25 فروری 2025 - 00:43
دستاویزی فلم | شہید سید حسن عبد الکریم نصر اللہ بچپن سے قیادت تک

سیدالشہدائے مقاومت کا اللہ سے رازونیاز: اس طاقتور جباراور مقتدر اور متکبر، رحیم و مہربان، ہمدرد و شفیق بادشاہ کی درگاہ میں کھڑا ہوتا ہوں اور ایسے حال میں کہ اس کو پکارتا ہوں، اور اس کی طرف نظر رکھتا ہوں، اور اس سے کلام کرتا ہوں، اس کی حمد و ستائش کرتا ہوں، اور اس کا شکر ادا کرتا ہوں، اور اس سے عرض کرتا ہوں، کہ میں تیرے سوا کس کی پرستش نہیں کرتا، اور تیرے سوا کسی سے مدد نہیں مانگتا، ہمیں سیدھے راستے پر چلا، اور اس کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں اور اس بارگاہ میں رکوع کرتا ہوں، اور اس کی بارگاہ میں سجدہ کرتا ہوں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، راہ قدس کے شہید راہنما اور سپہ سالار، سیدالمقاومہ اور سیدالشہدائے مقاومت جناب سید حسن نصر اللہ اس دستاویزی فلم میں فرماتے ہیں:

جب کوئی سید عباس (الموسوی) کے ساتھ زندگی گذارتا ہے، ان سے متاثر ہوجاتا ہے اور اس کے جذبۂ محبت کو نشوونما ملتی ہے۔ اس کا جذبۂ محبت ـ اس کے اہل خانہ، بچوں اور شریک حیات اور دوستوں سے، اور آس پاس کے لوگوں، نوجوانوں سے اور عوام سے، اور ان سے جو اس کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں، ـ بڑھ جاتا ہے؛ اس کی محبت غربا اور ناداروں اور دوسروں سے، اور منکسر المزاج انسانوں سے، بڑھ جاتی ہے۔ یہ سید عباس کی خصوصیات تھیں۔

فطری امر ہے کہ سید عباس سے متاثر ہوئے۔ ان کی یہ خصوصیات، ہمارے بچوں کے ساتھ ہمارے رابطے میں جلوہ گر ہوئیں۔ ہمارے خاندان کے افراد کے درمیان مہر و محبت، لگاؤ، عشق کے رشتوں اور مستحکم رابطوں میں جُڑ گئے.

سید کی بیٹی محترمہ زینب حسن نصر اللہ:

میں جب چھوٹی تھی اپنے والد سے خاص تعلق رکھتی تھی۔ کچھ دنوں تک جب ان کے دیکھنے سے محروم رہتی تھی تو ان کی بہت یاد آتی تھی۔ فطری امر ہے کہ وہ غالب اوقات مصروف رہتے تھے، ہر بچی کی والد سے محبت کی مانند، جو چاہتی ہے کہ بابا ہمیشہ اس کی دسترس میں ہو، ہم بھی چاہتے تھے کہ بابا ہمارے ساتھ ہوں اور حاضر ہوں۔ یا مثلا معمول کے مطابق ان سے باتیں کریں اور گھریلو دعوتوں میں شرکت کریں اور گھریلو ماحول میں رہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک فطری اشتیاق ہے۔

دوسری طرف سے کبھی ان پر رشک آتا ہے کہ وہ نوجوانی سے مجاہدانہ زندگی بسر کرتے رہے ہیں اور باوجود کہ ایک نوجوان باپ تھے، اور ان کا اپنا کنبہ بھی تھا، اپنی زندگی کا ہر لمحہ، ہر روز اورہر سال، جہاد اور مقاومت کی راہ میں گذار دیتے تھے اور اس سے بہتر کون سی چیز اس سے بہتر ہو سکتی ہے کہ کسی انسان کو اپنی عمر اللہ کی راہ میں جہاد میں گذآرنے کی توفیق حاصل ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ اللہ کا فضل، دوسروں کی طرح باپ کو اپنے قریب رکھنے، کے ساتھ قابل قیاس نہیں ہے۔

شہید سید حسن عبد الکریم نصراللہ:

