اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، صدر اسلامی جمہوریہ ایران ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے نیویارک کے مقامی وقت کے مطابق، منگل کی شام کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: میں "اصلاحات"، "قومی اتحاد"، "دنیا کے ساتھ تعمیری تعامل" اور "معاشی ترقی" کے ایجنڈے پر انتخابی مہم میں شریک ہؤا اور اپنے ہم وطنوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہؤا۔
۔ میرا ارادہ ہے کہ اپنے ملک کے، نئے دور میں داخل ہونے اور ابھرتے ہوئے عالمی نظام میں تعمیری اور مؤثر کردار ادا کرنے کے لئے، ٹھوس بنیادیں فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، رکاوٹوں اور چیلنجوں کا ازالہ کروں، اور اپنے ملک کے روابط کو آج کی دنیا کی ضروریات اور حقائق کے مطابق، منظم کروں۔
صدر اسلامی جمہوریہ ایران، ڈاکٹر مسعود پزشکیان کے خطاب کا متن درج ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
جناب صدر!
ایکسیلنسیز!
میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79ویں اجلاس کے آغاز اور آپ جناب کے مناسب انتخاب، پر مبارکباد کہتا ہوں اور امید ہے کہ اس اجلاس کا اہم موضوع یعنی "امن، پائیدار ترقی اور انسانی وقار" موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے ایک واضح افق کھول دے گا۔
میں پہلی بار صدر اسلامی جمہوریہ ایران کی حیثیت سے آپ سے مخاطب ہوں۔ ہمارے عوام نے مجھے بنیادی نعرے یعنی "قومی اتحاد" کی بنیاد پر ووٹ دیا۔ یہ نعرہ قرآن کریم میں خدائے تبارک و تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہے۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق:
خلقت میں، تمام انسانوں کی جڑ ایک ہی ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) کتاب کی بنیاد پر اختلافات کو حل کرنے کے لئے آئے ہیں۔ انسانوں کے درمیان اختلاف صرف اسی وقت ابھرتا ہے جب تک کہ حرص و لالچ اور مطلق العنانیت انہیں راہ حق سے دور نہ کر دے۔
امام علی (علیہ السلام) اپنے ایک گورنر سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:
پوری قوت سے لوگوں پر مہربانی کیا کرو، محبت کرو، اور اپنے فضل و لطف میں انہیں شامل فرما۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنے ماتحت لوگوں کے ساتھ بے رحمی اور تشدد سے پیش آؤ، کیونکہ لوگوں کے دو گروہ ہیں: یا تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں یا خلقت میں تمہارے برابر ہیں۔
تمام انبیاء کا مشن رنگ، نسل، جنسیت اور زبان سے قطع نظر، معاشرے اور تمام انسانوں کے درمیان حق و عدل کا فروغ تھا۔ دنیا میں امن و سلامتی کیا قیام اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ تمام انسانوں، معاشروں اور قوموں کے حقوق کو عدل و انصاف کے دائرے ملحوظ نہ رکھا جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج کی دنیا میں جنگ اور خونریزی کا سبب یہی نہیں ہے کہ ایک جارح نے دوسروں کے حقوق کو پامال کر دیا ہے، اور ایک قوم کے حقوق کو نظرانداز کیا ہے، امتیازی سلوک اور عدم مساوات پر مبنی رویہ روا رکھا ہے، ایک قوم کو کمزور اور پسماندہ رکھا ہے اور دوسروں کے حقوق کو نظر انداز کر رکھا ہے؟
جب
تک کہ ناانصافی، ظلم، توسیع پسندی اور غربت و افلاس دنیا اور خطے میں موجود ہو،
جنگ اور خونریزی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ہم جب تک کہ ان بدنظمیوں کی جڑوں کو نہیں
اکھاڑیں گے، اپنے بچوں کے مستقبل کو اندھیرے اور تباہی سے نجات نہیں دلا سکیں گے۔
جناب صدر!
میں "اصلاحات"، "قومی اتحاد"، "دنیا کے ساتھ تعمیری تعامل" اور "معاشی ترقی" کے ایجنڈے پر انتخابی مہم میں شریک ہؤا اور اپنے ہم وطنوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہؤا۔
میرا ارادہ ہے کہ اپنے ملک کے، نئے دور میں داخل ہونے اور ابھرتے ہوئے عالمی نظام میں تعمیری اور مؤثر کردار ادا کرنے کے لئے، ٹھوس بنیادیں فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، رکاوٹوں اور چیلنجوں کا ازالہ کروں، اور اپنے ملک کے روابط کو آج کی دنیا کی ضروریات اور حقائق کے مطابق، منظم کروں۔
جناب صدر!
