20 اکتوبر 2012 - 20:30

اخوان المسلمین کے "رجال المصلحۃ" کا نیا کارنامہ؛ نظری طور پر اسرائیل کے خلاف برسوں جدوجہد کرنے والے اخوانی صدر کے نئے رجحانات غاصب و قاتل صہیونی ریاست کے صدر شمعون پیرز کے لئے "مخلصانہ" اور "محبت آمیز" اصطلاحات کے استعمال نے مصری انقلاب کے حامیوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا / صہیونی صدر نے جناب مرسی کے لئے "امن کے نوبل انعام" کی درخواست کی جو اس سے قبل اسی ریاست کے سابق صدر اور پھر اوباما کو بھی مل چکا ہے اور اس وقت یورپی یونین کو بھی ملنے کا احتمال ہے!!/ خیرسگالی کا صرف ایک پیالہ!

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق مصر کے صدر ڈاکٹر محمد المرسی ـ جو انقلاب مصر کے بعد مصر کی تاریخ کے پہلے صدارتی انتخابات میں صہیونی ریاست کے خلاف نعرے لگا لگا کر، صدر منتخب ہوئے تھے اور پھر ایک طویل جھگڑے کے بعد ان کو صدر کے عنوان سے تسلیم کیا گیا اور بعض حلقوں نے اسی وقت کہا کہ صدر المرسی امریکہ اور صہیونی ریاست کے ساتھ ایک خفیہ ڈيل کے نتیجے میں اس منصب پر فائز ہوسکے ہیں اور یہ کہ جب انھوں نے فوجی کونسل کو ہٹا دیا اور با اثر جرنیلوں کو بھی ان کے عہدوں سے ہٹایا تو خفیہ ڈیل کے قائل تجزیہ نگاروں نے ایک بار پھر اپنے دعوے کی صداقت پر اصرار کیا اور پھر جب انھوں نے مصر کی قطعی اور تاریخی شکست پر منتج ہونے والی 1967 کی لڑائی کے لئے "ہیروز" کا تعین کیا اور کیمپ ڈيویڈ معاہدے پر دستخط کرنے والے سابق مصری صدر انورالسادات کی بیوہ کو قومی تمغہ دیا تو یہ لوگ اپنے نظریئے میں اور بھی راسخ ہوگئے اور صدر المرسی کےبارے میں اپنے خدشات کو یقینی قرار دیا اور اب جناب المرسی نے صہیونی ریاست کے صدر شمعون پیرز کو خط لکھ کر مذکورہ الفاظ استعمال کئے تو ان سے ان لوگوں کے خدشات کو مزید تقویت ملی اور اس خط کے بعد ـ صہیونی ریاست جو انقلاب مصر کی کامیابی کے بعد مسلسل فکرمند نظر آرہی تھی ـ کی تشویش ختم ہوگئی اور صہیونی حلقوں نے المرسی کو نوبل انعام عطا کرنے کی درخواستیں دینا شروع کردی ہیں جس سے مذکورہ بالا حلقوں کے خدشات یقین کی حد تک صحیح نظر آنے لگے ہیں۔حال ہی میں لبنان سے ایران کےدورے پرآنے والے اہل سنت کے مشہور علماء کے وفد سے ابنا کے اعلی اہلکاروں کی ملاقات میں جب ان سے المرسی کے موقف کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے ایک ہی جملے میں جواب دیا: "اخوان المسلمین هُم رجالُ المصلحة"، اخوان المسلمین مردانِ مصلحت ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اسی طرف چلتے ہیں جہاں ان کا مفاد ہو اور سوال یہ ہے کہ اقتدار تک پہنچنے سے پہلے اخوان والے کبھی کبھی اپنے نظریات اور مشن کی بات بھی کیا کرتے تھے اب ان نظریات اور مشن کو کیا ہوا؟ مصری عوام انقلاب کی کامیابی کے بعد سے اب تک صہیونی ریاست کے ساتھ اپنے تعلقات کے خاتمے کے خواہاں ہیں اور اسی حوالے سے انھوں نے ایک سال قبل صہیونی سفارتی عملے کو قاہرہ سے مار بھگایا ہے لیکن صدر المرسی نے حال ہی میں اپنا نیا سفیر صہیونی ریاست کے پاس بھجوایا ہے اور انہیں ایک خطر لکھ کر دیا ہے جس کی اسکین شدہ تصویر ذیل میں پیش کی جارہی ہے۔  یاد رہے کہ مذکورہ خط کا گذشتہ ہفتے انکشاف ہوا ہے۔المرسی کا خط شیمون پیرز کے نام:

بسم الله الرحمن الرحیم

از محمد المرسی صدر جمہوریہ مصرجناب شمعون پیرز صدر حکومت اسرائیل کے نام

میرے عظیم و عزیز دوست!

