17 اکتوبر 2024 - 11:36
امریکہ میں دو ہولناک واقعات اور غزہ و لبنان سے ان کا تعلق!

جہاد کا سب سے نچلا درجہ مجاہدین کے لئے دعا کرنا اور ظالموں سے نفرت کرنا ہے، لیکن آج کے زمانے میں اس سے بڑھ کر جہاد کا امکان بھی فراہم ہے اور مالی، قلمی اور زبانی لحاظ سے بھی مجاہدین اور مظلوم فلسطینیوں اور لبنانیوں کی مدد کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ صرف موسمی سیلاب اور طوفانوں کو اس قدر بڑھا چڑھا کر نہیں پیش کرنا چاہئے کہ پڑھنے والے یہ سمجھیں کہ بس اللہ نے سب کچھ کر دیا اور ہمیں مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ |

یہ ایک موازنہ ہے جسے یقینا باعث تسکین نہیں بننا چاہئے؛ یہ دو حادثات دو ایسی امریکی ریاستوں میں رونما ہوئے ہیں جو براہ راست اسرائیل کے جرائم میں شریک اور فلسطینیوں اور لبنانیوں پر "اسرائیلی" بمباریوں کے سہولت کار ہیں۔ ان دو ریاستوں کی خبریں غزہ اور لبنان کے واقعات سے متعلق خبروں کی غیر معمولی اہمیت کی وجہ سے، ذرائع ابلاغ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کچھ زیادہ کامیاب نظر نہیں آئے، لیکن بہرحال یہ حادثات رونما ہوئے ہیں بہر صورت:

امریکہ میں ہر سال طوفان آتے ہیں، خواہ غزہ اور لبنان پر مغربی تہذیب کے ترجمان "اسرائیل" نے حملہ نہ بھی کیا ہو، چنانچہ طوفانوں کا آنا باعث حیرت نہیں ہے۔ مسلمین کے دل خون سے بھرے ہوئے ہیں، وہ صہیونیوں اور امریکیوں کو مظلومین کا قاتل سمجھتے ہیں اور ان سے انتقام لینے کو اپنی ترجیح سمجھتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ یہ موازنہ ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے اور انہیں سوکون پہنچانے کا سبب بنے اور ایسا ہونا نہیں چاہئے۔ غزہ اور لبنان کی جنگ میں انہوں نے ہمارے عزیز ترین عزیزوں کا خون کیا ہے، ہمارے لاکھوں عزیزوں کو شہید اور زخمی کر دیا ہے، اور امریکی طوفانوں سے امریکہ اور مغرب کے دامن پر لگا یہ دھبہ دھل نہیں سکے گا۔  

2۔ واضح رہے کہ شمالی کیرولینا اور فلوریڈا پر کسی نے حملہ نہیں کیا ہے اور وہاں ڈیڑھ لاکھ کے قریب افراد موت کے گھاٹ نہیں اتارا اور زخمی نہیں کیا، وہاں شہر ابھی موجود ہیں، جبکہ غزہ کا 90 فیصد حصہ جان بوجھ کر مسمار کیا گیا ہے اور مٹی کا ڈھیر بنایا گیا ہے۔ غزہ کا وجود مٹانے کی ارادی کوشش کی گئی ہے، چنانچہ امریکہ پر آنے والا طوفان اگرچہ مظلوموں کے لئے خوشایند ہو سکتا ہے لیکن امریکہ کو اپنے کئے کا جواب دینا ہے، اور ان قدرتی طوفانوں کی بنا پر اسے معاف نہیں کیا جا سکے گا۔

3۔ "جو بوؤگے وہی کاٹو گے"، ایک ازلی اور ابدی قاعدہ ہے۔ اور یہ بھی شاید الٰہی انتقام کی ایک جھلک ہو، گوکہ آگے چل کر امریکہ کو بھی اپنے ظلم و جبر اور کروڑوں مسلمانوں قتل کا جواب دینا ہوگا: حتی دنیا کی عدالت میں، مسلمانوں کی عدالت میں اور دنیا کے تمام حریت پسند انسانوں کی عدالت میں۔

مختلف زبانوں میں فلوریڈا اور شمالی کیرولینا پر آنے والے طوفانوں کو غزہ پر مغربی تہذیب کے حملے کا نتیجہ قرار دینے والی ایک تحریر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس کا خلاصہ ذیل میں پیش خدمت ہے، گوکہ تحریر کو اردو پڑھنے والوں کے لئے قابل فہم بنانے کے لئے اس میں کافی تبدیلیاں لائی گئی ہیں؛ ذیل کی تحریر کو صرف یہ جاننے کے لئے پڑھئے کہ کچھ لوگ اپنی حد تک دشمن کے حملوں پر اپنے جذبے کا اظہار اس انداز سے بھی کرتے ہیں:

ویسے تو 50 ریاستوں اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا پر مشتمل ملک امریکہ فلسطین اور لبنان پر جاری صہیونی جرائم اور مقاومت کے مجاہد راہنماؤں کے قتل میں برابر کا شریک ہے؛ اور آپ نے بھی بارہا یہ صہیونی اعتراف پڑھا اور سنا ہوگا کہ "اسرائیل" امریکہ کی مدد کے بغیر دو دن تک بھی نہیں لڑ سکتا؛ لیکن اس ملک کی دو ریاستیں "شمالی کیرولینا" اور "فلوریڈا خاص طور پر، ـ براہ راست ـ "اسرائیلی" جرائم کی سہولت کار سمجھی جاتی ہیں۔

ان ریاستوں کی اہمیت

شمالی کیرولینا "امریکہ کا فوجی مرکز" ہے۔ اس صوبے کی آبادی ایک کروڑ ہے اور ریاست کی پوری آبادی یا تو فوجی مصنوعات میں مصرف ہے یا پھر یہاں کے رہائشی موجود فوجی اڈوں ميں کام کر رہے ہیں۔

امریکہ کی سب سے فوجی چھاؤنیاں یہیں ہیں، بموں اور میزائلوں سے لدے طیارے یہیں سے اڑتے ہیں اور جاکر مقبوضہ فلسطین میں اتر کر انہیں صہیونی غاصبوں کے سپرد کرتے ہیں۔ اور صہیونی جلاد انہیں نہتے اور بے گناہ فلسطینی اور لبنانی شہریوں کے گھروں پر پھینک دیتے ہیں۔ یہاں کے عوام اس قدر اسرائیل کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں کہ جب [چند ہی دن پہلے تک] یہاں سے "اسرائیل" کے لئے اسلحے سے لدے ہوئے طیارے ٹیک آف کرتے تھے، تو یہ لوگ نعرے لگا کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور کہتے تھے:

فلسطینیوں کو مار ڈالو، فلسطینیوں کو مار ڈالو

دوسری ریاست "فلوریڈا ہے؛ فلوریڈا امیر ترین یہودیوں کا مسکن ہے، اور یہودیوں کا ایک دوسرا کردار بھی ہے: یہ وہ یہودی ہیں جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ یعنی USA پر اثرانداز ہوتے ہیں، ایوان نمائندگان، سینٹ اور وائٹ ہاؤس میں ان کا سکہ چلتا ہے۔ کانگریس ایسے قوانین اور بل منظور کرتی ہے جن کے تحت وائٹ ہاؤس کو احکامات جاری کرنا پڑتے ہیں اور پھر امدادی پیکجز تیار کروائے جاتے ہیں جنہیں شمالی کیرولینا بھجوایا جاتا ہے جہاں سے انہیں "اسرائیل" کے لئے ارسال کیا جاتا ہے۔

چنانچہ فلوریڈا مالی صہیونی ریاست کے تئیں امریکہ کی مالی اور سیاسی پشت پناہی کی علامت ہے اور شمالی کیرولینا فوجی حمایت کی علامت۔

اب کچھ آگے بڑھتے ہیں:

جملۂ معترضہ: عالمی بینک نے اعلان کیا ہے کہ فلسطین میں اسرائیلی تباہ کاریوں کی تعمیر نو پر کم از کم 35 ارب ڈالر خرچ ہونگے۔

ریاست شمالی کیرولینا

تقریبا 10 دن قبل خدائے عزّ و جلّ نے سمندر سے ہیلینا (Helena) نامی طوفان بھیجوا دیا جس کو ہم طوفان نہیں بلکہ "عذاب اللہ" کا نام دیتے ہیں۔ اس طوفان نے دوسری ریاستوں کے گرد گھوم کر ایک بمبار طیارے کی طرح ـ جو اپنے ہدف پر براہ راست بم برساتا ہے ـ شمالی کیرولینا کو نشانہ بنایا۔ اور آب 10 دن بعد شمالی کیرولینا کی صورت حال کیا ہے؟

ہیلینا نے شمالی کیرولینا ریاست کو کچل ڈالا، بڑی بڑی بارشیں ہوئیں، بڑے بڑے سیلاب آئے، ایک کروڑ آبادی کا ایک بڑا حصہ بے گھر ہو گیا۔ پینے کا پانی ناپید ہے۔۔۔ یاد رکھئے: فلسطین میں نہ پہننے کو لباس ہے، نہ کھانے کے لئے غذا، نہ کوئی چھت ہے اور نہ ہی پناہ گاہ۔۔۔ وہ کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں۔ ادھر امریکی حکومت کے اندازوں کے مطابق شمالی کیرولینا کی تعمیر نو پر 35 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔

عیب جوئی نہ کرو ورنہ تُمہاری بھی عیب جوئی کی جائے گی۔(انجیل متی باب 7 - ورس 1)

ریاست فلوریڈا میں کیا ہؤا؟

فلوریڈا پر آنے والا طوفان خلیج میکسیکو سے اٹھا ہے اور طاقتورترین بمبار طیاروں کی طرح اس ریاست کی طرف اڑ کر آیا ہے جبکہ اس کی فی گھنٹہ رفتار 180 میل تک پہنچتی تھی۔ آندھی جو اس رفتار سے اڑے، تاریخ میں پہلے کی تاریخ میں مذکور نہیں ہوئی ہے۔ یہاں آندھیاں بم کا کام دے رہی ہیں۔ آندھیاں 180 میل فی گھنٹہ رفتار سے سمندر میں گھومتی ہیں اور فلوریڈا پر حملہ آور ہوتی ہیں۔