دنیا والوں نے گذشتہ ایک سال کے دوران اسرائیلی ریاست کی حقیقت کو دیکھا لیا ہے۔ اس ریاست کے سرغنے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں، اور گذشتہ 11 مہینوں میں انہوں نے غزہ میں 41000 بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا ہے جن میں اکثریت بے گناہ عورتوں اور معصوم بچوں کی ہے؛ لیکن وہ نسل کُشی، طفل کُشی، جنگی جرائم اور ریاستی دہشت گردی کو "جائز دفاع" کا نام دیتے ہیں! ہسپتال اور نرسری اسکول اور اسکول پر بمباری کرتے ہیں اور اس کو "جائز عسکری دفاع" کا نام دیتے ہیں! حریت پسند انسانوں کو ـ جو دنیا کے مشرق اور مغرب میں ان کے ہاتھوں والی نسل کشی پر احتجاج کرتے ہیں ان کو "یہود دشمن" کا نام دیتے ہیں! ان مظلوم لوگوں کو، جو سات عشروں سے جاری قبضے اور تذلیل و تحقیر کے بعد ان کے خلاف اٹھے ہیں، "دہشت گرد" کا نام دیتے ہیں! جبکہ اسرائیل ہی ہے جو ہمارے سائنسدانوں، سفارت کاروں اور ہماری سرزمین میں ہمارے مہمانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بناتا ہے اور داعش، نیز خفیہ اور اعلانیہ دہشت گردی کرنے والے ٹولوں کی اعلانیہ حمایت کرتا ہے، اور اس کے مقابلے میں ایران حریت پسند اور عوامی تحریکوں اور ان لوگوں کی حمایت کرتا رہا ہے جو چار نسلوں سے اسرائیلی ریاست کے جرائم اور استعماریت کا شکار رہی ہیں۔
ہم آپ کے ملکوں کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں جو سڑکوں پر آکر اسرائیلی اقدامات کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں اور انسانیت کے خلاف جرائم کی مذمت کرتے ہیں۔
عالمی برادری کو چاہئے کہ فوری طور پر تشدد کا سلسلہ روک دے اور جلد از جلد مستقل جنگ بندی نافذ کرے، اور لبنان میں اسرائیل کی دیوانہ وار بربریت کو روک دے، اس سے پہلے کہ یہ بربریت پورے خطے اور دنیا کو آگ میں دھکیل دے۔ اسرائیلی ریاست غزہ میں شکست کھا گئی ہے اور وہ جرائم، بربریت اور جنگ کا دائرہ پھیلانے کی کوششوں کے ذریعے اپنی ناقابل تسخیر ہونے کے افسانے کو دوبارہ بحال نہیں کر سکتی۔ فطری امر ہے کہ حالیہ چند دنوں میں اس کے اندھادھند اور دہشت گردانہ جرائم اور لبنان پر جارحیت، جس وجہ سے ہزاروں بے گناہ انسان شہید اور زخمی ہوئے ہیں، جواب دیئے بغیر نہیں رہے گی، اور اس کے انجام کی ذمہ داری ان حکومتوں پر عائد ہوتی ہے جو اس خوفناک المیے کے خاتمے کے لئے ہونے والی بین الاقوامی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور اب بھی خود کو انسانی حقوق کے مدافع کے طور پر متعارف کراتے ہيں!
مغربی ایشیا اور دنیا میں بدامنی کے اس 70 سالہ ڈراؤنے خواب کے خاتمے کا واحد راستہ یہ ہے فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کو بحال کیا جائے۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ تمام تر فلسطینی عوام ـ خواہ وہ جو اس وقت مادر وطن (فلسطین) میں موجود ہیں، خواہ وہ جو خانہ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں ـ ایک عام ریفرینڈم میں اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس اقدام کے ذریعے پائیدار اور مستقل امن و سلامتی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور یہی ایک راستہ ہے جس پر گامزن ہو کر مسلمان، یہودی اور عیسائی ایک سرزمین میں امن و سکون کے ساتھ ـ اور نسل پرستی وار اپاتھائیڈ سے محفوظ ہو کر ـ جی سکتے ہیں۔
ایکسلینسز!
