اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ ٹرمپ کے حامی رائے دہندگان کی تعداد میں شدید اضافے سے ثابت ہؤا کہ اس کے باوجود کہ ٹرمپ کی نسل پرستی عروج پر رہی، انھوں نے ملک کو معاشی اور سماجی و سیاسی عدم استحکام سے دوچار کیا، بین الاقوامی معاہدوں سے علیحدہ ہوئے، یورپیوں کے خلاف شدید اقدامات کیے، جنرل شہید سلیمانی اور ابو مہدی المہندس پر دہشت گردانہ حملے کرکے عالمی سطح پر امریکی مفادات اور امریکیوں کی جان میں خطرے میں ڈال دی لیکن یہ سارے مسائل امریکی رائے دہندگان پر اثر انداز نہیں ہوئے۔
گوکہ دنیا بھر میں ٹرمپ کو ایک استثنائی مسئلہ قرار دینے کی کوشش کی گئی اور کہا جاتا رہا کہ وہ غلطی سے امریکی جمہوریت میں آٹپکے ہیں، اور ان کے جانے کے بعد اس کے رجحانات اور افکار بھی رخصت ہوجائیں گے؛ یہاں تک بھی کہا گیا کہ اگر دنیا کو کورونا سے قبل اور بعد کے ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے تو امریکہ کو بھی ٹرمپ سے پہلے اور بعد کے زمانوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ لیکن ٹرمپ کے حوالے سے کم از کم یہ خیال درست ثابت نہ ہؤا۔
ٹرمپ ازم یا ٹرمپی مکتب رہے گا، کیوں؟ اس لئے کہ صدارتی انتخابات میں سات کروڑ 10 لاکھ امریکیوں نے انہیں ووٹ دیا ہے؛ وہ امریکی سیاست سے رخصت ہوئے لیکن جب 2016ع میں وہ کامیاب ہوئے تھے تو انہیں اس سے کہیں کم ووٹ ملے تھے اور شکست سے دوچار ہوئے تو اس سے کہیں زیادہ ووٹ حاصل کرکے شکست سے دوچار ہوئے۔ چنانچہ ٹرمپ نے نہ صرف امریکیوں کا اعتماد نہیں کھویا بلکہ ووٹوں کی کمیت کے لحاظ سے کہیں زیادہ معتبر ہوگئے! انھوں نے زیادہ سے زیادہ ووٹ لے کر شکست کھائی اور سابق صدر بارک اوباما نے کہا: بائڈن اور ٹرمپ کو ووٹ دینے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی لیکن یہ خوشی کی بات نہیں ہے بلکہ امریکی معاشرے میں ایک بڑی دراڑ کی علامت ہے؛ ایسی دراڑ جس کی دو اطراف میں کوئی اقلیت یا اکثریت نہیں ہے اور یہ دونوں اطراف ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کی ٹکر کے حریف رہیں گے۔
سوال یہ ہے کہ ٹرمپ جو بدترین، شرپسندترین، بےمنطق ترین امریکی صدر سمجھے جاتے تھے اور تھے بھی، تو چار سال کی شرپسندیوں کے باوجود ان کے ووٹ بینک میں اتنا اضافہ کیوں ہؤا؟ کتنے فیصد امریکی مانتے ہیں کہ وہ بدترین صدر تھے؟ دنیا والوں نے بھی اور امریکیوں نے بھی چارسالہ عرصے میں اس کی تمام تر برائیوں کا مشاہدہ کیا مگر ان کے ووٹروں میں گذشتہ انتخابات کی نسبت کمی کیوں نہیں آئی؟ جواب یہ ہے کہ "یہی امریکہ کا حقیقی چہرہ ہے"۔ امریکی جمہوریت یہی ہے جس میں ٹرمپ جیسے جرائم پیشہ اور قانون شکن شخص کو جرائم کے ایک اچھے خاصے دور کے بعد اتنی پذیرائی ملتی ہے اور کامیاب امیدوار کے برابر اعتبار و اعتماد لے کر اقتدار سے الگ ہوجاتا ہے۔