سید عباس (الموسوی) میرے لئے نمونہ تھے، اس راستے میں، جس پر میں آج تک گامزن رہا۔ وہ میرے معلم اور استاد بھی تھے۔ انھوں نے مجھے تربیت دی اور بہت سے دوسروں برادران کو بھی تعلیم و تربیت دی۔ انھوں نے ہماری تربیت کی۔ بعد میں وہ میرے راہنما اور امام بن گئے۔ جب میں سماجی زندگی، دینی تبلیغ اور دینی اور سیاسی سرگرمیوں میں داخل ہؤا۔ وہی تھے جن سے میں پوچھتا تھا، جن سے عملی نمونے لیتا تھا، وہی تھے میں جن کی رائے پوچھتا تھا، وہی جن کو روئے زمین پر قابل تقلید نمونے کے طور پر دیکھتا تھا، شہید سید عباس (الموسوی) تھے۔

سید کے والد جناب سید عبدالکریم نصر اللہ:

سید 20 سال کی عمر کے قریب پہنچے توانھوں نے مجھ سے کہا: میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اس زمانے میں [آیت اللہ] سید محمد فضل اللہ (اللہ يقدس روحہ) بقید حیات تھے، ان کے ـ اور ان کے داماد سید کاظم فضل اللہ ـ گاڑی میں بیٹھ گئے، رشتہ مانگنے کے لئے۔ میں نے سید فضل اللہ سے کہا: کہ مولانا! میری اور میرے بیٹی کی مالی اور نفسیاتی اور رہائشی حالت ایسی نہیں ہے کہ میرا بیٹا [سید حسن] شادی کر سکے اور میں گھر والوں اور بیوی بچوں کی ذمہ داری ان کے سپرد کر سکوں۔

سید فضل اللہ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: آپ کا بیٹا نہ صرف کنبے کی ذمہ داری سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ ہمارے ملک سے 10 گنا بڑے ملک کی ذمہ داری سنبھالنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے، خواہ اس کی عمر 16 سال ہی کیوں نہ ہو۔

محترمہ زینب حسن نصر اللہ:

ان کی غیر حاضری، حاضری سے کہیں زیادہ تھی۔ جس وقت [حزب اللہ کے] سیکریٹری جنرل بنے، تو ہمارے ساتھ ان کے طرز سلوک میں کوئی فرق نہيں آیا، وہی مہربان اور شفیق باپ تھے۔ ان کی انکساری کا حال یہ تھا کہ آپ محسوس ہی نہیں کر سکتے تھے کہ وہ ایک اہم تنظیم میں ایک اہم عہدے پر فائز ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس، ان کا یہ برتاؤ سبب بنتا تھا کہ ہم ان کے ساتھ زیادہ ذمہ داری محسوس کریں۔

بیٹا سید جواد حسن نصر اللہ

فطری طور پر ہماری تربیت کی زيادہ ذمہ داری ہماری والدہ سیدہ حاجیہ پر تھی۔ ہماری والدہ ہی تھیں جنہوں نے ہمیں بہت کچھ سکھایا دینی مفاہیم سے لے کر اخلاقی اور تربیتی امور اور تعلیمی امور تک، یعنی ہماری زندگی کی ہر چیز۔

شہید سید حسن نصر اللہ:

ہم سب معمول کے مطابق، تجربے سے سیکھتے ہیں کہ اگر کوئی سیاسی میدان میں کسی عہدے پر فائز ہے یا محاذ جنگ میں حاضر ایک مجاہد بھائی ہے، تو جس طرح کے مردوں کو ان کی ازواج کو اہمیت دینے کی ہدایت کرتے ہیں، اسی طرح ہمیں خواتین کو بھی مشورہ دینا چاہئے کہ کہ وہ اپنے شوہروں کا خیال رکھیں

مثلا ایک مرد گھر میں سکون محسوس کرنا چاہتا ہے، تو اس کی شریک حیات کو گھر کا انتظام کرنا چاہئے، اہل خانہ کا تحفظ کرنا چاہئے، گھرانے کے تمام افراد کو اکٹھا رکھے۔ جب مرد گھر پلٹ کر آتا ہے تو شاید تھکا ہؤا ہو اعصابی تناؤ کا شکار ہو، گھر آتا ہے اس کو سکون، آسائش اور آرام کی ضرورت ہوتی ہے، یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ یہ "خواتین کے جہاد" کے سلسلے میں منعقدہ حدیث کا ایک حصہ ہے۔ یہ کہ جب وہ سیاسی یا عسکری جہاد یا کسی بھی قسم کے جہاد میں مصروف ہے تو خاتون اپنے شریک حیات کا ساتھ دے، تاکہ وہ [شوہر] سختیوں اور دباؤ کو برداشت کرے، اس کی شریک حیات گھر میں اس کی پشت پناہ اور حامی ہو اور اس کے لئے آرام و سکون کا سبب بنے۔