آپ خطے کی معاصر تاریخ پر ایک نظر ڈالیں! تو دیکھ لیں گے کہ ایران نے کبھی بھی کسی جنگ کا آغاز نہیں کیا اور صرف بیرونی جارحیت کے مقابلے میں بہادرانہ انداز سے اپنا دفاع، اور جارحوں کو اپنے کئے پر نادم م پشیمان کرتا رہا ہے۔
ایران نے کسی بھی قوم کی سرزمین پر قبضہ نہيں کیا ہے، کسی بھی ملک کے وسائل کو لالچ کی نگاہ سے نہیں دیکھا ہے؛ اور خطے میں مستقل امن و سلامتی کے قیام کے لئے کئی بار بین الاقوامی فورموں اور پڑوسی ممالک کو منصوبے پیش کئے ہیں۔
ہم نے علاقائی اتحاد اور ایک "طاقتور خطے" کی تشکیل کی بات کی ہے، اور ایک متحد اور طاقتور خطے کا قیام ذیل کے چند اصولوں پر استوار ہے:
اول یہ کہ ہم تسلیم کریں کہ پڑوسی ہیں اور ہمسائیگی کی برکت سے، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ساتھ رہیں گے؛ خطے میں بیرونی قوتوں کی موجود عارضی اور عدم استحکام کا سرچشمہ ہے؛ ہماری اور آپ کی ترقی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ اپنی سلامتی بیرونی قوتوں کے سپرد کرنا، ہم میں سے کسی کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔
دوئم یہ کہ نیا علاقائی نظام وسیع البنیاد اور تمام ہمسایوں کے مفاد میں ہونا چاہئے، جو نظام پڑوسی ممالک میں سے ہر ایک کے مفادات کی تکمیل نہ کرے، وہ مستقل اور پائیدار نہيں ہو سکتا۔
سوئم یہ کہ پڑوسی اور برادر ممالک کو اپنے قابل قدر وسائل فرسودہ کردینے والی مسابقتوں اور فوجی رقابتوں پر ضائع نہ کریں۔ ہمارے خطے کو جنگ، فرقہ وارانہ کشیدگیوں، دہشت گردی اور انتہاپسندی، منشیات کی اسمگلنگ، پانی کی قلت، پناہ گزینوں کے بحران، ماحولیات کی تباہی اور بیرونی مداخلتوں کا سامنا ہے؛ ہم مل کر ہی ان مشترکہ چیلنجوں سے نمٹ کر اپنی اگلی نسلوں کے لئے بہتر مستقبل کی ضمانت فراہم کر سکتے ہیں۔
میں اس ملک کا صدر ہوں جس کو معاصر تاریخ میں کئی مرتبہ خطروں، جنگ، قبضے اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کبھی بھی کوئی ہماری مدد کو نہیں آیا ہے، ہماری غیرجانبداری کے اعلان کو خاطر میں نہیں لایا گیا ہے یہی نہیں بلکہ دوسرے لوگ ہمارے خلاف جارحیت کرنے والوں کی مدد کو آئے ہیں۔ ہم نے تجربے سے سیکھا ہے کہ ہم اکیلے، اپنے عوام کی مدد سے اور اپنی مقامی صلاحیتوں کے سہارے، جی سکتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کا عزم صمیم ہے کہ اپنی سلامتی کی ضمانت فراہم کرے، نہ کہ دوسروں کو بدامنی اور خطروں سے دوچار کرے۔ ہمارا کسی سے بھی جنگ جھگڑا نہیں ہے۔
ہم یوکرین اور روس کے عوام کے لئے مستقل امن و سلامتی چاہتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران جنگ کی شدید مخالفت کرتے ہوئے، یوکرین میں جھڑپوں کے فوری خاتمے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، کسی بھی مصالحت آمیز راہ حل کی حمایت کرتا ہے اور اسے یقین ہے کہ اس بحران کے خاتمے کا واحد راستہ بات چیت ہے۔
جناب صدر!
آج کی آپس میں جڑی ہوئی میں ایک ملک کی سلامتی اور مفادات کو، دوسروں کی سلامتی اور مفادات تباہ کرنے سے، حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہمیں عالمی مسائل حل کرنے کے لئے نئی نگاہ کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی نگاہ کو ـ دھمکیوں اور خطرے پیدا کرنے کے بجائے ـ مواقع (Opportunities) پر مرکوز ہونا چاہئے۔ باہمی رابطوں اور تعامل کے اسی اصول کی بنیاد پر، تعاون کے لئے نئی بنیادوں کی فراہمی ممکن ہو جاتی ہے۔
ایران اور عالمی طاقتیں "مواقع پر مرکوز" رویے کی بنیاد پر مشترکہ جامع پلان آف ایکشن (Joint Comprehensive Plan of Action [JCPOA]) تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور ہم نے اپنے حقوق تسلیم کئے جانے پر اور پابندیاں ہٹانے کے بدلے، اپنے ایٹمی پروگرام پر شدید ترین نگرانیوں کو قبول کر لیا۔ لیکن ٹرمپ نے اس معاہدے کو ترک کر دیا جو کہ سیاسی میدان میں خطرے پیدا کرنے اور معاشی میدان میں طاقت کا استعمال کرنے، کے نظریئے پر مبنی اقدام تھا۔
یکطرفہ پابندیوں نے عوام کو نشانہ بنایا ہے اور ان پابندیوں کا مقصد ایران کی معاشی بنیادوں کی تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس کا مقصد ایران کو بدامنی سے دوچار کرنا ہے جس کے نتیجے میں سب بدامنی سے دوچار ہونگے۔
ایرانی قوم پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی سے کام لیا گیا جبکہ بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کی گواہی کے مطابق، ایران نے JCPOA کے تحت اپنی تمام ذمہ داریاں پابندی کے ساتھ، نبھائی تھیں۔
ہم JCPOA کے رکن ممالک کے ساتھ تعامل اور رابطوں کے لئے تیار ہیں، اگر JCPOA کے رکن ممالک مل کر اپنی تمام تر ذمہ داریاں مکمل طور پر خیر سگانی کے ساتھ پوری کریں، تو دوسرے مسائل کے بارے میں بھی مذاکرات کئے جا سکتے ہیں!
