اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
پیر

28 مارچ 2022

3:47:35 PM
1242727

امریکی اپنے ملک کے زوال پر متفق الرائے ہیں ۔۔۔ ڈاکٹر فؤاد ایزدی

امریکہ کا اتحادی بننے، امریکہ کے ساتھ ہم آہنگ ہونے اور امریکیوں سے ڈکٹیشن لینے کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ حالیہ برسوں کے دوران مغرب نواز دھڑے افغانستان، یوکرین، شام، یمن، لبنان اور ایران میں مشکلات سے دوچار ہوئے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ ایرانی قوم پر امریکہ کا زیادہ سے زیادہ دباؤ مہم (Maximum pressure campaign) کی مکمل ناکامی کا مسئلہ، امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے یوم نوروز کے خطاب کے نکات میں سے ایک تھا۔ آپ نے فرمایا:
"سنہ 1400 ہجری شمسی کے اہم ترین خوشگوار واقعات میں سے ایک یہ تھا کہ امریکیوں نے البتہ حالیہ ایام میں ہی، اعتراف کیا اور اپنی ہی زبان سے کہہ دیا کہ ہمیں ایران کے خلاف زیادہ سے دباؤ کی مہم میں "خفت آمیز" شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ "خفت آمیز شکست" امریکیوں کے اپنے الفاظ تھے۔ بہت اہم واقعہ ہے۔ ملت ایران [اس جنگ میں بھی] فاتح ہوئی"۔ انھوں نے دور اور نزدیک کے علاقوں میں امریکیوں کی دوسری ناکامیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ واقعات اس حقیقت کی علامت ہیں کہ ملت ایران صحیح راستے پر گامزن ہے۔
رہبر انقلاب کی اخباری ویب گاہ (KHAMENEI[.]IR) نے امریکی شکست اور زوال کا تفصیلی جائزہ لینے کی غرض سے تہران یونیورسٹی میں سیاسیات کے امریکی مطالعات مرکز (American Studies Group) کے استاد ڈاکٹر فؤاد ایزدی کے ساتھ ایک مکالمہ ترتیب دیا ہے۔

مکالمے کا متن ملاحظہ فرمائیں:
سوال: رہبر انقلاب امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے عید نوروز کے موقع پر جو خطاب کیا اس میں دہرائے جانے والے موضوعات میں سے ایک "خطے اور دنیا میں امریکہ" کی شکست ہے۔ آپ اس کی کچھ مثالیں پیش کیجئے۔
جواب: گذشتہ چند برسوں میں "اقا" نے کئی بار اپنے ارشادات میں امریکی زوال کی طرف اشارہ کیا۔ اس سے چند سال قبل ایک امریکی پروفیسر نے امریکی زوال کو دیمک جیسا سست رفتار زوال (a slow ‘termite-like’ decline) کا عنوان دیا۔ جب ہم امریکی زوال کی بات کرتے ہیں تو کچھ لوگ اونچی عمارتیں دیکھ کر ذہنی الجھاؤ کا شکار ہوجاتے ہیں اور امریکہ کی ظاہری شکل و صورت اس حقیقت کے ادراک میں آڑے آتی ہے؛ اور انہیں امریکی زوال کا یقین نہیں آتا۔ لیکن چونکہ یہ زوال دیمک کی کاروائی جبیسا سست رفتار ہے، ظاہری شکل قابل قبول رہتی ہے اور کچھ عرصے تک زوال کا یہ سلسلہ درپردہ رہتا ہے؛ لیکن دیمک اسے اندر سے چاٹ جاتا ہے لہذا کچھ عرصہ بعد اس کا جسم کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ یہ موضوع حالیہ برسوں کے دوران حضرت آقا کے کلام میں بارہا دہرایا گیا۔ میرے خیال میں انھوں نے چار پانچ سال پہلی بار اس اصطلاح کا استعمال کیا اور اسی عرصے میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں، اس حقیقت کی بخوبی تائید و تصدیق کرتے ہیں؛ یعنی امریکہ کا زوال بڑ بڑی اور زیادہ سے زیادہ ناکامیوں اور شکستوں کا سبب بن رہا ہے۔
