اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا :
یہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تاریک
باب ہے۔ اس کے بعد ہم نے اعادہ کیا کہ دوبارہ اس طرح کا [واقعہ] پیش نہیں آئے گا۔
اس کے باوجود 10 سال بعد بھی اس حملے کی ذمہ دار دہشت گرد تنظیمیں ملک میں بے امنی
پھیلانے میں سرگرم ہیں۔
سال 2024ء میں 2014ء کے بعد سب سے زیادہ دہشت
گرد حملے رپورٹ ہوئے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں عسکریت پسندی کی حالیہ لہر ہمیں
یاددہانی کرواتی ہے کہ دہشت گردی کا ناسور ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔ ایسا ملک
جو سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے، اس کے لئے یہ کسی ڈراؤنے خواب کی سی کیفیت ہے۔
[تو] کیا ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناکام ہورہے ہیں؟
گڈشتہ 5 برسوں [کے عرصے] میں میں انتہاپسند
حملوں میں واضح اضافہ ہؤا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملے اور سیکورٹی تنصیبات پر حملے
معمول کی بنیادوں پر ہورہے ہیں۔ باجوڑ اور شمالی اور جنوبی وزیرستان کے سابق قبائلی
علاقے اس لہر سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جبکہ دہشت گردوں نے ملحقہ اضلاع میں
بھی اپنی سرگرمیوں کا دائرہ پھیلا دیا ہے۔ خیبرپختونخوا کے کچھ جنوبی اضلاع اب عملی
طور پر شرپسند عناصر کے زیرِ کنٹرول ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری کالعدم
تنظیموں نے قبول کی ہے جو اب زیادہ جدید اسلحے سے لیس ہیں اور پہلے کی نسبت زیادہ
منظم ہیں۔ گڈشتہ 5 برسوں میں عسکری گروہوں نے 2 ہزار 400 سے زائد دہشت گرد حملے
کئے جن میں سے زیادہ تر واقعات خیبرپختونخوا میں پیش آئے۔ قانون نافذ کرنے والے
اداروں کو ہدف بنایا گیا۔ مسائل سے دوچار صوبائی انتظامیہ اور بڑھتی ہوئی غیر
مقبول وفاقی قوتیں عسکریت پسندوں کے حملے روکنے میں ناکام نظر آئیں۔
اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف
کونفلیکٹ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کے مطابق جنوری 2020ء سے نومبر
2024ء کے دوران عسکریت پسندوں کے حملوں میں ایک ہزار 627 سیکورٹی اہلکار شہید
ہوئے۔ یہ عدد انتہائی تشویش ناک ہے اور ہماری انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کے
حوالے سے سوالات کو جنم دیتی ہے۔ گڈشتہ دو سالوں میں دہشت گردی کے واقعات میں سب
سے زیادہ ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں۔
مذکورہ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال 645 دہشت
گرد حملوں میں 508 سیکورٹی اہلکاروں نے جامِ شہادت نوش کیا وہیں 2024ء میں ان
حملوں میں واضح [اضافہ] دیکھا گیا اور سال کے اختتام سے ایک ماہ قبل ہی ان کی
تعداد 856 تک پہنچ چکی ہے اور ان واقعات میں 476 سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے ہیں۔
بہت سے واقعات میں شرپسندوں اور سیکورٹی فورسز کے
ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہؤا۔ اس طرح کے بزدلانہ حملے ظاہر کرتے ہیں کہ شرپسند
بدامنی کے شکار علاقوں میں کتنے مضبوط ہوچکے ہیں۔ ایسی بھی مثالیں ہیں کہ جن میں
دہشت گردوں نے سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کو یرغمال بھی بنایا ہے۔
یہ سب اس وقت ہؤا کہ جب سیکورٹی اہلکار خیبرپختونخوا
اور بلوچستان میں انسداد دہشت گردی کے آپریشنز میں کامیابی کا دعویٰ کرتے ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) دیگر اضلاع میں بھی اپنی سرگرمیاں پھیلا رہی ہے جس
سے یہ امکان انتہائی کم ہے کہ انتہا پسند حملوں کا سلسلہ رکے گا۔ وسطی خیبر
پختونخوا میں بھی بڑی تعداد میں دہشت گرد موجود ہیں۔
سب سے زیادہ پریشان کُن ’طالبانیت‘ اور فرقہ واریت
کے درمیان ابھرنے والا نیا گٹھ جوڑ ہے۔ کرم کے سابق قبائلی علاقوں میں حالیہ فرقہ
وارانہ پُرتشدد واقعات میں متعدد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جس نے عسکریت پسندی کو
انتہائی مہلک رخ دیا ہے۔ کرم کا متاثرہ علاقہ گڈشتہ کئی ہفتوں سے بند ہے جبکہ
انتظامیہ خطے میں کشیدگی کم کرنے میں ناکام ہے۔
کرم اور اورکزئی اضلاع میں فرقہ وارانہ تنازعات
کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے لیکن یہ صورت حال اس وقت زیادہ پیچیدہ ہوگئی کہ جب
افغانستان میں طالبان نے ایک بار پھر اقتدار سنبھالا جس سے ٹی ٹی پی کو دوبارہ
متحرک ہونے کا موقع ملا۔ دیگر بیرونی عناصر بھی حالات کی خرابی کا سبب ہیں۔[دوسری
جانب سے] وفاقی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت میں صوبائی
حکومت کے درمیان تناؤ نے صوبے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی بری طرح
متاثر کیا ہے۔
یہ شاید حقیقت ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت
کے آنے سے ٹی ٹی پی کو تقویت ملی ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی سرگرمیاں تیز کردے۔
نام نہاد اسلامی امارت، ٹی ٹی پی کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کررہی ہے جبکہ ان دیگر
عسکری گروہوں کو بھی پناہ دیے ہوئے ہے جو پاکستان کے لئے خطرات بڑھا رہے ہیں۔ لیکن
یہ بنیادی طور پر ملک میں مربوط انسدادِ دہشت گردی اور انسداد انتہا پسندی کی پالیسی
کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہے جس نے دہشت گرد گروہوں کو اپنی کارروائیوں کا موقع
فراہم کیا ہے۔
سنہ 2021ء میں پاکستان نے افغان طالبان کے کہنے
پر ٹی ٹی پی کے ساتھ نام نہاد امن مذاکرات میں شرکت کی جوکہ ایک تباہ کُن غلطی
ثابت ہوئی ہے۔ اس عمل کے دوران پاکستان نے بڑی تعداد میں ٹی ٹی پی کمانڈروں کو رہا
کیا تھا جن میں سے کئی بے رحم قاتل شامل تھے۔
انٹیلی جنس حکام کی جانب سے کی جانے والی اس بات
چیت میں ہزاروں مسلح شرپسندوں کو پاکستان واپس آنے کی اجازت دی گئی۔ ٹی ٹی پی کے
اعلیٰ لیڈران تو افغانستان میں رہے لیکن کالعدم تنظیم کے بہت سے کارندے دوبارہ
کارروائیاں شروع کرنے کے لئے پاکستان آگئے تھے۔ کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے جنگ
بندی ختم کرنے اور پاکستان کی سیکورٹی فورسز پر دوبارہ حملے شروع کرنے کے بعد
مذاکرات ناکام ہوگئے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بات چیت کا سلسلہ اس وقت
شروع ہؤا تھا کہ جب عمران خان کی حکومت کے اقتدار کے آخری دن تھے جبکہ نئی پی ڈی
ایم حکومت نے طالبان سے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھا؛ لیکن پاکستان کو درپیش دہشت
گردی کے چینلجز اور ان میں اضافے کا ذمہ دار سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کو ٹھہرایا جاتا
ہے۔
دوسری جانب بلوچستان میں بھی شدت پسند حملوں میں
تیزی سے اضافہ ہؤا ہے۔ تاہم دونوں صوبوں کو درپیش سیکورٹی چیلنجز مختلف نوعیت کے ہیں
لیکن ان دونوں کے امتزاج نے دہشت گردی کے خطرے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ بلوچ علحیدگی
پسند گروہوں کی جانب سے سیکورٹی اہلکاروں اور تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ٹی
ٹی پی اور بلوچ عسکریت پسندوں کے بعض دھڑوں کے درمیان کسی طرح کے گٹھ جوڑ کے سلسلے
میں بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جس نے سیکورٹی خدشات میں اضافہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں
پاک-چین اقتصادی راہداری پر کام کرنے والے چینی شہریوں کو نشانہ بنانے کے واقعات
بھی تشویش ناک ہیں۔ دہشت گردوں کی جانب سے چینی شہریوں پر حملوں نے ملک کے مختلف
حصوں میں سرگرم عسکریت پسندوں کے متنوع ایجنڈے کی عکاسی کی ہے جوکہ تجسس میں مبتلا
کردیتا ہے۔ حالیہ حملوں میں بیرونی عناصر کے ملوث ہونے کے حوالے سے لگائے جانے
والے الزامات میں بھی کسی نہ کسی حد تک صداقت تو ہوگی۔
لیکن سب سے اہم پاکستان کو اپنی انسدادِ دہشت
گردی کی حکمت عملی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے گھر کے معاملات کو
سدھارنا ہوگا۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لئے
طویل مدتی حکمت عملی موجود ہے یا نہیں؟ انفرادی آپریشنز سے کچھ نہیں ہوگا۔ اس کے
لئے ہمیں ایک جامع طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے ملک میں سیاسی استحکام کی بدتر ہوتی
صورت حال نے دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ تقسیم کا شکار
ملک سنگین خطرے کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
۔۔۔۔۔
بقلم: زاہد حسین، ڈان نیوز
۔۔۔۔۔
110