یہاں میں امریکی عوام سے کہنا چاہتا ہوں کہ:
ایران وہ ملک نہیں ہے جس نے آپ کے ملک کی سرحدوں کے قریب فوجی اڈے قائم کئے ہیں، ایران وہ نہیں جس نے آپ کے ملک پر پابندیاں لگائی ہیں اور دنیا کے ساتھ آپ کے تجارتی تعلقات کی راہ میں رکاٹ بنا ہے؛ ایران وہ ملک نہیں ہے جس نے آپ کو ادویات تک رسائی سے روک رکھا ہے، ایران وہ نہیں ہے جس نے عالمی بینکاری اور مالیاتی نظام تک رسائی سے روک رکھا ہے۔ [جبکہ آپ کا ملک ہے جس نے یہ سب ہمارے ساتھ روا رکھا ہے]۔
ہم نے آپ کی فوج کے سربراہوں کو قتل نہیں کیا ہے، یہ آپ کا ملک امریکہ ہے جس نے ایران کے ہر دلعزیر فوجی جنرل کو بغداد کے ہوائی اڈے میں دہشت گردی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا ہے۔
میرا پیغام دشمنی برتنے والے ممالک کے لئے
میرا پیغام ان ممالک کے لئے، جنہوں نے ایران کے مقابلے میں غیر تعمیری حکمت عملی اپنا رکھی ہے، یہ ہے کہ تاریخ سے سبق سیکھو، ہم ان رکاوٹوں کو عبور کر سکتے ہیں اور نئے دور کا آغاز کر سکتے ہیں۔ یہ نیا دور اس وقت شروع ہوگا جب سلامتی کے حوالے سے ایران کی تشویش کو تسلیم کیا جائے؛ نیز مشترکہ کام بھی مشترکہ مسائل کی بنیاد پر شروع ہو سکتا ہے۔
پابندیاں، تباہی پھیلانے والا اور غیر انسانی ہتھیار ہیں جنہیں ملک کی معیشت کو مفلوج کرنے کی غرض سے نافذ کیا جاتا ہے۔ اہم (اور انسانی حیات کے لئے) ضروری ادویات تک رسائی سے محروم ہونا، پابندیوں کے المناک ترین نتائج میں سے ای ہے، جو ہزاروں بے گناہ انسانوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ یہ اقدام، نہ صرف انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ، انسانیت کے خلاف جرم بھی ہے۔
ہماری قوم نے حالیہ برسوں میں پابندیوں سے جنم لینے والے مصائب و مسائل برداشت کرکے ثابت کیا ہے کہ یہ ظلم و ستم کے خلاف استقامت کا ثبوت فراہم کرنے والی قوم ہے۔ اگرچہ ہماری قوم کے جسم پر پابندیوں سے جنم والے زخم گہرے ہیں لیکن اس تلخ تجربے سے مقابلے کے عمل نے ہمیں پہلے سے زیادہ طاقتور، فولادی عزم کی مالک اور خود اعتماد قوم بنا دیا ہے
ایران ایک بہتر دنیا کی تعمیر کے لئے عالمی طاقتوں اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ موثر اور مساوی سطح کے اقتصادی، سماجی، سیاسی اور سیکورٹی تعاون و تعامل کے لئے تیار ہے۔
بلاشبہ ایران کی طرف سے بھیجے گئے اس پیغام کا مناسب جواب یہ نہیں ہے کہ اس پر مزید پابندیاں لگائی جائیں بلکہ مناسب جواب یہ ہے کہ عالمی طاقتیں ایران پر سے پابندیاں اٹھانے اور ایرانی عوام کے اقتصادی حالات کی بہتری کے حوالے سے اپنی سابقہ ذمہ داریوں پر عمل کریں اور اگلے سمجھوتوں کے لئے ماحول فراہم کریں۔
مجھے امید ہے کہ ایران سے اٹھنے والی اس آواز کو، آج اچھی طرح سے سنا جائے۔
شکریہ جناب صدر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110