کیا ہؤا کہ امریکہ بین الاقوامی قواعد میں دو میں سے ایک بڑی طاقتوں میں تبدیل ہؤا؟ دوسری عالمی جنگ کے بعد دو ملکوں نے بڑی طاقت ہونے کا دعویٰ کیا: سوویت اتحاد اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ۔ جو لوگ امریکہ کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ ملک عالمی طاقت ہونے کا دعویدار نہیں تھا۔ لیکن کیا ہؤا کہ دوسری جنگ کے بعد امریکہ میں یہ ذہنیت ابھری کہ اس نے دنیا کی بڑی طاقت ہونے کا اعلان کیا۔ میرے خیال میں امریکہ پانچ وجوہات کی بنا پر اس نتیجے پر پہنچا۔ پانچوں وجوہات اور معیاروں میں ایسے اشارے موجود ہیں کہ یہ اشاریے اور معیار تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔
ان وجوہات اور معیاروں میں سے ایک امریکہ کی فوجی قوت تھی؛ یعنی امریکیوں نے بالادست فوجی قوت کے زور سے شمالی امریکہ کے سرخ فام باشندوں کی نسل کشی کرکے انہیں نیست و نابود کردیا تھا؛ کیوں؟ اس لئے وہ ایک فوجی قوت تھا اور وسیع پیمانے پر یورپی پناہ گزین بھی اس علاقے میں منتقل ہوچکے تھے اور امریکہ کے مشرقی علاقوں پر تسلط پانے کے بعد، یہ علاقہ ملک کے طور پر میدان جنگ میں اترا اور پڑوسی ملک میکسیکو کے ساتھ لڑ پڑا۔ امریکہ کی مغربی اور جنوب مغربی ریاستیں میکسیکو کا حصہ تھیں اور امریکیوں نے فوج طاقت کے بل بوتے پر ان ریاستوں پر قبضہ کیا۔ لاطینی امریکہ کے دوسرے ممالک کو بھی اس فوجی بالادستی کا نشانہ بننا پڑا؛ اور یوں امریکہ نے اس خطے کے ممالک کے خلاف جارحانہ کاروائیوں کا آغاز کیا اور امریکہ کا مافیائی حکومتی نظام - جس کی طرف رہبر انقلاب نے حال ہی میں اشارہ کیا ہے – منظر عام پر آیا۔ چنانچہ پہلا معیار اور پہلا سبب فوجی طاقت سے عبارت تھا اور یہ فوجی طاقت معاشی طاقت میں بدل گئی۔ امریکہ رقبے کے لحاظ سے بڑا ملک بن گیا، شمالی امریکہ میں اس کی رسائی مختلف قدرتی وسائل تک بڑھ گئی۔ بطور مثال یوکرین میں امریکہ اور روس کی جنگ میں، امریکہ یورپیوں سے کہتا ہے کہ "تم روس سے تیل اور گیس نہ خریدو اور یہ چیزیں ہم سے خریدو"۔ امریکی تیل اور گیس کے ذخائر ان ہی علاقوں میں پائے جاتے ہیں جنہیں امریکہ نے میکسیکو سے چرا لیا ہے۔
بہرحال یہ فوجی طاقت اقتصادی طاقت میں بدل گئی اور امریکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اقتصادی لحاظ سے دنیا کا پہلا ملک بن گیا، اور اس زمانے سے حالیہ برسوں تک دنیا کی معیشت کا 50٪ حصہ امریکہ کے قابو میں تھا۔ یورپ میں امریکہ کے روایتی اقتصادی حریف جیسے برطانیہ، فرانس، جرمنی نیز جاپان جیسے ممالک کی اپنی معیشتیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھیں۔ اسی وجہ سے، امریکیوں کو خاص اقتصادی طاقت حاصل ہوئی، اور یہ فوجی طاقت اقتصادی طاقت بھی بن گئی اور اقتصادی طاقت بڑی طاقت کی دعویداری کا دوسرا سبب و معیار تھا۔
