اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق، جاپانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا (ہاؤس آف کونسلرز) کی رکن اور حکمران جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی قانون ساز میزوہو اومیمورا نے مسلمانوں کے لیے قبرستانوں کی توسیع کی مخالفت کرتے ہوئے ایک متنازع تقریر میں کہا ہے کہ ’’لاش کو دفن کرنا غیر صحت بخش عمل ہے‘‘ اور جو مسلمان جاپان میں جینے اور مرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، انہیں یا تو میت کو جلانا ہوگا یا بھاری اخراجات کے ساتھ لاش کو اپنے ملک منتقل کرنا ہوگا۔
رپورٹس کے مطابق، میزوہو اومیمورا نے عیسائیت اور یہودیت سمیت دیگر مذاہب میں تدفین کی روایات کا حوالہ دیئے بغیر یہ دعویٰ کیا کہ جاپان گزشتہ 1,300 برس سے لاش جلانے کی روایت پر عمل پیرا ہے اور یہ طریقہ ملک کی ثقافتی شناخت کا لازمی حصہ ہے۔
یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب حالیہ برسوں میں جاپان میں مسلمانوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور غیر سرکاری اندازوں کے مطابق مسلمان آبادی تقریباً 2 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور مذہبی آزادی کے حامی حلقوں نے اس بیان کو مسلمانوں کے خلاف امتیازی رویہ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ادھر سوشل میڈیا اور مختلف سماجی حلقوں میں بھی اس بیان پر سخت ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے، جہاں اسے مذہبی آزادی کے بنیادی اصولوں کے منافی قرار دیا جا رہا ہے۔ بعض تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جاپان میں مختلف غیر ملکی فوجی موجودگی اور سفارتی دباؤ کے تناظر میں بعض سیاسی شخصیات مخصوص مذہبی اقلیتوں کے خلاف سخت بیانات دینے سے نہیں کتراتیں، جو دوہرے معیار کی عکاسی کرتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر جاپان نے مذہبی اقلیتوں کے تدفینی حقوق جیسے حساس انسانی معاملے پر جامع اور غیر امتیازی پالیسی مرتب نہ کی تو اس سے ملک کی بین الاقوامی ساکھ اور مذہبی آزادی سے متعلق دعوؤں پر بھی سوالات اٹھ سکتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