ٹرمپ کے حامی رائے دہندگان کی تعداد میں شدید اضافے سے ثابت ہؤا کہ اس کے باوجود کہ ٹرمپ کی نسل پرستی عروج پر رہی، انھوں نے ملک کو معاشی اور سماجی و سیاسی عدم استحکام سے دوچار کیا، بین الاقوامی معاہدوں سے علیحدہ ہوئے، یورپیوں کے خلاف شدید اقدامات کیے، جنرل شہید سلیمانی اور ابو مہدی المہندس پر دہشت گردانہ حملے کرکے عالمی سطح پر امریکی مفادات اور امریکیوں کی جان میں خطرے میں ڈال دی لیکن یہ سارے مسائل امریکی رائے دہندگان پر اثر انداز نہیں ہوئے۔ مہم جوئیاں اور مہم جؤوں سے محبت امریکی ثقافت و اقدار کا حصہ ہے چنانچہ ہم مستقبل میں ٹرمپ ازم کے جاری رہنے اور جم جانے کو یقینی سمجھتے ہیں، کیونکہ کوئی چیز بھی نہیں بدلے گی۔ صرف ایک چیز بدلے گی اور وہ "لہجہ اور روش" ہے اور بس۔
نئی حکومت کے صدر جناب جو بائڈن نے انتخابات سے قبل کہا تھا کہ "یہ درست ہے کہ میں ایک یہودی نہیں ہوں اور عیسائی نہيں ہوں لیکن ظاہر ہے کہ صہیونی بننے کے لئے یہودی ہونا ضروری نہیں ہے؛ چنانچہ اسرائیلیوں کو یقین کرنا چاہئے کہ میں ایک صہیونی عیسائی ہوں"۔
چنانچہ صہیونی-یہودی ریاست، بدستور امریکیوں کے لئے ایک سرخ لکیر کی حیثیت رکھتی ہے؛ بائڈن ٹیم نے ٹرمپ کی بہت سی پالیسیوں کی تأئید کی ہے: انھوں نے بیت المقدس کو یہودی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا ہے؛ جولان کے مقبوضہ فلسطین میں ضم کرنے کے ٹرمپ کے فیصلے کی تأئید کی ہے؛ بائڈن اور اس کی ٹیم کے افراد نے الحاج قاسم سلیمانی پر ٹرمپ کے دہشت گردانہ حملے کی تأئید کی ہے اور افغانستان، عراق اور شام میں ٹرمپ کی پالیسیاں جاری رہیں گی؛ وینیزویلا، کیوبا اور شمالی کوریا بدستور امریکی غضب کا نشانہ بنتے رہیں گے۔ بین الاقوامی تنظیموں اور معاہدات میں واپسی انجام کو پہنچے گی لیکن اس واپسی کا مقصد یہ ہے کہ نئی حکومت بین الاقوامی عرف و آداب سے فائدہ اٹھا کر اپنے مستکبرانہ اہداف کے حصول کے لئے کوشاں رہے۔ بالفاظ دیگر، ٹرمپ کی جن پالیسیوں کو امریکی بالادستی کو نقصان پہنچ سکتا ہے، انہیں تبدیل کیا جائے گا اور ٹرمپ ازم کے بہی خواہ بھی ان تبدیلیوں سے ناراض نہيں ہونگے۔
ٹرمپ نے عریاں ہوکر امریکہ کا حقیقی چہرہ نمایاں کیا ورنہ جو کچھ انھوں نے کیا وہی امریکی کی اصل پالیسی کے مطابق تھا؛ ٹرمپی اقدامات کی عریانی نے بہت سوں کو ناراض کردیا لیکن نئی ٹیم کا لب و لہجہ سفارتکارانہ ہوگا اور اس کی روش پیشہ ورانہ ہوگی اور بائڈن کے دور میں روایتی ظاہرداری کا لحاظ رکھا جائے گا۔ ٹرمپ ایک سیاستدان نہیں تھے اور ان کی پالیسیاں امریکی ثقافت و اقدار کے اصلی رنگ میں رنگی ہوئی تھیں جبکہ بائڈن اس رنگ کو ہٹا دیں گے اور ان ہی کی پالیسیوں کوجاری رکھیں گے۔