فلوریڈا کی آبادی دو کروڑ 20 لاکھ ہے، جن میں سے صرف کچھ لاکھ افراد طوفان سے محفوظ ہیں، پوری ریاست خطرے میں ہے، لاکھوں کے گھر ہوچکے ہیں باقی بھی بے گھر ہو سکتے ہیں۔ اس طوفان کی شدت اتنی ہے کہ پوری ریاست کو آبادی سے خال کر لیا گیا ہے اور اس ریاست کی تعمیر نو پر آنے والی لاگت ہوگی: 200 ارب ڈالر!

مذکورہ تحریر میں ذیل کی آیات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے:

سورہ انعام، آیت 11:

"قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ؛

کہہ دیجئے کہ روئے زمین پر چلو پھرو۔ پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہؤا؟"۔

سورہ روم، آیت 42:

"قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلُ كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُشْرِكِينَ؛

کہئے کہ چلو پھرو زمین میں، پھر دیکھو کہ کیا انجام ہوا ان کا جو اس کے پہلے تھے ؟ وہ زیادہ تر مشرک تھے"۔

سورہ نمل، آیت 69:

"قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ؛

کہئے کہ چلو پھرو زمین میں دیکھو کہ کیا ہوا انجام گنہگاروں کا"۔

*اختتام*

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرض مترجم:

بلا شبہ اللہ قوی اور عزیز اور غالب و قاہر ہے اور ستمکاروں کو دنیا اور آخرت میں سزا دیتا رہا ہے۔

یقینا خدا کی طرف سے سزا ایک حقیقت ہے، گوکہ یہ تعین کرنا ہمارا کام نہیں ہے کہ یہ جو واقعات رونما ہوئے ہیں یہ عینا اللہ کے بھیجے ہوئے عذاب کا مصداق ہیں، ہمارا کام نہیں ہے، کیونکہ اس کے عذاب کی نوعیت کا تعین وہ خود ہی کرتا ہے۔

امریکیوں نے اسرائیلیوں کے ساتھ مل کر عظیم ترین انسانی حرمتوں کو پامال کیا ہے، اس کو ان حرمت شکنیوں کی سزا بھگتنا ہوگی، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اور جنہیں مستضعف بناکر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ہے، وہی جو قلیل وسائل کے ساتھ مقاومت کر رہے ہیں اور ان کے خلاف جہاد کر رہے ہیں، ان کا حق یقینا ان ظالموں سے لیا جائے گا، اور دنیا کے تمام مظلومین و مستضعفین آخر کار بیدار ہوکر ان مستکبرین کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے اور انہیں ذلیل و رسوا کریں گے۔

جہاد کا سب سے نچلا درجہ مجاہدین کے لئے دعا کرنا اور ظالموں سے نفرت کرنا ہے، لیکن آج کے زمانے میں اس سے بڑھ کر جہاد کا امکان بھی فراہم ہے اور مالی، قلمی اور زبانی لحاظ سے بھی مجاہدین اور مظلوم فلسطینیوں اور لبنانیوں کی مدد کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ صرف موسمی سیلاب اور طوفانوں کو اس قدر بڑھا چڑھا کر نہیں پیش کرنا چاہئے کہ پڑھنے والے یہ سمجھیں کہ بس اللہ نے سب کچھ کر دیا اور ہمیں مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

فلسطینی اور لبنانی مظلومین عشروں تک تاریخ کے خبیث ترین وجود کے مظالم سہنے کے بعد، آج ان کے خلاف مردانہ وار انداز سے لڑ رہے ہیں، اور وہ ان طوفانوں کے منتظر نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں کی ہمہ جہت غیرت و حمیت اور مدد و حمایت کے منتظر ہیں۔

چنانچہ ہم دعا بھی کرتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہو مدد بھی کرتے ہیں، مالی، قلمی اور زبانی جہاد بھی کرتے ہیں اور ہاں! ہماری دعاؤں میں ظالموں پر لعنت اور ان پر اللہ کا قہر و عذاب نازل ہونے کی التجا بھی شامل ہو سکتی ہے، ان کے لئے ذلت و شکست و رسوائی کی التجا بھی شامل ہو سکتی ہے اور مظلوموں کی فتح اور کامیابی بھی۔

چنانچہ مذکورہ بالا تجزیہ [سا] امید ہے کہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہ کر دے، یوں کہ ان طبعی آفات کو عذاب رب متعال سمجھ کر اپنے فرائض بھول جائیں؛ گوکہ طبعی آفات بھی اللہ کے قہر و غضب اور ابتلا و آزمائش کی نشانیاں ہیں۔ تو خدا آیئے خدا کا کام خدا ہی کو کرنے دیں اور ہم بھی وہی کام کریں جو خدا نے ہمارے ذمے قرار دیا ہے: مجاہدین کی مدد اور مظلومین و مستضعفین کی حمایت۔

 ۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔

110