تیسرا معیار امریکیوں کی سیاسی قوت تھی جو فوجی اور معاشی شعبوں میں طاقتور بن چکے تھے اور انھوں نے ان اوزاروں سے فائدہ اٹھا کر سیاسی طاقت بھی حاصل کرلی اور اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی اور اس میں اپنے لئے تشہیری مشینری بھی قرار دی۔ امریکیوں نے دوسری جنگ کے بعد بین الاقوامی اداروں کی بدیاد رکھی اور انہیں بین الاقوامی سطح پر اپنے اہداف و مقاصد کے لئے استعمال کیا۔
چوتھا معیار نرم طاقت ہے۔ جو ملک بڑی فوجی، معاشی اور سیاسی طاقت کا حامل تھا، وہ دنیا میں کافی جاذب نظر تھا؛ یعنی دنیا میں بہت سے لوگ امریکہ میں دلچسپی لینے لگے اور اس دلچسپی نے امریکہ کے لئے نرم طاقت فراہم کردی۔
پانچویں وجہ امریکہ کی ادارہ سازی اور تنظیم سازی کی طاقت تھی۔ جو ملک فوجی، معاشی اور سیاسی طاقت بن چکا تھا اور نرم طاقت کا حامل تھا، اور بڑی طاقت ہونے کے دعویدار امریکہ کو عالمی انتظام سنبھالنے کے لئے ادارہ سازی اور تنظیم سازی کی ضرورت تھی۔ چنانچہ اس نے ادارہ سازی میں بھی طاقت بن کر دکھایا اور یہ پانچ اسباب یا معیار وہ تھے جس نے امریکہ کو بڑی طاقت (Superpower) بننے کی ترغیب دلائی۔
اب سوال یہ ہے کہ گذشتہ برسوں میں امریکہ پر کیا افتاد پڑی؟ گذشتہ برس افغانستان میں امریکہ کو شرمناک فوجی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کے باوجود کہ امریکہ نے فوجی روانہ کرنے پر بڑی دولت لٹائی اور اس کے پاس جدیدترین ہتھیار اور فوجی وسائل تھے، مگر 20 برس تک افغانستان میں کھربوں ڈالر خرچ کرنے اور لاکھوں افغانوں کو قتل کرنے اور اپنے کئی ہزار فوجی مروانے کے بعد، نہایت شرمناک انداز سے بھاگ جانے پر مجبور ہوئے، اور اس تاریخی فرار کی تصویریں پوری دنیا میں پھیل گئیں۔
حالیہ برسوں میں امریکہ ایران میں، فوجی لحاظ سے، بہت کچھ کرنے کے لئے کوشاں رہا مگر مسلسل ناکامیوں سے دوچار ہؤا۔ اس کی وجہ اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ امریکہ کو فوجی شعبے میں مسائل اور ناکامیوں سے کیوں دوچار ہونا پڑا؟ یقینا شہید جنرل سلیمانی جیسی شخصیات کی وجہ سے۔ امریکی جنرل سلیمانی سے اسی لئے نفرت کرتا تھا کہ انھوں نے فوجی میدان میں امریکہ کو چیلنجوں سے دوچار کیا تھا۔
فوجی میدان میں مسلسل ناکامیوں نے امریکہ کو معاشی میدان میں بھی مسائل سے دوچار کیا۔ جس طرح کہ اس طاقت کی تشکیل فوجی شعبے سے شروع ہوئی اور دوسرے شعبوں تک سرایت کر گئی، اب فوجی شعبے میں مسائل سے دوچار ہونے کے بعد، امریکہ اپنی عالمی منزلت کھو چکا۔ فوجی طاقت کھوجانے کے بعد امریکہ زوال کی طرف گامزن ہؤا اور گامزن رہے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کا اتحادی بننے، امریکہ کے ساتھ ہم آہنگ ہونے اور امریکیوں سے ڈکٹیشن لینے کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ حالیہ برسوں کے دوران مغرب نواز دھڑے افغانستان، یوکرین، شام، یمن، لبنان اور ایران میں مشکلات سے دوچار ہوئے۔