بائڈن ایران کے ساتھ کے ایٹمی معاہدے میں واپس آنے کی کوشش کریں گے اس لئے کہ یورپیوں کو ساتھ ملا سکیں اور ایران کے خلاف ٹریگرم میکانزم کی پالیسی (trigger mechanism policy) کو فعال کرسکیں؛ بائڈن بھی ٹرمپ کے رویے کے عین مطابق خلیج فارس کی گایوں کا دودھ دوہنے کا عمل جاری رکھیں گے، محض لہجہ کچھ شریفوں جیسا ہوگا اور ٹرمپ کے عربدوں اور بدمستیوں کو کسی حد تک ایڈیٹ کیا جائے گا! یہ الگ بات ہے کہ بدمست ٹرمپ حالیہ عشروں کے واحد امریکی صدر تھے جن کے دور میں کسی جنگ کا آغاز نہیں ہؤا میں سے پہلے صدر تھے لیکن وہ ادب اور لہجے کی نرمی سے ناآشنا تھے چنانچہ ٹرمپ ازم کی جڑیں در حقیقت امریکیوں کی جمہوریت، ثقافت اور ان کی رائے میں پیوست ہے۔
امریکی ثقافت بدمستوں کی تربیت کرتی ہے۔ اس ثقافت سے ایسے انسان جنم لیتے ہیں جو بدمست بھی ہیں اور شمشیر بدست بھی ہیں اور غیر ذمہ دار بھی ہیں۔ اس بدمست زنگی کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہے جس کو وہ ذمہ دارانہ نگاہ سے نہیں دیکھتا اور اخلاق سے اس کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ امریکہ ہے جو اپنی اس سیاست و ثقافت کی روشنی میں، ایک ظالم وڈیرے کی طرح، جو اپنی عظمت کو عوام کے ساتھ محبت و انکسار کے ساتھ پیش آکر حاصل نہیں کیا کرتا بلکہ اس کی آرزو ہوتی ہے کہ سماج اس سے خوفزدہ ہو، وہ معاشرے کے خوف و ہراس کے مزے لیتا ہے اور خوف و ہراس پیدا کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرتا ہے۔
امریکی رائے دہندگان - بالخصوص وہ جنہوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا - وہ بدمست شہرت پسند ہیں جن کے پاس طاقت، دولت اور اسلحہ ہے؛ لیکن ان چیزوں کے ساتھ زندگی کی ذمہ دارانہ دانش سے بےنصیب ہیں۔ اور مشکل یہ ہے کہ وہ اپنی بدتہذیبی کی تہذیب کو تہذیب و ثقافت اور سیاست کی عالمگیریت کا مرکز سمجھتے ہیں اور خوف و ہراس پھیلا کر، دولت اور طاقت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اسی بدتہذیبی کو فروغ دینے کے عادی ہیں۔ اور دنیا کے بہت سے ممالک منجملہ عرب ممالک، زیادہ سے زيادہ خوفزدہ ہوکر اس وڈیرے کے اصطبل کی چوکیداری کررہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں وڈیرے کی نامعقولیت انہیں تباہ و برباد کرسکتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: ڈاکٹر عبداللہ گنجی؛ سیاسی امور اور اسلامی انقلابی کے تجزیہ نگار اور "روزنامہ جوان" کے ایڈیٹر انچیف۔ (پایان ترامپ و تثبیت ترامپیسم)
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۴۲