21 نومبر 2024 - 08:30
ٹرمپ انتظامیہ اور بکھرا ہؤا دو قطبی امریکہ + تصاویر

ٹرمپ اپنی دوسری حکومت قائم کرنے کے لئے کوشاں ہے جبکہ امریکی ماہرین معاشرے کے پارہ پارہ ہونے اور دو بڑی جماعتوں پر عوامی عدم اعتماد اور اندرونی و بیرونی پالیسیوں پر شدید دو قطبیت (bipolarity) کے اثرات سے خبردار کر رہے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا |

ٹرمپ کی کامیابی کے بعد احتجاجی مظاہروں کے پھوٹ پڑنے سے اندرونی اختلافات میں پہلے سے کہیں زیادہ شدت آنے کے بارے میں امریکیوں کی تشویش کا سبب ہیں۔

بعض ماہرین دوقطبیت (Bi-polarization)  کی اصطلاح کو سیاسی تقسیم یا سیاسی دراڑ (Political Divide) کا عنوان دیتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں انتخابات کے سوا اور روزمرہ زندگی کے معاملات میں بھی امریکہ کی دو قطبیت کے اثرات نمایاں ہوتے آئے ہیں۔

کچھ امریکی تجزیہ کاروں نے مختلف سماجی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی دراڑوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سوشل نیٹ ورکس اور سوشل میڈيا نے امریکی معاشرے کی دو قطبیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

معلومات جمع کرنے کی معتبر جرمن کمپنی اسٹاٹیسٹا (Statista)  نے حال ہی میں امریکی معاشرے میں موجودہ دو قطبی صوتر حال پر ایک رپورٹ پیش کیا ہے اور لکھا ہے کہ دائیں بازو کے انتہاپسند اور بائیں بازو کے انتہا پسند کہلوانے والے امریکیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے 11 فیصد امریکی کہتے ہیں کہ وہ بائیں بازو کے انتہا پسند ہیں اور 19 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ دائیں بازو کے انتہاپسند ہیں؛ اور صرف 18 فیصد امریکیوں نے کہا کہ وہ سیاسی مرکز کی طرف رجحان رکھتے ہیں اور دائیں یا بائیں بازو کی طرف مائل نہیں ہیں۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دوقطبی شدہ امریکی معاشرہ کم ہی اپنے آپ کو ریپبلکن یا ڈیموکریٹ سمھجتا ہے۔ حالیہ انتخابات میں آزاد ووٹرز کی تعداد ـ رائے دہندگان کے سب سے بڑے گروہ کے طور پر ـ پہلی بار ریپبلکنز کے برابر ہو گئی۔

اس کمپنی کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ امریکی عوام اس ملک کے اداروں پر مزید اعتماد نہیں کرتے؛ ان اداروں میں صدر، سپریم کورٹ اور امریکی کانگریس شامل ہیں جن سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔

پیو ریسرچ سینٹر ( Pew Research Center)، نے لکھا ہے کہ امریکی معاشرے کی دو قطبیت کا آغاز سنہ 1970ع‍ کی دہائی سے ہؤا تھا لیکن سنہ 2000ع‍ کے بعد اس کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔

یہ امریکی مرکز کہتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے ان ارکان کی تعداد 1994ع‍ کے دو گنا ہو چکی ہے جو ایک دوسرے کے بارے میں ناخوشگوار نظریات رکھتے ہیں۔

پیو کے مطالعے کے مطابق، موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں دو دو جماعتوں کے اختلافات اور تعصبات بہت شدید ہیں۔

صرف 21 فیصد ریپلکنز اس مسئلے کو بنیادی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں لیکن 78 فیصد ڈیموکریٹس موسمیاتی تبدیلیوں کو اپنا بنیادی مسئلہ سمجھتے ہیں۔

اس معتبر تحقیقاتی مرکز کے مطابق، "اسلحے سے متعلق قانون کی اصلاح" اور "ملک کی فوجی طاقت کی تقویت" ان دوسرے مسائل میں سے ہیں جن کے سلسلے میں دو جماعتیں شدید اختلافات رکھتے ہیں۔

حالیہ صدارتی انتخابی مہم کے دوران ایک مسئلہ بہت عیان تھا اور وہ یہ تھا کہ تقسیم در تقسیم اور قطبی (polarization) ہونے کا یہ سلسلہ اندرونی مسائل تک محدود نہیں ہے بلکہ خارجہ پالیسی بھی اس کا شکار ہو چکا ہے۔

پالیسی سازی کے شعبے میں سینئیر امریکی تجزیہ کار ڈیانا ایپسٹین (Diana Epstein) اور جارج بش جونیئر کے دور میں امریکی بجٹ اور مینجنگ آفس کے ڈائریکٹر جان گراہم (John R. Graham) نے اس سلسلے میں ایک مشترکہ مضمون لکھا ہے اور کہا ہے کہ کسی ملک کا قطبی ہوجانا اور ملک کی دھڑوں میں تقسیم ہوجانا خارجہ پالیسی کے سلسلے میں عمومی اتفاق کو کمزور کر دیتا ہے اور اس کی بین الاقوامی حیثیت کو نقصان پہنچاتا ہے، نیز خارجہ پالیسی میں تقسیم اور دھڑے بندی دشمنوں کو تقویت پہنچاتی ہے، اتحادیوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہے اور قومی عزم کو کمزور اور سست کر دیتی ہے۔

شکاگو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ولسن جیمز (Wilson James) سمیت دوسرے امریکی محققین خارجہ پالیسی میں قطبیت کے اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جب امریکہ اندرونی طور پر منقسم ہوتا ہے اور اس حال میں بیرون ملک تعلقات قائم کرتا ہے تو تو اس کے اتحادی اس کے وعدوں پر کم ہی اعتماد کر سکتے ہیں، عین ممکن ہے کہ اس کے دشمن اس کی کمزوریوں کا اندازہ لگا دیں، اور عالمی معاملات میں اس ملک کی پوزیشن کے بارے میں غیر یقینی صورتحال بڑھ جاتی ہے۔

خارجہ پالیسی پر دو قطبیت کے اثرات کا اظہار

انتخابی مہم کے دوران یوکرین اور غزہ کی جنگ اور دوسرے مسائل کے بارے میں ٹرمپ کے وعدوں سے امریکی خارجہ پالیسی میں دو قطبیت کا بھرپور اظہار ہوتا ہے۔ 

ٹرمپ نے کہا ہے کہ یوکرین کی جنگ کو بر سراقتدار آنے کے پہلے 24 گھنٹوں میں ختم کر دے گا لیکن بائیڈن انتظامیہ نے انتخابات کے بعد، یوکرینی حکومت کو طویل فاصلے پر مار کرنے والے میزائلوں سے لیس کیا، اور یوکرینی فوج نے ان میزائلوں کو روس کے اندر تک حملوں کے لئے استعمال کیا، چنانچہ ٹرمپ کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہؤا نظر نہیں آتا اور کہا جاتا ہے کہ بائیڈن نے صدارتی انتخابات میں اپنی جماعت کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے یوکرین کی حکومت کو روس پر حملوں کا گرین سگنل دیا ہے اور یہ واقعات بھی بجائے خود، امریکی خارجہ پالیسی میں دو قطبیت کی بڑی نشانیاں ہیں.

۔۔۔۔۔۔

110

یہ بھی دیکھئے:

- ویڈیوز | منتخب صدر ٹرمپ کے خلاف لاکھوں امریکیوں کا مظاہرہ