28 مارچ 2020 - 04:38
عطوان امریکی سلطنت کے زوال کا الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے

کورونا امریکی جنگوں ـ بالخصوص مشرق وسطی میں امریکی جنگوں ـ زیادہ خطرناک نہیں ہے؛ کیونکہ امریکیوں نے ان جنگوں میں کروڑوں انسانوں کو قتل اور بےگھر کردیا ہے اور شاید اس وائرس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ ـ ممکنہ طور پر ـ امریکی سلطنت کے خاتمے کا آغاز ثابت ہورہا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش (António Guterres) نے سوموار (23 مارچ 2020ع‍) کے دن دنیا کے مختلف علاقوں میں فوری جنگ بندیوں کی اپیل کی ہے کی ہے تا کہ تمام کوششیں ایک مہلک مرض کے سد باب اور ان ممالک کے عوام کی نجات پر مرکوز کی جاسکیں جن میں جنگوں کا سلسلہ جاری ہے۔

اس سے پہلے عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل "احمد ابوالغیط" نے بھی اسی طرح کی خواہش ظاہر کی تھی، گویا گوٹیرش نے ابوالغیط کی پیروی کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری نبھا لی ہے! بغیر اس کے کہ ان فریق کا نام لے جو ان جنگوں کے پس پردہ کردار ادا کررہا ہے، ان جنگوں کے بعض فریقوں کو اسلحہ اور مالی امداد فراہم کررہا ہے اور ممالک و اقوام کا محاصرہ کرنے اور ان پر پابندیاں لگانے جیسے اقدامات میں مصروف ہے۔ کیونکہ گویٹرش کو اپنے عہدے اور منصب کی فکر ہے۔ ان کی عمر 70 سال سے زائد ہوچکی ہے لیکن ان میں انسانی تاریخ کے اس حساس مرحلے میں خوف و وحشت محسوس کئے بغیر ان قوتوں کا نام لے کر تذکرہ کرنے کی جرات نہیں ہے۔

امریکہ ہی نے عراق پر فوج کشی کردی، اس پر قبضہ کیا اور امریکہ ہی تھا جس نے نیٹو کو لیبیا کو ویران کرکے ایک شکست خوردہ ملک میں تبدیل کرنے کا حکم دیا؛ اور آج بھی اس ملک میں جاری جنگ کے پیچھے امریکہ کے ہاتھ کو بالکل واضح دیکھا جاسکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول، امریکہ نے شام میں 90 ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی ہے؛ [اور ہم دیکھتے ہیں کہ 90 ارب ڈالر کی خطیر رقم جسے بظاہر امریکہ نے عرب ریاستوں کے خزانوں سے خرچ کیا ہے] خرچ کرکے اس خوبصورت اور تاریخی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے کام آئی ہے]۔ آج بھی امریکہ شام کے تیل کی چوری میں مصروف ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو علیحدگی پسند شامی کردوں اور تکفیری دہشت گرد ٹولوں ـ بالخصوص النصرہ اور داعش ـ کی مالی ضروریات کی تکمیل پر خرچ کررہا ہے۔ اور ہاں ہم عوامی جمہوریہ چین کے اس الزام کو بھی مسترد نہیں کرتے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔

ہماری آرزو تھی کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے ان پابندیوں اور اقتصادی محاصروں کے خاتمے کی بھی اپیل کی جن کے بموجب بہت سے ملکوں ـ منجملہ شام اور غزہ کی پٹی ـ میں کروڑوں انسانوں کے بھوکے رہنے کا سبب ہوئے ہیں، اور ان پابندیوں کے خاتمے کی بھی اپیل کی جو بعض ممالک کی سرحدوں کی بندش اور بیرونی دنیا سے اشیاء ضرورت ـ
بالخصوص دواؤں ـ کی درآمدات پر قدغن کا باعث بنی ہوئی ہیں؛ وہی مسئلہ جس کے نتیجے میں لاکھوں انسانوں کی شہادت کا سبب بنا ہوا ہے۔ اس کی واضح مثال 1990ع‍ کے عشرے میں عراق کی صورت حال ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن ممالک کا محاصرہ کرلیا گیا ہے وہ اس وبائی مرض کا مقابلہ کیونکر کرسکیں گے اور کس طرح اپنے شہریوں کو اس وائرس کے شر سے بچائیں گے حالانکہ [ان میں سے بعض ممالک کے عوام] شب و روز کے دوران بڑی مشکل سے ایک مرتبہ اپنے کنبوں کو کھانا کھلا سکتے ہیں؟ ان ممالک کی دولت کو مغربی ممالک کے بینکوں میں منجمد کردیا گیا ہے اور یہ اسپرین کی گولیاں بھی برآمد نہیں کرسکتے۔

