اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ ہم سب اپنی زندگی میں مشکلات اور مسائل سے دوچار ہیں جو کبھی تو ہمیں اس قدر تھکا دیتی ہیں کہ دنیا اور زندگی کی نسبت بدگمان ہوجاتے ہیں؛ تو دنیا میں اتنی ساری مشکلات اور مسائل کا سبب کیا ہے؟
اہل بیت (علیہم السلام) دنیا کو دار البلاء اور آزمائشوں کا گھر اور آخرت تک پہنچے کے لئے پل سمجھتے ہیں۔ یہ دنیا انسان کا بنیادی مقصد نہیں ہے؛ بلکہ ایک راستہ ہے کہ اگر اس سے درست فائدہ لیا جائے تو ہمیں اصلی منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: "الدُّنْیَا مَزْرَعَةُ الْآخِرَة؛ دنیا آخرت کی کھیتی ہے"۔ (عوالی اللآلی، ج1، ص267، ح66) یعنی ہم دنیا میں جو بھی بوئیں گے، آخرت میں وہی کاٹیں گے۔ بایں معنی کہ ہم جو بھی اچھا یا برا عمل انجام دیں گے اس کا نتیجہ آخرت میں ہمیں ملے گا؛ "فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَ مَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ؛ تو جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس (کی جزا) دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ بھی اس (کی سزا) کو دیکھ لے گا"۔ (سورہ زلزال، آیات 7-8) کتنی اچھی بات ہے کہ ہم اپنے نامۂ اعمال کو نیک اعمال اور ثواب سے مالامال کریں، جو دنیا میں ہمارے لئے آخرت کا ذخیرہ ہوں۔
امام ہادی علیہ السلام نے دنیاع کو بازار سے تشبیہ دی ہے جس میں بعض نفع کماتے ہیں اور بعض نقصان اٹھاتے ہیں؛ یعنی ہمیں اختیار دیا گیا ہے کہ دنیا کے اس بازار میں سے آخرت کے لئے نفع کمائیں یا اپنے نامۂ اعمال کو نیک اعمال سے خالی رکھیں اور گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوں اور خالی ہاتھ سفر آخرت پر نکلیں۔
ہماری یہ دنیا بےشمار سختیوں، بلاؤوں اور اللہ کی طرف کی آزمائشوں کی دنیا ہے، اور یہ تمام بلائیں اور مصبتیں ہم سب کو درپیش ہیں؛ جیسا کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: "دَارٌ بِالْبَلَاءِ مَحْفُوفَةٌ ۔۔۔؛ [یہ دنیا] ایسا گھر ہے، جسے آزمائشوں اور رنج و بلا میں گھیر لیا ہے"۔ (نہج البلاغہ، طبع دشتی، ص462، خطبہ نمبر 226)۔
چنانچہ اس میں شک نہیں ہے کہ یہ دنیا آزمائشوں کی بستی ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ اس دنیا کی آزمائشوں اور بلاؤں کے ساتھ ہمارے تعامل کی نوعیت کیا ہے؟
یہاں ہم امام ہادی (علیہ السلام) کی نگاہ میں دنیا کے مصائب اور بلاؤں کے ساتھ تعامل کی دو روشوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
خدائے مہربان کے ساتھ مستحکم رابطہ آزمائش کی گھڑی باعث تسکین ہے
ہم اللہ کے ساتھ اپنے ربط کو جس قدر مستحکم کریں گے اور جب تک کہ خدا ہی کی رضا و خوشنودی ہمارے لئے ترجیح رکھتی ہو، دنیا کے مسائل ہمارے لئے آسان ہو جائیں گے۔ امام ہادی (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"وَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَة مِنْ رَبِّهِ هانَتْ عَلَيْهِ مَصائِبُ الدُّنْيا وَلَوْ قُرِضَ وَ نُشِرَ؛ جو بھی خداپرستی کی راہ پر، جم کر، استوار رہے گا، دنیا کی مصیبتیں اس پر ہلکی ہوجائیں گی، خواہ وہ قینچی کے ذریعے ریزہ ریزہ ہی کیوں نہ ہوجائے"۔ (تحف العقول، ص483)۔