مثال کے طور پر اگر انسان غصے سے چھٹکارا پانا چاہے تو اس کو بہت زیادہ صبر کرنا پڑے گا، مجاہدت کرنا پڑے گی، کہ غصے میں نہ آئے۔ صرف جنسی مسائل اور کھانے پینے کے مسائل نہیں جن میں انسان کو اپنے اوپر قابو رکھنا چاہئے، ان گناہوں سے بھی، جو لوگوں میں رائج ہیں، جن میں ایک غصہ اور غضب ہے۔

غصہ سبب بنتا ہے کہ [انسان] انتہائی سادہ سی بات کی وجہ سے آشُفْتَہ حال ہو جائے،  اور گالی دے اور لعن و نفریں کرے اور حتیٰ کہ کسی کو جان سے مار دے۔ تو خود کو کنٹرول کرنے کے لئے صبر کی ضرورت ہے، اعلیٰ ترین درجے کا صبر۔

سید جواد حسن نصر اللہ

میں گھر کے سامنے فٹ بال کھیل رہا تھا، میری خوش قسمتی تھی کہ بابا نے اوپر والی منزل کی کھڑکی کھول رکھی تھی، اور ہمیں دیکھ رہے تھے، میں سخت غصے میں تھا، میں غصے میں تھا۔

میں گھر پلٹ آیا، بابا نے کہا: بیٹا ورزش [اور کھیل] تہذیب و تزکیہ ہے، جو ورزش کرتا ہے، وہ درحقیقت خودسازی [اور اپنی تعمیر] کرتا ہے۔ کیا فائدہ، کہ تم ورزش کرو اور اپنے ادب کو کھو جاؤ، یا دائرے سے خارج ہو جاؤ؟ اب تم مجھے جواب دے سکتے ہو کہ "فلان شخص نے مجھے گالی دی اور میں نے اس کی گالی کا جواب دیا"؛ کہہ سکتے ہو کہ "اس نے مجھے بے ادبی پر مجبور کیا"، لیکن اگر خدا نے تم سے یہی کچھ پوچھا تو کیا کہو گے؟ کہوگے کہ "فلان شخص نے مجھے مجبور کیا کہ بے ادب ہوجاؤں؟"؛ [سید] ایسے ہی سادہ او آسان سے استدلالات سے آپ کے امور کو مرتب کرتے ہيں۔ وہ کبھی بھی سزا دینے جیسے کی طرف نہیں جاتے، حالانکہ اگر ان کی ایک ٹیڑی نگاہ آپ کے لئے کافی ہے۔ وہ خود کو "چھوٹا" نہیں کر دیتے، کہ لفظی تکرار پیش آئے، ان کی برداشت، ادب و اخلاق کا تحفظ بہت زیادہ ہے۔ وہ معاملات کو آپ کے لئے آسان کر دیتے ہیں، بعض معاملات کو سادہ بنا دیتے ہيں؛ اور بعض معاملات میں ـ جو اللہ کی خوشنودی یا اللہ کی طرف کی سزا کا باعث بنتے ہوں ـ سخت گیری کرتے ہیں۔ وہ آپ کو خبردار کریں گے اور فرمائیں گے کہ "کاہلی سے بچو، کام کو ناچیز مت سمجھواللہ کے غضب و ناراضگی عقوبت و سزا کو غیر اہم مت سمجھو"۔ ایک دعا، جو فرماتے تھے کہ زیادہ دہراؤ، وہ یہ تھی "اللهم اختم لنا بالخیر و زدنا حسن العاقبة  (اے اللہ! ہمارا خاتمہ بخیر کر دے، اور ہم انجام بخیر کر دے)۔ عمل کرو اور اپنے اس [عمل کی قبولیت] کے لئے دعا کرو۔

