ وَ لَا فَقْرَ بَعْدَهُ وَ إِلَّا مَا بِهِ غِنًى۔

معاويہ بن عمار کہتے ہیں: امام صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: جو شخص قرآن پڑھے وہ بےنیاز اور غنی ہوجاتا ہے اور جس کو قرآن بے نیاز ا