اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
ہفتہ

10 اپریل 2021

2:12:18 PM
1130105

ایران-چین جامع تعاون کا تزویراتی سمجھوتہ - 5

کیا ایران-چین جامع تعاون پروگرام کی دستاویز، ایک سامراجی دستاویز ہے؟

کچھ کہے بغیر واضح ہے کہ اس اسٹریٹجک مثلث کو اپنے اندر، مسائل اور اختلافات کو ایک منظم نظام کے سانچے میں ڈھال کر حل کرنے کی ضرورت ہے اور یقینی امر ہے کہ اگر ان مسائل کو صحیح انداز میں مرتب کیا گیا تو توانائی کا شعبہ اس میں بہت بہت اہم کردار ادا کرے گا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔گزشتہ سے پیوستہ؛

سوال نمبر7: کیا چین کے ساتھ جامع تعاون کا پروگرام اسلامی جمہوریہ کے بنیادی اصول "لا شرقیہ لا غربیہ" سے متصادم نہیں ہے؟

عجیب یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے اصول "لا شرقیہ - لاغربیہ" سے سب سے بڑا اور شدید اختلاف امریکہ اور اس کو حواریوں کو ہے مگر ان کے ذرائع ابلاغ اور ان کے علاقائی اور بین الاقوامی حواریین نے ایران اور چین کے درمیان جامع اسٹراٹیجک شراکت داری کی بحث کے آغاز ہی سے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے اور بڑے آب و تاب سے کہہ رہے ہیں کہ "اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے اصولی نعرے "لا شرقیہ - لاغربیہ" سے عدول کیا ہے"۔ لیکن یہ مسئلہ جب مغرب نوازوں کی طرف سے اٹھایا جاتا ہے تو ایک دل آزار طنز کی صورت اپنا لیتا ہے کیونکہ مغرب نواز ٹولے اور مغرب نواز حکمران اپنی جان کی گہرائیوں تک مغربی استعمار کو تسلیم کرچکے ہیں اور مغرب کے کٹھ پتلی ہونے پر فخر تک کرتے ہیں اور اس کے لئے انھوں نے کچھ نظریات بھی قائم کئے ہیں اور نظریہ سازیاں بھی کی ہیں!!! چنانچہ وہ وہ کلمۂ حق یعنی "لاشرقیہ لاغربیہ" کو استعمال کررہے ہیں لیکن اس سے ان کی مراد باطل ہے، وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے استقلال اور خودمختاری کے لئے فکرمند نہیں ہیں بلکہ (اس کے تو وہ خلاف ہیں) ان کی فکرمندی کا اصل سبب ایران مشرق کی طرف نظر کی حکمت عملی (Look to the East strategy) ہے اور اس مغالطہ کاری سے ان کا اصل مقصد ایران کو "مغرب کے سامنے سر تسلیم خم کرنے" کی ضمنی تجویز پر مبنی پیغام پہنچانا ہے۔ لہذا ان کی تنقید کو علمی لحاظ سے وقعت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

اور ہاں! اس شبہے کا جواب یہ ہے کہ "لاشرقیہ اور لاغربیہ" کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ مشرق اور مغرب سے تعلقات ہی منقطع کئے جائیں؛ مطلب سابق مشرقی استعمار (سوویٹ روس) اور مغربی استعمار (یعنی امریکہ) کے نوآبادیاتی نظام کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے سے عبارت ہے۔ چنانچہ مشرق کی طرف نظر کی حکمت عملی کا مطلب مشرق کے استحصال و استعمار کو تسلیم کرنا نہیں ہے بلکہ یہاں مشرق کے ساتھ بہتر اور برابر تعلق کا مسئلہ زیر بحث ہے اور وہ بھی ایسے حال میں کہ اسلامی حمہوریہ ایران نے اپنے ہی بعض سیاستدانوں کی مغرب نوازی کا مزہ چکھ لیا ہے اور مغرب نواز حکومتوں کا انجام بھی اس کے سامنے ہے۔

سوال نمبر 8۔ کیا ایران-چین جامع تعاون پروگرام کی دستاویز، ایک استعماری (سامراجی) دستاویز ہے

یقینا 25 سالہ تعاون کی دستاویز کی نوعیت رابطہ اور تعلق ہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ "رابطے" کو "استعمار" سے کس طرح تمیز دی جاسکتی ہے؟ یقینا - ایسے حال میں کہ مغرب نواز مبصرین اور مغرب کے علاقائی اور عالمی حواریین اپنے یا اپنے آقاؤں کے مقاصد کی خاطر، اس دستاویز کے خلاف تشہیری مہم چلا رہے ہیں اور کچھ ہمدرد لیکن حقائق سے لاعلم افراد، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران سے محبت کی بنا پر، خدشوں کا اظہار کررہے ہیں؛ - کہا جاسکتا ہے کہ ایک رابطہ جب کسی قوم و ملک کے اقدار - بشمول "آزادی" ، "انصاف" ، "سلامتی" یا "ترقی" – کو مخدوش کرے، تو وہ رابطہ استعمار کی صورت میں بدل جاتا ہے۔ اگر کوئی دستاویز کسی ملک کی آزادیِ عمل نیز طرز عمل کی آزادی کو متاثر کرے، یا "معطیات (Data)" اور "ماحصل" کی تشخیص میں منصفانہ نہ ہو، یا یہ کسی قوم اور ملک کی سلامتی اور ترقی کے منافی ہے تو یہ استعماری استحصالی دستاویز ہے۔