اگر اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق قوی ہو اور صرف اور صرف اس کی خوشنودی ہمارے مد نظر ہو، بلاؤں اور مصیبتوں کو اللہ کی طرف کی نعمت کے طور پر دیکھیں گے، اور کسی چیز سے بھی خوفزدہ نہیں ہونگے اور ان بلاؤں اور آزمائشوں پر ہمارا صبر اور مشکلات کے مقابلے میں ہماری استقامت خداوند متعال کے ہاں ہمارے درجات کی بلندی کا سبب بنے گا۔ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: "لَوْ يَعْلَمُ اَلْمُؤْمِنُ مَا لَهُ فِي اَلْمَصَائِبِ مِنَ اَلْأَجْرِ لَتَمَنَّى أَنْ يُقَرَّضَ بِالْمَقَارِيضِ؛ اگر مؤمن جانتا کہ مصائب میں ابتلا کی وجہ سے اس کو کتنا اجر ملتا ہے تو وہ تمنا کرتا کہ اس کا بدن قینچیوں کے ذریعے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے"۔ (اصول کافی، ج3، ص354) اور ہم جانتے ہیں کہ جہاد و شہادت کی راہ پر گامزن لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔
ہمیں گلاس کا آدھا بھرا حصہ بھی دیکھنا چاہئے
مشکلات اور مسائل کے اثرات انسان کے جسم تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ مسائل کبھی انسان کی روح اور نفسیات پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ ان کے نفسیاتی اثرات کئي گنا زیادہ ہوں اور انسان منفی سوچوں اور منفی افکار سے دوچار ہوجائے؛ اور ان اثرات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے نگاہ کو منفی سے مثبت میں بدلنا منفی افکار کو دور کرنا پڑے گا؛ یہ منفی سوچوں کے دور کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ دنیاوی سختیوں، بلاؤں اور آزمائشوں میں بھی نگاہ کی تبدیلی ہماری مدد کرسکتی ہے کہ مصائب اور دشواریاں ہمیں نابود نہ کریں اور ہم ان سے چھٹکارا حاصل کریں؛ اور وہ یوں کہ پہلے ہم دیکھ لیں کہ اللہ نے ہمیں کن کن نعمتوں سے نوازا ہے جو ابھی ہمارے پاس ہی ہیں اور اللہ نے انہیں ہم سے چھینا نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ دنیا کو اپنا مقصد نہ سمجھیں اور اس کے مصائب و مسائل کو اخروی اجر و ثواب کا ذریعہ سمجھیں، تو اگر ہم اس نگاہ سے دنیا کو دیکھیں تو کوئی بھی مشکل اور کوئی بھی بلا اور آزمائش ہمیں ناامید نہیں کرسکتی۔
امام ہادی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "إِنَّ اَللَّهَ جَعَلَ اَلدُّنْيَا دَارَ بَلْوَى وَ اَلْآخِرَةَ دَارَ عُقْبَى وَ جَعَلَ بَلْوَى اَلدُّنْيَا لِثَوَابِ اَلْآخِرَةِ سَبَباً وَ ثَوَابَ اَلْآخِرَةِ مِنْ بَلْوَى اَلدُّنْيَا عِوَضاً؛ خداوند متعال نے دنیا کو آزمائشوں اور بلاؤں کا گھر قرار دیا اور آخرت کو اجر و پاداش کا گھر، اور دنیا کے مصائب کو ثواب آخرت کا سبب اور آخرت کے ثواب کو دنیاوی آزمائشوں کا عوض قرار دیا ہے"۔ (تحف العقول، ص483)
اور اگر ہم ایسا کریں تو گویا کہ ہم نے گلاس کے آدھے بھرے حصے کو بھی دیکھ لیا ہے اور گلاس کا آدھا بھرا حصہ دنیا کی باقیماندہ نعمتیں اور آخرت کا اجر و ثواب ہے۔ یہ روش مصائب اور بلاؤں کے دوران ہماری مدد کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حجتالاسلام سید احسان دِہسار، حوزہ علمیہ قم کے استاد
ترجمہ و تکمیل: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۱۰