اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، امیر
قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے گذشتہ ہفتے ایران کا دورہ کیا، اس دورے کے موقع پر
انھوں نے رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالی) اور صدر
ڈاکٹر مسعود پزشکیان سے بات چیت کی اور باضابطہ مذاکرات میں، فریقین نے خلیج فارس
میں، قطر اور ایران کے درمیان 190 کلومیٹر زیر آب سرنگ کی تعمیر کے منصوبے کی
منظوری دی۔ یہ سرنگ جزیرہ نمائے قطر کو ایران کے ساحلی علاقوں سے ملائے گی اور دنیا
کے عظیم ترین تعمیرانی منصوبے کے عنوان سے دو ملکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات کے
فروغ میں مدد دے گی۔
اس زیر آب سرنگ کی تعمیر کا مقصد جنوب مغربی خلیج
فارس سے ایران کے جنوبی علاقوں، نیز بحیرہ کیسپیئن اور بحیرہ روم تک، تجارتی
تبادلوں اور سامان تجارت منتقلی نیز مسافروں کی آمد و رفت کو آسان بنانا ہے۔
ایران اور قطر کے درمیان سرنگ کی تعمیر کی تجویز
پہلی بار اسلامی جمہوریہ ایران کے شہید صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے دورہ
قطر کے موقع پر پیش کی گئی؛ اور اس وقت سے قطر اس کے فنی اور مالی امور کا انتظام
کر رہا ہے۔ قطر ـ جو گیس کی فروخت سے سالانہ 200 ارب ڈالر کی آمدنی کما رہا ہے، اس
عظیم منصوبے میں سرمایہ کاری کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ سرنگ، ایک نئے تجارتی راستے کے طور پر، نہ
صرف قطر کے لئے اہمیت کی حامل ہے، بلکہ ایران ایران کو نئی منڈیوں تک رسائی کے لئے
نئے مواقع فراہم کر سکتی ہے، اور اگر حالات مناسب ہوں اور خطے کی عرب ریاستوں نے
قطر کا مقاطعہ نہ کیا ہو تو ایران کو بھی سعودی عرب، عمان اور بحرین کی منڈیوں تک
براہ راست رسائی حاصل ہوگی جیسا کہ قطر کو بھی روس سمیت شمالی ممالک، اور ایران کے
شمال مغرب اور مغرب میں ترکیہ، یورپ اور عراق اور مشرق اور جنوب مشرق میں پاکستان،
اور افغانستان تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔
یہ منصوبہ نہ صرف معاشی لحاظ سے بہت اہم ہے
بلکہ سیاسی لحاظ سے بہت مؤثر ہے۔ قطر کو ماضی قریب میں عرب ممالک کی شدید پابندیوں
کا سامنا رہا ہے، جبکہ اس کے بیرونی زمینی راست صرف سعودی عرب سے گذرتے ہیں، اور
سعودی عرب اس کا واحد زمینی پڑوسی ملک ہے، چنانچہ اس کو طویل عرصے سے متبادل زمینی
راستوں کی تلاش تھی۔ چنانچہ یہ سرنگ قطر
کو اقتصادی لحاظ سے بھی اور سیاسی لحاظ سے بھی خودمختار بنائے گی اور اسے پڑوسی
عرب ممالک سے وابستگی کے ممکنہ منفی اثرات سے محفوظ کرے گی۔ لہذا ایران اور قطر کے
درمیان زیر آب سرنگ کا فائدہ زیادہ تر دوحہ کو پہنچے گا، گوکہ ایران بھی اس سے
مستفید ہوگا۔
مختصر یہ کہ یہ سرنگ ایران اور خطے کے ممالک کے
درمیان اتحاد و یکجہتی کا موقع فراہم کرے گا، اور چونکہ ایران اور قطر ایک دوسرے
کے ساتھ ـ بطور خاص توانائی اور تجارت کے میدان میں قریبی تعاون کر رہے ہیں ـ یہ زیر
آب راستہ دو طرفہ تعلقات کو فروغ دے گی۔ نیز اس طرح کے پراجیکٹ پر عملدرآمد کی
صورت میں ایران کے عرب ممالک اور حتی ایشیائی اور یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات کو
فروغ ملے گا اور یہ آبی راستہ خطے میں، سیاسی، سلامتی اور معاشی ـ حوالوں سے بھی
مثبت تبدیلیوں کا سبب بن سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110