دوستانہ اور محبت آمیز تعلقات ـ جو ہمارے دو ملکوں کے مفاد میں ہیں ـ سے میری شدید دلچسپی کی بنا پر میں جناب عاطف محمد سالم سیدالاہل کو بطور ہنگامی اور بااختیار سفیر، آپ جناب سے متعارف کراتا ہوں۔اپنے سابقہ مناصب میں جس تجربے، اخلاص، ہمت اور اہلیت کا انھوں نےمظاہرہ کیا ہے، میری اس امید کو تقویت دے رہی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو بطور احسن نبھائیں گے۔  دوسری طرف سے میں ان کی غیرت کے متعلق جو اطمینان رکھتا ہوں، شک نہيں ہے کہ ان کی سچی کوششیں جناب عالی کی طرف سے تحسین کا باعث ہونگی۔ آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ ان کی اسناد سفارت کی تأئید فرمائیں اور وہ جو بھی میری جانب سے آپ کی خدمت میں پہنچاتے ہیں، اسے اطمینان خاطر کے ساتھ قبول کریں۔مجھے لئے باعث اعزاز ہے کہ جناب عالی کے لئے خوش بختی اور آپ کے ملک کے لئے فراوانی اور برکت کی آرزو کروں۔

آپ کا وفادار دوستمحمد المرسیفي 29 شعبان 1433 19 جولائی 2012

 احمدالحمراوی: شمعون پیرز کے نام المرسی کا خط خیانت ہے؛ جماعت سے استعفااخوان المسلمین کے ایک راہنما احمد الحمراوی نے المرسی کے خط کو مصر اور فلسطین سے غداری قرار دیا اور جماعت اخوان سے استعفا دینے کا اعلان کیا۔ اطلاعات کے مطابق اسکندریہ بار ایسوسی ایشن کے سابق انڈر سیکریٹری اور جماعت اخوان المسلمین کے راہنما احمد الحمراوی نے صہیونی ریاست کے صدر شیمون پیرز کے نام صدر المرسی کے خط کو مصر اور فلسطین کے حق میں غداری اور خیانت سے تعبیر کرتے ہوئے جماعت اخوان المسلمین سے استعفی دیا ہے۔ انھوں نے اپنے استعفی نامے میں لکھا: میں اس مذموم خطاب (میرے عزیز و عظیم دوست، آپ کا وفادار المرسی ۔۔۔) کی بناپر جس نے ١٩٢٨ سے لے کر اب تک کی اخوانی تاریخ اور ساکھ کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، ان اصولوں اور اقدار اور شہیدوں کے خون کا دفاع کرنے کی خاطر  جن کے تحفظ کے لئے لوگ  نعرے لگاتے ہیں لیکن نہ اپنے نعروں پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ ہی ان پر عمل کرتے ہیں، اخوان المسلمین اور حریت و عدالت پارٹی سے اپنے استعفے کا اعلان کرتا ہوں۔الحمراوی کا کہنا تھا: المرسی کے خط میں صہیونی صدر کے نام مرسی نے "میرے عزیز اور عظیم دوست، میری شدید دلچسپی تھی کہ ہمارے دو ملکوں کے درمیان محبت آمیز تعلقات قائم ہوں اور میں سے اسی وجہ سے عاطف محمد سالم کو آپ کے ملک میں ہنگامی سفیر بنا کر بھیجا ہے ۔۔۔ المرسی نے مزید لکھا ہے اور خاص طور پر مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کے لئے سعادت اور آپ کے ملک کے لئے خوش بختی کی آرزو کروں اور آخر میں لکھا ہے: آپ کا وفادار دوست محمد مرسی ... اور اس پر صدر، صدر کے آفس چیف اور وزیر خارجہ نے دستخط کئے ہیں"۔یہ وہ خط ہے جو پوری دنیا میں شائع ہوچکا ہے اور صدارتی محل کی طرف سے اس کی تصدیق میں باقاعدہ بیان جاری ہوا ہے اور ثابت ہوچکا ہے کہ خط کا یہ واقعہ سو فیصد حقیقی ہے۔ الحمراوی نے کہا ہے: یہ خط وطن و قوم اور اسلام سے خیانت ہے جس کے ذریعے 1948 سے لے کر اب تک شہید ہونے والے لاکھوں نوجوانوں، بوڑھوں اور خواتین و مردوں کے خون کو ضائع کیا گیا ہے وہی جو آج بھی صہیونی خونخواروں کے ہاتھوں شہید ہورہے ہیں۔الحمراوی نے زور دے کر کہا ہے کہ وہ تمام اقدار، اصولوں اور صیہونی ریاست خلاف جہاد کے نعروں  اور عقیدے اور زمین، غیرت کے  اور مقدسات  کے دفاع کے نعرے اور دعوتیں جھوٹے نکلے اور المرسی کا خط درحقیقت ان نعروں کا پاس رکھنے کی نہیں بلکہ انہیں ترک کرنے کی دعوت عام ہے؛ ہم سمجھ رہے تھے کہ حسنی مبارک اور اس کے ساتھ خائن اور صہیونیوں اور امریکیوں کے ایجنٹ ہیں لیکن اب ظاہر ہوچکا کہ خیانت کا دائرہ وسیع تر ہے کیونکہ اگر حسنی مبارک اسرائیل کا خزانہ تھا تو مرسی صہیونیوں کا وفادار دوست ہے جیسا کہ انہیں حلفیہ لکھ دیا ہے۔انھوں نے المرسی کو فوری طور پر استعفی دینے کا مشورہ دیا ہے اور جماعت اخوان المسلمین سے مطالبہ کیا ہے کہ المرسی اور ان کے اعمال سے فوری طور پر برائت اور بیزاری کا اعلان کرے۔

المرسی صاحب کے سفیر اور صہیونی ریاست کے صدر کے ساتھ خیرسگالی کا صرف ایک پیالہ!