والد، سید عبدالکریم نصر اللہ

ایک واقعہ مجھے یاد آتا ہے۔ دنوں میں سے ایک دن، ایک دوست آگئے اور کہا: آیئے ایک گاؤں میں چلے جاتے ہیں، عیسائیوں کے ایک بزرگ انتقال کر گئے ہیں اور ہم ان کی تدفین کی رسومات کے موقع پا بات کریں چاہتے ہیں؛ گاؤں کے سب ہی بڑے اور مسجد کے امام بھی اس تقریب میں شرکت کریں گے۔ ظاہر ہے کہ بیزوریہ [یعنی ہمارے گاؤں] کے عوام کی معاشی حالت اچھی نہیں تھی۔ ہمارے [گاؤں] کے شیخ نے ہم سے کہا: یہ طالب علم "سید حسن نصر اللہ" تقریر کرے۔ حیرت انگیز مسئلہ تھا۔ سید حسن تقریر کے لئے گئے، ایک گھنٹہ تقریر کی، ان کی تقریر ختم ہوئی تو ایک دوسرے عالم دین شیخ عبداللطیف بری بھی تقریر کے لئے چلے گئے۔

کیا کہنا انھوں نے؟ کہا: مزید کوئی بات نہیں رہی ہے کہ کوئی خطیب منبر پر چلا جائے اور بیان کرے! سوا اس کے کہ اس لڑکے نے بیان کیا ہے۔ انھوں نے ایک گھنٹے میں، سیاست، دین، علم، دنیا اور آخرت کے بارے میں بات کی۔ سب کو مدہوش کر دیا۔

سید جواد حسن نصر اللہ

جو فرد امریکہ اور صہیونی ریاست کے اعصاب سے کھیلتا ہے اور عین اسی وقت پر گھروں، مساجد اور حسینیات میں حاضر ہے، ان سڑکوں میں حاضر ہے جہاں لوگ جیتے ہیں اور رفت و آمد کرتا ہے، لوگوں کے ساتھ نشست و برخاست کرتا ہے، لوگوں کا مشاہدہ اور مطالعہ کرتا ہے اور لوگوں کی باتیں سنتا ہے، اور ان کے غموں میں شریک ہے، اور لوگوں کو اہمیت دیتا ہے، جو احساس شہداء کے اہل خانہ کے سامنے رکھتا ہے،  آپ کے خیال سے کہیں بڑھ کر، شرمندگی کا احساس ہے اور آج بھی [بابا] یہ احساس رکھتے ہیں۔ بالخصوص [ہمارے بھائی] ہادی [حسن نصر اللہ] کی شہادت سے قبل تک، وہ یہ احساس رکھتے تھے [اور گویا خود سے کہتے تھے] کہ شہداء کے اہل خانہ نے قربانی دی ہے اور تو نے قربانی نہیں دی۔ ہادی کی شہادت کے بعد یہ احساس رکھتے تھے کہ ہادی نے خود کو فدا کر دیا، تو نے چیز کو فدا کیا۔ شہداء کے اہل خانہ کی اکثریت عام طور پر اس آیت کریمہ کی ترجمانی کرتے ہیں کہ "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى[1] ان [شہداء کے خاندانوں] کے حوصلے بہت بلند ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر احسان نہیں جتاتے کہ ان کا فرزند شہید ہو چکا ہے، بلکہ اس کے برعکس، کہتے ہیں کہ [اے اللہ] ان میں سے ایک ایک کو منتخب کرلے، انہیں شہادت سے نواز دے یہاں تک کہ تو راضی ہوجائے۔ یہ میں نے خود شہداء کے اہل خانہ سے سنا۔

جب آپ ایک ماں کے پاس بیٹھتے ہیں جس نے تین شہیدوں کی قربانی دی ہے، تو کس طرح سر [اور منہ] اٹھاؤ گے! جب اس کی تمام باتیں عزت و عظمت اور فدا کرنے اور قربان کرنے، محبت اور روحانیات سے عبارت ہیں، تو یہ وہ ہے جو آپ کو حوصلہ دیتی ہے، اور تین شہیدوں کی ماں ہے، اور کہتی ہے کہ میرا چوتھا بیٹا بھی اور میں بھی اور میرے شریک حیات بھی، شہادت کے منتظر ہیں۔ عوام کی کیفیت یہ ہے، مقاومت و مزاحمت والی قوم، بالخصوص شہداء کے اہل خانہ، لفظ استثناء و [انفرادیت] سے بالاتر ہیں۔

