ایران کے تیزرفتار اور زبردست فاتحانہ آپریشن وعدہ صادق-2 اور صہیونیوں اور ان کے حامیوں کی بدترین دفاعی شکست کے بعد، ایسا لمحہ نہیں گذرا ان پچیس دنوں میں (یکم اکتوبر سے) کہ غاصب، طفل کُش، وحشی اور خونخوار صہیونی سرغنوں نے زمین آسمان کے قلابے نہ ملائے ہوں، شیخیاں بگھارنے کی حدیں نہ پھلانگی ہوں اور ایران کے خلاف حملے کی دھمکیاں دیتے ہوئے بے ہودہس رائی اور خود ستائی نہ کی ہو۔ ادھر ـ آج ایران کو صبر و تحمل کی تلقین کرنے والے ـ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی اور امریکہ کے بعض دوسرے حاشیہ بردار بھی انتہائی شرمناک انداز سے ایران کے خلاف صہیونی دھمکیوں میں شریک تھے، یہاں تک کہ کل [ہفتہ 26 اکتوبر 2024ع] صہیونی طیاروں نے امریکہ کے زیر کنٹرول عراقی کی فضائی حدود کے وسط سے تہران، ایلام اور خوزستان میں بعض علاقوں پر حملہ کیا۔
ایران کا فضائی دفاعی نظام
کا کردار انتہائی قابل تحسین رہا اور زیادہ تر میزائل مار گرائے گئے۔ ایران کا انٹیگریٹڈ
ایئر-میزائل ڈیفنس سسٹم اتنا کامیاب رہا کہ ایک ایرانی مبصر نے اس کو ایران کا نیا
کارنامہ اور صہیونیوں کی نئی شکست کا نام دیتے ہوئے کہا کہ "ایرانی ایئر-میزائل
ڈیفنس سسٹم کی کارکردگی بجائے خود ایک عظیم آپریشن کہلوانے کا مستحق اور وعدہ
صادق-3 کی تمہید ہے"، اور امریکی سنٹرل کمانڈ کے سابق کمانڈر کینتھ ایف میک کینزی
(Kenneth F.
McKenzie) کو ـ سی این این کے ساتھ بات چیت
کرتے ہوئے کہا پڑا:
"یہ ایک شرمناک اور خفت امیز
حملہ تھا۔ میں نے اپنی کمانڈ کے زمانے میں اسرائیلیوں کو بار بار کہا تھا کہ ایرانی
فضائی حدود ناقابل تسخیر ہیں، اور ایران کا مقابلہ کرنے کا واحد طریقہ 'دہشت
گردانہ کاروائیاں ہیں!' جیسا کہ "ہم نے جنرل سلیمانی کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا!"۔
اور صہیونی چینل کان کے نامہ نگار روعی کائس نے ایران پر صہیونی ریاست کے حملے کا
تمسخر اڑایا اور کہا: "اگر میں [امام] خامنہ ای کی جگہ ہوتا تو دوبارہ سو
جاتا اور صبح اٹھ کر اس واقعے کا جائزہ لیتا!"۔
گوکہ صہیونیوں کا حملہ
ناکام رہا اور اس کی شیخیاں، شیخیاں ہی ثابت ہوئیں لیکن اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس وحشی
اور جعلی ریاست نے ایران پر جارحیت کا ارتکاب کیا ہے جس کا جواب دینا نہ صرف ضروری
ہے بلکہ جیسا کہ ہمارے اعلی حکام نے بارہا کہا ہے ایران کا جواب وعدہ صادق-2 کے
مقابلے میں کہیں زیادہ تباہ کن اور طاقتور ہونا چاہئے اور ہوگا بھی؛ اور ہمارے پاس
یہ صلاحیت موجود ہے۔
مغرب کسی وقت اسلحہ ساز
ممالک سے کہتا تھا کہ ایران کو اسلحہ نہ فروخت کرو اور آج ایران سے کہتے ہیں کہ
بعض انتہائی طاقتور ممالک کو میزائل اور بیلسٹک میزائل اور جدید ڈرون طیارے نہ بیچیں!۔۔۔
اور امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کے بقول "آج ہم [سنہ 1980ع کی دہائی میں]
مسلط کردہ جنگ کے مقابلے میں 100 گنا زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں"۔
صہیونی ریاست اور اس کے
امریکی یورپی حامی اور علاقائی سازشی ریاستوں کو جان لینا چاہئے کہ اس پلید اور
زوال یافتہ ریاست کی جارحیت کا جواب ضرور دیا جائے گا اور اس مرتبہ ایران کا جواب
پہلے سے کہیں زیادہ بھاری، وسیع اور شدید ہوگا، اتنا کہ جس کا تصور ان کے لئے ممکن
نہیں ہے۔
تمام شواہد اور نشانیوں
اور ناقابل انکار دستاویزات کی رو سے بالکل عیاں ہے کہ ہمارے مقابلے میں امریکہ
دشمنی کے لئے کھڑا ہے اور بے بس یورپ کو بھی اپنے پیچھے کھینچ رہا ہے، کیا ایسا نہیں
ہے؟ چنانچہ تجویز یہ ہے کہ کل کی جارحیت کا جواب دیتے ہوئے امریکی مفادات اور
ذرائع اور فوجی نفر کو بھی اپنے جائز اور قانونی اہداف کی فہرست میں شامل کیا
جائے۔
گوکہ کچھ ممالک کہہ رہے ہیں
کہ صہیونیوں کا حملہ ناکام ہو چکا ہے چنانچہ وہ ہمیں صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے
لیکن ہم جانتے ہیں کہ اگر ہم ایک زبردست جواب نہ دیں تور امریکہ اور اس کی علاقائی
چھاؤنی ـ یعنی صہیونی ریاست ـ ایران پر حملے کریں گے اور ایرانی عوام کی جان و مال
کو خطرہ لاحق ہوگا اور صبر و تحمل کی تلقین کرنے والے ممالک بھی ـ جو غیر جانبدار
نہیں ہیں اور صہیونیوں کی صف میں کھڑے ہیں ـ ہمیں جوابی کاروائی سے روکنا چاہتے ہیں
تاکہ صہیونیوں کی اگلی جارحیتوں کی راہ ہموار ہو سکے۔
چنانچہ ہم صہیونیوں اور ان
کے حامیوں سے کہتے ہیں "ہم نے تمہارا برسنا دیکھ لیا اب ہمارے طوفان کا
انتظار کرنا"۔
۔۔۔۔۔
بقلم: حسین شریعتمداری
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔
110