حالانکہ متعلقہ اداروں کی طرف سے اس ایران-چین تعاون پروگرام کی دستاویز کا جائزہ لینا مشکل نہیں ہوگا؛ اور ان ہی اداروں کے ذریعے، ان منصوبوں کا جائزہ لینا بھی آسان ہوگا، جنہیں خاص اعداد و شمار کے ساتھ لکھا جاتا ہے اور آزادی، انصاف اور امن و سلامتی کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے؛ چنانچہ اس وقت بیٹھ کر ایک دستاویز کے سلسلے میں غیب گوئی کرنا - وہ بھی اس خاص مرحلے میں - کچھ زیادہ معقول نہیں ہے۔ اور لگتا ہے کہ اس طرح کی باتیں کرنے والوں کو دستاویز کے سلسلے میں کوئی تشویش نہیں ہے، بلکہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی "مشرق کی طرف نظر" کی حکمت عملی سے خائف ہیں؛ مغرب نوازوں کے پاس اس قسم کی باتیں اچھالنے اور جھوٹی فکرمندیوں کا اظہار کرنے کے لئے ذاتی اور جماعتی یا سیاسی بہانے کم نہیں ہیں۔

 

سوال نمبر9: کیا ایران اور چین کے درمیان تزویراتی تعاون کے لئے حالات سازگار ہیں؟

گوکہ ایران کا دنیا میں کوئی بھی اسٹراٹیجک شریک کار نہیں ہے مگر امریکہ کے پیچیدہ اور شدید دباؤ کے باوجود، زیادہ تر پڑوسیوں اور چین، روس اور ہندوستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو جاری رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود، آج تک دنیا کے اہم ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات تزویراتی (Strategic) نہیں ہیں۔ جس وقت چینی صدر "شی جن پنگ" ایران کے دورے پر آئے، تو انھوں نے "ایران اور چین کے درمیان اسٹراٹیجک تعلقات" کے عنوان سے استفادہ کیا، لیکن چین اور ایران میں کم ہی کسی نے اسے سنجیدہ لیا۔

اسٹراٹیجک تعلقات کے قیام اور توسیع کے لئے کچھ پیشگی ضروریات شرطوں، تقاضوں اور وسیع سمجھوتوں کی ضرورت ہوتی ہے. گوکہ طاقت کی سطح میں تفاوت ہے مگر دو ملکوں کی ترجیحات دو ملکوں کے درمیان تضادات کا راستہ روک رہی ہیں؛ ایران کی ترجیح مغربی ایشیا اور چین کی ترجیح مشرقی ایشیا ہے اور پھر مغربی ایشیا، وسطی ایشیا، افغانستان اور پاکستان کا امن و استحکام دونوں کے مفاد میں ہے۔ توانائی کا شعبہ، انسداد دہشت گردی و انتہاپسندی اور کثیرالجہتیت (Multilateralism) کا نظریہ، ایران اور چین کے درمیان اسٹراٹیجک شراکت داری کی بنیادیں ہیں۔ تزویراتی شراکت داری کی ایک تمہید یہ ہے کہ ایران دنیا بھر میں تیل پیدا کرنے والا چوتھا اور گیس پیدا کرنا والا دوسرا بڑا ملک اور چین توانائی کا سب سے بڑا صارف ہے۔

یہ بلاوجہ نہیں ہے کہ چین نے روس کے ساتھ تیل اور گیس کے تبادلے پر زیادہ توجہ دی ہے کیونکہ روس جو دنیا میں تیل اور گیس برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بھی ہے اور کثیرالجہتیت کے موضوع پر چین کے ساتھ یک جہت ہوکر امریکی یک طَرَفگی (Unilateralism) کا مخالف ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اکیسویں صدی ایشیا کی صدی ہے، مستقبل قریب میں دنیا کی معیشت کی نبض ایشیا میں دھڑکے گی۔ چین کو روس اور ایران کی توانائی کی اشد ضرورت ہے اور اس کو ان دو ملکوں میں وسیع سرمایہ کاری کے مواقع مل سکتے ہیں چنانچہ اس لحاظ سے بھی فریقین ایک دوسرے کی ضروریات کی تکمیل کرسکتے ہیں۔

یہ حقیقت بھی اپنی جگہ بہت زیادہ اہم ہے کہ سعودی عرب اور عراق تیل پیدا کرنے والے اہم ممالک ہیں لیکن ان کے وسائل پر امریکہ مسلط ہے، اور ہندوستان، جنوبی کوریا اور یورپی ممالک تیل اور گیس کے بڑے صارفین کے عنوان سے امریکی محاذ میں کھڑے نظر آرہے ہیں اور صرف ایران، روس اور چین وہ تین اہم ممالک ہیں جو امریکی پالیسیوں کی پیروی نہیں کرتے۔

کچھ کہے بغیر واضح ہے کہ اس اسٹریٹجک مثلث کو اپنے اندر، مسائل اور اختلافات کو ایک منظم نظام کے سانچے میں ڈھال کر حل کرنے کی ضرورت ہے اور یقینی امر ہے کہ اگر ان مسائل کو صحیح انداز میں مرتب کیا گیا تو توانائی کا شعبہ اس میں بہت بہت اہم کردار ادا کرے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تالیف و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