اہل بیت(ع) نیوز
ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق، انقلاب یمن کے قائد اور مقاومتی تنظیم انصار
اللہ کے رہبر سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے اپنے ایک نشری خطاب میں ذیل کے نکات
بیان کئے:
- غزہ میں صہیونیوں نے 35000 سے زیادہ فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے جن میں زیادہ تر تعداد خواتین اور بچوں کی ہے اور اب وہ غزہ کی طرف جانے والی تمام گذرگاہوں کو بند کر رہے ہیں تاکہ غزہ کے المیے میں مزید شدت لائی جا سکے۔
- امریکیوں نے ابتداء ہی سے اپنے ہتھیار اس انداز سے بنائے ہیں کہ ان کے ذریعے ایک شہر کے تمام باشندوں کو بیک وقت قتل کیا جا سکتا ہے۔ امریکیوں نے ہی رفح پر اسرائیلی حملے کا منصوبہ بنایا اور اس حوالے سے وہ اسرائیل کی ہر طرح کی مدد کر رہے ہیں۔
- صہیونی ریاست ہر روز کئی مرتبہ فلسطینیوں کے اجتماعی قتل کا ارتکاب کر رہی ہے، اس سال کا المیہ نکبت کے چھترویں سال کے آغاز پر رقم کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکیوں نے یہودیوں کی مدد کی تاکہ وہ فلسطین پر قبضہ کریں اور فلسطینی احرار کو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کریں۔
- اس زمانے میں بھی عرب اور اسلامی ممالک برطانیہ اور یہودیوں کے اقدامات کے سامنے بے حسی کا شکار رہے؛ دوسری بہت بڑی غلطی یہ تھی کہ ان ممالک نے اپنی نصابی کتب سے فلسطین پر یہودی قبضے کے واقعات کو حذف کر دیا۔
- فلسطین پر قبضہ، فلسطینیوں کا اجتماعی قتل اور بیسویں فیصد کا سب سے سے بڑا نسلی صفایا، امریکہ اور برطانیہ کے ماتھے پر کلنک کا انمٹ ٹیکہ ہے۔
- یہ کہ اسرائیل کو اقوام متحدہ کے رکن کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے، اس عالمی ادارے کے لئے دائمی ابدی بدنامی ہے۔
- واقعۂ نکبت [اور فلسطین پر یہودی قبضے] کے مقابلے میں عرب ممالک کی بے حسی اور قصور ہی باعث ہؤا کہ اسرائیل نے قدس شریف سمیت فلسطین کے دوسرے علاقوں پر قبضہ کیا۔
- اسلامی اور عربی ممالک کے بعض حکمران حقائق کو بخوبی جانتے ہیں لیکن اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے پہلو تہی کرنے کے لئے غزہ پر صہیونی جارحیت کو ایران کا مسئلہ قرار دے رہے ہیں اور امریکہ اور اسرائیل بھی یہی ظاہر کر رہے ہیں کہ غزہ کے خلاف جنگ ایران کا مسئلہ ہے، لیکن یہ ایک احمقانہ مکاری ہے۔ امریکہ یہ جتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ عرب ممالک کا اپنا کوئی ہدف و مقصد یا مستقبل نہیں ہے، بس انہیں اسرائیل پر قربان ہونا چاہئے، چنانچہ انہیں اسرائیل کے ساتھ دوستی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ یہ اقدام عرب اقوام کو احمق سمجھنے کے مترادف ہے۔
- ایران کچھ دوسرے ممالک کی طرح مسئلۂ فلسطین کی حمایت کرتا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ مسئلۂ فلسطین ایک دینی مسئلہ ہے۔
- ہمیں امید ہے کہ امریکہ سمیت مغربی یونیورسٹیوں میں، غزہ کی حمایت میں، طلبہ کی احتجاجی تحریک بدستور جاری رہے۔
- رفح پر یہودی ریاست کی یلغار کے بارے میں مغربی اور امریکی تشہیری مہم بالکل بے بنیاد ہے، حقیقت یہ ہے کہ رفح پر حملے کا نقشہ اور منصوبہ امریکیوں نے تیار کیا، لیکن فلسطینی مجاہدین صہیونی دشمن کو پہلے سے زیادہ شدت سے جانی اور مالی نقصانات پہنچا رہے ہیں۔ انہوں نے حالیہ ایک ہفتے میں صہیونی دشمن کے 70 سے زیادہ ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ غزہ پر جاری اسرائیلی حملہ اور رفح میں کشیدگی میں شدت لانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی جنگی صلاحیتیں گھِساؤ سے دوچار ہو کر فرسودہ ہو گئی ہیں۔
- یمن کی مسلح افواج نے صہیونی ریاست پر 211 میزائلوں سے 40 کامیاب حملے کئے ہیں اور موجودہ ہفتے میں ہم نے اپنی کاروائیوں کا آغاز بحیرہ روم (Mediterranean Sea) دو حملوں سے کیا۔
- ہم نے اب تک امریکی جہازوں پر 100 سے زیادہ، حملے کئے ہیں۔ امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ بحر ہند میں اپنا راستہ بدلنے کی کوشش کرتے ہیں اور مشرقی یمنی ساحلوں کے قریب نہیں آنا چاہتے، جس کی وجہ سے انہیں ناقابل برداشت اخراجات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔
- ہم نے غزہ کی حمایت میں اپنی کاروائیوں کے چوتھے مرحلے کا آغاز کیا ہے جو بہت اہم مرحلہ ہے۔ دنیا کی تمام کمپنیوں کے ان جہازوں کو نشانہ بنایا جائے گا جو اسرائیلی ساز و سامان منتقل کرنا چاہیں گے۔ البتہ ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ بہت ساری کمپنیاں مزید اسرائیلی ساز و سامان نہیں اٹھاتیں۔ اور ہم بھی کہتے ہیں کہ یہ جہازرانی کی کمپنیوں کے مفاد میں ہے کہ وہ اسرائیلی سازوسامان منتقل کرنے سے پرہیز کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110