شہید سید حسن نصر اللہ

اگر طے یہ ہو کہ ہر کوئی ایک مشکل اور مسئلے کا سامنا کرے، اور کسی رنج و مصیبت سے دوچار ہوجائے، اور اس کا حافظہ اور اس کا دل، اس کی عقل اور روح میں، پہلے دن کی طرح باقی رہے، اور اسے نہ بھولے، تو وہ مزید زندہ نہیں رہ سکتا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے زندگی جاری رکھنے کے لئے انسان پر احسان کیا اور اس کو فراموشی کی نعمت سے نوازا، کہ وہ بھول سکے۔ جی ہاں! جب وہ بھول جائے، یقینا اسے یاد آتا ہے، اس میں ہمارے درمیان اختلاف نہیں ہے۔ لیکن یہ موضوع، یہ مصیبت اور یہ دکھ اور یہ غم، مستقل طور پر اس کے دل میں، اس کی روح میں اور اس کی عقل میں، شب و روز، باقی نہیں رہتا۔

سید جواد نصر اللہ

سوچنے کی بات ہے کہ [ایک شخص نے] کس طرح اپنی پوری زندگی اللہ کے لئے جہاد میں گذار دی ہے، اور اس نے دنیا سے کچھ بھی اپنے لئے نہیں اٹھایا، کیونکہ دنیا کے بارے میں سوچتا ہی نہیں، یہ کہ آرام کرے، سانس تازہ کرے، حتیٰ کہ ایک معینہ نسبت سے، اور اسی اثناء میں اسے اپنی ذمہ داریوں، اور ان امور کی فکر ہے، جو اس کو انجام دینا ہیں؛ بابا ایسے انسان ہیں جو اپنے طرز عمل کو بیش بہاء معیاروں پر پرکھتے ہیں، کیونکہ ان کے ہر فیصلے کا تعلق لوگوں کے خون اور جان سے ہوتا ہے۔

میں ان لوگوں میں سے ہوں، جو اپنی خلوتوں میں ان مسائل کے بارے میں بہت سوچتے ہیں۔ سید حسن کا ذہن بہت مصروف ہے، یہ مسائل سید کی فکرمندیوں میں شامل ہیں، اور ان کے بارے میں سوچتے ہیں اور یہ سلسلہ ان باتوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ انسان کو جب کسی خاص صعوبت اور دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں، کہ جب سید کو یاد کرتے ہیں، تو مسئلہ ان کے لئے آسان ہوجاتا ہے، اور میں مزید سخت گیری نہیں کرتا۔ میں کس انداز سے جی رہا ہوں، وہ کس انداز سے جی رہے ہیں؟ جب میں ان سے بات کرتا ہوں تو اپنی زندگی کے کسی بھی مسئلے کو بھی بھاری نہیں لیتا۔

سید عبدالکریم نصر اللہ

میں کبھی بھی سید حسن کو ایک "بچہ" نہیں سمجھتا تھا، کیونکہ میں نے کبھی بھی ان میں بچپنا نہیں دیکھا۔ میں نے ان کی پوری زندگی میں اس کو بچگانہ حرکتیں کرتے ہوئے نہیں دیکھا؛ کبھی بھی؛ جب سے چھوٹے تھے اس وقت تک کہ ایک مرد کامل ہو گئے۔ میں ان کو ان کے جذبۂ محبت سے پہچانتا ہوں۔

سید جواد نصر اللہ

لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمیں صرف الحاج قاسم کی شہادت سے صدمہ پہنچا، اللہ کی رحمت ہو ان پر۔ لیکن ہم اس سے زیادہ سید کے لئے پریشان ہوئے، کیونکہ ان کے درمیان ایک خاص قسم کی مِہر و محبت تھی اور وہ سید کے حامی اور پشت پناہ تھے اور سید بھی ان کے حامی اور پشت پناہ تھے۔ الحاج قاسم اور سید کے درمیان محبت کا رشتہ اس سطح پر تھا کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے پر اپنی جان نچھاور کرنے کے لئے تیار تھا۔ میں نے اس جانفشانی کے بارے میں ان کی زبان سے بہت سنا۔ میں نے پوری تفصیل سے، سید اور الحاج قاسم کا رد عمل دیکھا اور  سنا جب دوسرا اپنی جان قربان کرنے کے بارے میں بولنے لگتا تھا۔