ادھر معاشی اور فوجی میدانوں میں امریکی شکست نے اس کی مجموعی طاقت کو کم کردیا؛ کیونکہ سیاسی اور معاشی طاقت فوجی طاقت سے جنم لیتی تھی، جب یہ عقبی مُحافِظ (فوج) مشکلات سے دوچار ہؤا تو امریکی اقتصادی میدان میں بھی کچھ زيادہ کامیابی حاصل نہ کرسکے اور جمی کارٹر کے زمانے سے امریکہ کے قرضوں میں مسلسل اضافہ ہؤا۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اپنی معیشت کو لگنے والے صدمے سے ہنوز سنبھل نہیں پائے ہیں، یا یوں کہئے کہ اسی زمانے سے امریکہ کا معاشی زوال شروع ہؤا تھا۔ امریکی دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی معیشت کے 50٪ کو اپنے قابو میں لائے تھے اور آج عالمی معیشت پر امریکی کنٹرول 20٪ تک گر گیا ہے۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے تخمینوں کے مطابق آگلے تین یا چار سالوں میں 10٪ تک گر جائے گا۔ زوال کا یہ سفر نہایت تیزرفتاری کے ساتھ طے ہو رہا ہے۔
چنانچہ یہ اسلامی جمہوریہ ایران اور شہید قاسم سلیمانی جیسے شخصیات ہی ہیں جنہوں نے امریکہ کے معاشی زوال میں کردار ادا کیا۔ آج فوجی اور معاشی زوال کی وجہ سے امریکہ کا سیاسی مقام بھی متنازعہ بن چکا ہے اور وہ اپنا دبدبہ کھو چکا ہے۔ اگر امریکہ کی سیاسی پوزیشن قائم رہتی تو یقینا یوکرین موجودہ صورت حال سے دوچار نہ ہوتا۔ یوکرین کا مسئلہ امریکی زوال کی ایک موٹی علامت ہے جیسا کہ افغانستان سے فرار بھی امریکی انحطاط کا ایک بڑا ثبوت ہے۔
امریکہ کا فوجی، معاشی اور سیاسی زوال اس کی نرم طاقت کا زوال بھی ساتھ لایا ہے اور لا رہا ہے۔ آج دنیا میں کم ہی کوئی ذہین شخص ہوگا جو امریکہ کو پچھلی نسل کی نگاہ سے دیکھتا ہو اور امریکہ اب بہت سے لوگوں کے لیے پرکشش نہیں رہا۔ یہ امریکہ کی حقیقت ہے جو سب کے سامنے ہے۔ جب کورونا کی طرح کا کوئی وبائی مرض نمودار ہوتا ہے تو ریاستہائے متحدہ بیماری اور اموات میں پہلے نمبر پر آتا ہے، اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ ملک سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ چنانچہ جو لوگ اس سے پہلے امریکہ کے مختلف شعبوں کو اچھی نظر سے دیکھتے تھے، وہ اپنے پرانے خیالات سے پلٹ چکے ہیں۔ جب امریکہ کا سیاسی نظام ٹرمپ اور بائیڈن جیسے افراد کو اپنا سربراہ بناتا ہے، تو واضح ہے کہ امریکی اداروں میں کوئی بڑی مشکل معرض وجود میں آئی ہے۔ امریکی کانگریس، جو امریکہ میں حکمرانی کے بنیادی اداروں میں سے ہے لیکن امریکی عوام کا خیال ہے کہ اس کے دونوں ایوانوں کے اراکین بدعنوان اور جھوٹے ہیں؛ [اور ٹرمپ کے حامی اسی بنیادی ادارے چڑھائی تک کر دیتے ہیں] چنانچہ امریکہ میں ادارہ سازی اور تنظیم سازی کی صلاحیت بھی زائل ہوچکی ہے۔ چنانچہ ہم نے پانچوں شعبوں میں زوال و انحطاط کے نتیجے میں، حالیہ برسوں میں امریکہ کو متعدد ناکامیوں سے دوچار ہوتا ہؤا دیکھا۔ ان ناکامیوں میں سے ایک بڑی ناکامی اسلامی جمہوریہ پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی امریکی مہم میں ناکامی تھی جس کا وہ آج اعتراف کررہے ہیں؛ یعنی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی مہم عملی طور پر ایک بڑی شکست میں تبدیل ہوچکی ہے۔

