28 اکتوبر 2024 - 08:33
مسئلۂ فلسطین کا دو ریاستی حل، ایک بڑا جھوٹ

کچھ لوگ حال ہی میں فلسطینی اور لبنانی عوام کی حمایت اور صہیونی جرائم کے خلاف اقدام ـ یا فلسطین اور لبنان میں نسل کشی کی ـ حتیٰ زبانی کلامی مذمت کے بجائے دو اسرائیلی اور فلسطینی ریاستوں کے قیام اور صہیونیوں کی 1967 کی نام نہاد قانونی سرحدوں کے اندر واپسی کو واحد راہ حل قرار دے رہے ہیں جو نہ ممکن ہے اور نہ ہی صہیونی اس کے خواہاں ہیں۔ صہیونیوں نے تو یہ آرٹیکل امن معاہدے میں، وقت خریدنے کے لئے درج کروایا تھا!

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا

دو ریاستی حل اب تک صرف مقاومت کو قابو میں رکھنے اور مقاومتی محاذوں کو مقبوضہ فلسطینی اراضی کی آزادی سے باز رکھنے کے لئے پیش کیا جاتا رہا ہے اور اب تو صہیونی کسی رازداری کے بغیر اس کی اعلانیہ مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ صہیونی ریاست اس سمجھوتے کے فریق کے طور پر اس سمجھوتے میں شامل ہے اور امریکہ نے ہمیشہ کی طرح جھوٹی ضمانت دی ہے لیکن نہ امریکہ اور نہ ہی صہیونی "فلسطینی ریاست" کے قیام پر یقین ہی نہیں رکھتے۔

حالیہ عشروں میں ثابت ہو چکا ہے کہ صہیونی ریاست، ـ خاص طور پر کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدے کے بعد ـ کسی بھی سمجھوتے کی پابند نہیں رہی ہے اور اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں نیز بین الاقوامی قوانین، معاہدوں اور کنونشنوں کو پھاڑ پھینکا ہے۔

چنانچہ سوال یہ ہے کہ دو ریاستی حل کے حامی کونسی "دو ریاستوں" اور کون سی "قانونی اسرائیلی" سرحدوں کی بات کر رہے ہیں؟

اور اس سے اہم سوال یہ ہے کہ مکارانہ امریکی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات میں صہیونیوں کا فریق مقابل کون تھا؟ کیا وہ ملت فلسطین کے منتخب نمائندے تھے؟ کیا وہ فلسطینی کاز کے ترجمان تھے؟ کیا یاسر عرفات، انور سادت اور محمود عباس فلسطینیوں کی نمائندگی کر رہے تھے اور کر رہے ہیں؟ اگر وہ فلسطینی قوم کے نمائندے تھے تو غرب اردن اور غزہ میں حماس اور جہاد اسلامی کے مجاہدین کون ہیں؟ کیا انہیں ان مذاکرات میں شامل کیا گیا تھا؟

انتہائی اہم نکتہ یہ ہے کہ "یہودی ریاست" سوسال سے بھی زیادہ قدیم نظریئے کا نام ہے جس میں فلسطین کا کردار ایک لانچر کی ہے اور اس میں فلسطین کے علاوہ بھی چھ عرب ممالک شامل ہیں۔ یہودی فلسطین پر اکتفا کرنے والے نہیں ہیں، ان کی پیاس فلسطین ہی پر قبضہ کرکے بجھنے والی نہیں ہے، بلکہ نیل سے فرات تک ایک یہودی ریاست کے قیام کے خواہاں ہیں تو فلسطین کو فلسطینیوں کے ساتھ کیونکر تقسیم کریں گے؟ "یہودی ریاست" کا نظریہ اس کے نظریے کے بانیوں ہی کا نظریہ نہیں تھا بلکہ آج تیسرے ہزارے (3rd millennium) میں بھی ان کے سرغنوں کی "حرص" و "لالچ" کی کوئی انتہا نہیں ہے اور آج بھی وہ نیل سے فرات تک کا نعرہ مذکورہ چھ ممالک کا نام لے لے کر، لگا رہے ہیں۔

صہیونیوں نے اپنی حکمت عملی کو "فریب"، "خیانت و غداری"، "دکھاوے اور منافقت"، "غفلت" "خوف و ہراس پھیلانے" وغیرہ پر مرتب کیا ہے۔ چنانچہ دو ریاستی حل کے "مسلمان" وکالت کاروں کو ایسے انداز سے بات نہیں کرنا چاہئے کہ صہیونی ـ جنگ و نزاع اور خوف و ہراس کے اس ماحول میں ـ مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے ان کی اس عجیب غفلت اور حیرت انگیز جہل کا سہارا لے سکتے ہیں۔

یقینا راہ حق کے مجاہدین اور اصحاب مقاومت نے کبھی بھی ایسا موقف نہیں اپنایا ہے اور پھر دو ریاستی حل کے مسلمان وکالت کار ایسے وقت ان مغربی تجاویز کو دہرا رہے ہیں کہ صہیونی ریاست ہر لمحے فلسطینی اور لبنانی عوام پر ـ سمجھوتوں کے ثالث امریکہ ـ کے بنائے ہوئے بم گرا رہی ہے۔ اس نے حال میں شہید القدس الحاج قاسم سلیمانی، سپاہ قدس کے مجاہدوں، شہید اسماعیل ہنیہ، شہید سید حسن نصراللہ، شہید سید ہاشم صفی الدین، شہید یحییٰ السنوار اور بڑی تعداد میں مجاہدین اور ہزاروں فلسطینی عوام ـ بشمول بچوں اور خواتین ـ کو قتل کر دیا ہے، تو اس صورت حال میں جنگی مجرم صہیونی ریاست کے مذکورہ وکالت کار کس طرح کھڑے ہیں اور کس کو سہارا دے رہے ہیں؟ آپ نیٹو اور صہیونی ریاست کے اس بیانیئے کو دہرا دہرا کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا یہ موقف ان کے ذاتی خوف کا نشانہ نہیں ہے؟

فلسطینی اور لبنانی مجاہدین کی زبان حال یہ ہے کہ "مت ڈرو اور مت ڈراؤ" اگر تم میں تاریخ معاصر کے ان جلادوں اور خونخواروں کے خلاف جدوجہد اور جنگ کی ہمت نہیں ہے، تو ملت فلسطین، ملت لبنان، ملت یمن، ملت عراق، ملت ایران اور مغربی ایشیا کی اقوام اور عالمی مجاہدوں کو اپنا اسلامی، قرآنی، انسانی اور تاریخی فریضہ نبھانے دو۔

ملت فلسطین اور غاصبوں کے درمیان 76 سال سے خون کا دریا حائل ہے، دو ریاستی حل کا وہم، ایک فریب اور بڑا تاریخی دھوکہ ہے اور صرف سادہ لوح لوگ اس دھوکے میں آتے ہیں، تم اس فریب کی وکالت سے اجتناب کرو۔

شاید تم بھی دیکھ رہے ہو لیکن خوف یا کسی لالچ کی وجہ سے رازداری سے کام لے رہے ہو لیکن خطے کے سیاسی حالات سے واقف لوگ واضح طور دو ریاستی حل کے فریب کے پیچھے ایک "نظریہ" دیکھ رہے جسے وہ "نظریۂ تسلیم" (Surrender theory) کا نام دیتے ہیں۔ یہ تسلیم اور ہتھیار ڈالنے کا پرچم دو ریاستی حل کے وکالت کاروں کے ہاتھ میں کیوں ہے؟!

۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: محمدکاظم انبارلوئی

ترتیب و ترجمہ: فرحتس حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔

110