الحاج قاسم کی شہادت کا مسئلہ بہت تکلیف دہ تھا، فطری امر ہے کہ کھو جانا، صدمے کا باعث ہے۔ ہم انسان ہیں اور ہمارے مشاعر اور جذبات و احساسات ہیں۔ لیکن جو چیز قوت قلب کا سبب بنتی ہے، اور انسان کے توکل میں اضافے کا باعث ہوتی ہے، صبر میں اضافے کا باعث ہوتی ہے، وہ سید حسن کا رد عمل اور ان کے طرز عمل کی نوعیت ہے۔

بطور مثال، سید نے الحاج قاسم کے فرزندوں ےسے ملاقات کی، جب ملاقات شروع ہوئی تو سب رو رہے تھے اور ٹوٹے ہوئے تھے، رفتہ رفتہ ان کے جذبات بدل گئے اور ان کی حالت بہتر ہوئی۔ اور ان کا قلب اور ان کی روح کو سکون ملا۔ اور آخر میں الحاج قاسم کے بچوں کے چہرے پر مسکراہٹ سج گئی۔ "ایک مدرسہ، اسکول، روحانی قطب یا سِحر"؛ میں نہیں جانتا کہ اس کا کیا نام رکھیں؟ لیکن وہ ایسے نہیں ہیں۔ یہ الحاج قاسم مختصر انداز سے کہتے تھے۔ کہتے تھے کہ سید حسن کا پورا وجود "اخلاصِ مُجَسَّم" ہے، جی ہاں ان کا پورا وجود اخلاص ہے۔ اگر ان میں اخلاص نہ ہوتا تو اس شان و منزلت پر فائز نہ ہوتے۔ یعنی ایک شخص کے قالب (سانچہ اور جسم) کو تیار ہونا چاہئے کہ وہ اس طرح کی اخلاقی صفات کا حامل بن سکے۔ سید کا یہ قالب اور یہ قلب بالکل تیار ہیں، کہ ان اخلاقی صفات کے حامل ہوں۔

میں محسوس کرتا ہوں ان کا یہ جوہر اور یہ قالب ابھی ارتقائی کیفیت سے گذر رہا ہے اور اس میں مزید ارتقاء اور نمو کی استعداد ہے۔

شہید سید حسن عبدالکریم نصر اللہ کی مناجات:

آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار،

کسی بھی طاقتور سے زیادہ طاقتور،

بادشاہوں کا بادشاہ،

جس کے ہاتھ میں ہے میری زندگی اور میری موت،

میرا دوبارہ زندہ ہونا بروز قیامت،

میرا دوبارہ اٹھایا جانا، محشور ہونا، اور جنتی یا دوزخی ہونا،

جس کے ہاتھ میں ہے میری روزی اور میری عزت اور

میری کرامت و وقار،

میری صحت اور تندرستی

جس کے ہاتھ میں ہے یہ پوری ہستی اور وجود، [جس کا ہونا یا نہ ہونا] اس کے ایک اشارے پر منحصر ہے۔

اس طاقتور جباراور مقتدر اور متکبر، رحیم و مہربان، ہمدرد و شفیق بادشاہ کی درگاہ میں کھڑا ہوتا ہوں اور ایسے حال میں کہ اس کو پکارتا ہوں، اور اس کی طرف نظر رکھتا ہوں، اور اس سے کلام کرتا ہوں، اس کی حمد و ستائش کرتا ہوں، اور اس کا شکر ادا کرتا ہوں، اور اس سے عرض کرتا ہوں، کہ میں تیرے سوا کس کی پرستش نہیں کرتا، اور تیرے سوا کسی سے مدد نہیں مانگتا، ہمیں سیدھے راستے پر چلا، اور اس کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں اور اس بارگاہ میں رکوع کرتا ہوں، اور اس کی بارگاہ میں سجدہ کرتا ہوں۔

#إنَّا_عَلَی_العَہدِ

۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔

110



[1]۔ اے ایمان لانے والو!اپنے صدقات و خیرات کو اکارت نہ کرو احسان جتانے اور ایذا پہنچانے کے ذریعے" (سورہ بقرہ، آیت 164)