سوال: زوال کا معاملہ امریکی دانشوروں کو کس حد تک سنجیدگی سے لیا جاتا ہے؟
جواب: فوکویاما جیسے لوگ - جو عالم اسلام میں بھی کافی حد تک مشہور ہیں اور 1990ع‍ میں امریکی لبرل جمہوریت کو انسانی تاریخ و تہذیب کی سب سے اونچی چوٹی سمجھتے تھے - نے زوال کے مسئلے کو بہت وسیع سطح پر چھیڑا ہے۔ گذشتہ برس انھوں نے فارن افیئرز میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ "امریکہ جڑوں سے بوسیدہ ہے"۔ بہت سے پیشوں میں ایسے لوگ ہیں جو امریکہ کے زوال پر متفق ہیں اور اس بات پر اجماع اور مفاہمت رکھتے ہیں اور کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو امریکہ کے زوال پر یقین نہ رکھتا ہو۔ جن پانچ معیاروں کا میں نے تذکرہ کیا، وہ سب مخدوش ہو چکے ہیں اور وہ خود ہم سے کہیں زیادہ،- ہر پہلو سے گہرائی کے ساتھ، اس موضوع کو زیر بحث لاتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم فلاں کام کریں گے تو زوال کی رفتار سست ہو سکے گی"، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ "امریکہ برباد ہوچکا ہے اور ہم جو بھی کریں اس کے زوال کی رفتار سست نہیں ہوگی"۔ مسٹر فوکویاما کہتے ہیں کہ "امریکہ جڑوں سے بوسیدہ ہوچکا ہے اور درست ہونے والا نہیں ہے"۔ یعنی کوئی بھی پالیسی، کوئی بھی حکمت عملی ایسی نہیں ہے جس پر امریکہ حکومت عمل درآمد کرے اور وہ نتیجہ خیز ثابت ہو"۔
مبصرین، تجزیہ نگار اور سیاسی نظریہ پردازوں کے علاوہ حتی کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں بھی اس یقین تک پہنچ چکی ہیں کہ امریکہ اپنی پوزیشن کھو رہا ہے۔ انٹیلی جنس کونسل نے سنہ 2030ع‍ کی دنیا کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں [حسرت کے ساتھ] کہا گیا ہے کہ دنیا کثیر قطبی (multi-polarized) ہو رہی ہے اور یہ طاقت اتحادوں اور نیٹ ورکس کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ وہ "تاریخی موڑ" جس کی طرف "حضرت آقا" نے اشارہ کیا تھا، بہت تیزی سے معرض وجود میں آرہا ہے۔

سوال: اگر آپ امریکہ کے زوال اور مختلف حالات میں اس کی موجودہ کمزوری کی عمومی وجہ بتانا چاہیں تو وہ کیا ہے؟
جواب: آپ کے جواب میں میں یہ سوال پوچھنا چاہوں گا کہ سوویت اتحاد کی حکومت کا خاتمہ کیوں ہؤا؟ سوویت اتحاد کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ نجی ملکیت (private property) کو تسلیم نہیں کرتا تھا جس کی وجہ سے سوویت معیشت مسائل سے دوچار ہوئی تھی۔ جب معیشت چیلنجوں کا شکار ہوئی تو سابق سوویت اتحاد کے بہت سارے اعلی اہلکار اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کا نظام بہت کارآمد نہیں ہے چنانچہ وہ مغرب میں دلچسپی لینے لگے اور سوویت اتحاد کا زوال مغرب نواز عناصر کا نتیجہ تھا۔
امریکی میں سرمایہ دارانہ نظام کی حکمرانی ہے اور اس ملک کو یہ مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ اس نے نجی ملکیت کو تسلیم کیا ہے لیکن اس تفکر میں زیادہ روی اور افراط سے کام لیا گیا ہے۔ امریکہ کا سرمایہ پرست نظام سرمایہ داروں کو سیاسی میدان میں گھسنے اور اثر و رسوخ پیدا کرنے کی اجازت دیتا ہے؛ کیسے؟ سرمایہ دار سیاستدانوں کے طبقے کی مالی مدد کے ذریعے۔ حضرت آقا نے بھی امریکی حکومت کو ایک مافیائی ریاست قرار دیا؛ یعنی معاشی مافیا جو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے سیاسی مافیا کو جنم دیتا ہے۔
امریکہ کا اصل مسئلہ اس کا مافیائی نظام حکومت ہے۔ جس وقت امریکہ کے سرمایہ دار مافیا نے سیاستدان طبقے کے ایک فیصد حصے کو ہم آہنگ کیا، تو ان ایک فیصد سیاستدانوں نے ان کے مفادات کے لئے کام کیا۔ اگر آج بھی امریکہ اور روس کے درمیان لڑائی امریکی مفاد میں ہے تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ لڑائی امریکہ کی اسلحہ ساز ہے کمپنیوں کے مفاد میں ہے۔ سیاستدانوں کی مدد کرنا ان کی تیل کی پالیسیوں کے مفاد میں ہے۔ تو کیا یہ عوامی مفاد میں بھی ہے؟ نہیں؛ کیوں؟ اس لئے اس وقت بجٹ میں سے بڑی رقوم اسلحہ ساز کمپنیوں کو منتقل ہو جاتی ہیں اور اس سے لوگوں کے حالات میں بہتری نہیں آتی۔
کمیونسٹ اور سرمایہ دارانہ نظام - دونوں - میں ایک زیادہ بنیادی اور خاص مشکل یہ بھی تھی کہ ان دونوں میں اخلاقیات اور مذہب کی طرف توجہ کا فقدان ہے۔ لبرل نظام کہتا ہے کہ "فرد" (Individual) ہے جو فیصلہ کرتا ہے کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے! لبرل جمہوریت کا یہ بنیادی بیانیہ ہے جو اخلاق کے تصور سے متصادم ہے۔ اسی لئے یہ کمیونسٹ نظام اور سرمایہ پرست نظام کا بنیادی مسئلہ ہے اور دونوں کو مشکلات سے دوچار کرتا ہے۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امریکہ میں اخلاقیات پر کتاب نہیں لکھی جاتی۔ کتاب لکھی جاتی ہے مگر اس کو لبرل تصور و تفکر میں بنیادی معیاروں کی فہرست میں درج نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ یہاں صرف اسلام ہے جس کے پاس کہنے کو کچھ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ نئی صدی (پندرہویں صدی ہجری شمسی = 1401ھ ش) جدید اسلامی تہذیب کی صدی ہو۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ آج کی دنیا میں اسلامی تفکر کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر فؤاد ایزدی، تہران یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر، امریکی مسائل کے تجزیہ نگار
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

منبع: فاران تجزیاتی ویب سائٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242