بےشک کورونا وائرس خطرناک ہے اور اس کے سد باب کے لئے عالمی سطح پر باہمی تعاون کی ضرورت ہے لیکن ان جنگوں کی نسبت بہت زیادہ شفیق اور مہربان ہے جنہیں امریکہ نے مشرق وسطی کے علاقے پر مسلط کیا ہے؛ اور دسوں لاکھ انسانوں کو قتل اور کروڑوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا؛ اور شاید اس وائرس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ ـ ممکنہ طور پر ـ امریکی سلطنت کے خاتمے کے آغاز اور شرّ کی اس قوت اور اس کی مسلط کردہ جنگوں سے دنیا کی نجات کی نمایاں ترین دلیل ہے۔

امریکی اخبار "واشنگٹن پوسٹ" کے لئے کوئی ضرورت نہیں تھی کہ وہ اپنے اداریے میں ہمیں یاددہانی کروا دے کہ "کورونا وائرس نے جو نقصانات امریکیوں کی زندگی اور معیشت کو پہنچا دیئے ہیں، اس بات کو نمایاں کررہی ہیں کہ گویا دنیا پر امریکی قیادت کمزور پڑ رہی ہے"؛ جب دنیا کے طاقتورترین، امیرترین ملک امریکہ کی قیادت میں میں انسانیت کی کم سے کم سطح کا بھی فقدان ہے اور اپنے قریبی لوگوں کے مصائب کو بھی نظرانداز کرتا ہے اور ایک "ماسک" تک بھی اس وبائی مرض سے متاثر کروڑوں انسانوں کو دینے سے دریغ کرتا ہے؛ تو اس کی قیادت کے کمزور پڑنے اور ختم ہونے سے دنیا میں کس کو افسوس ہوسکتا ہے؟ ہمیں تو اس سے کوئی افسوس نہیں ہے، کیونکہ یہ ملک سب سے پہلی اور سب سے اہم انسانی آزمائش اسفل السافلین تک گر چکا ہے۔

عظمت قتل و غارت، جنگوں، اسلحے کی تجارت، بلیک میلنگ اور پابندیوں سے حاصل نہيں ہوا کرتی بلکہ اخلاقیات، انسانی اقدار کے فروغ، عدل و انصاف، کمزوروں کا ساتھ دینے، مظلوموں کو مدد بہم پہنچانے سے حاصل ہوتی ہے کیونکہ یہ سارے اقدار وہ شاہکاریں اور وہ اقدامات ہیں جنہیں امریکی قاموس میں کوئی بھی مقام و منزلت حاصل نہیں ہے۔

ہم نے نہیں دیکھا ہے اور نہیں پڑھا ہے کہ امریکی حکومت نے چاول کا ایک تھیلا غزہ کی پٹی تک پہنچآنے کا اہتما کیا ہو، یا یمن میں گندے پانی کی صفائی اور پانی صاف کرنے کے لئے متعلقہ کیمیاوی مواد اور یمن ہی میں کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے میں مصروف ڈاکٹروں کی کسی ٹیم کو امداد بھجوائی ہو جبکہ کورونا وائرس کی وجہ سے عام شہریوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہے [اور ہاں دوسری طرف سے امریکی فوجی دستے اور ڈرون سعودی عرب سے بھی اور یمن کے بعض علاقوں سے بھی یمنی مظلوموں کے قتل میں مصروف ہیں]۔ امریکی ترکی میں بھی موجود ہیں اور شام کا تیل چرانے کے لئے اس ملک کے بعض علاقوں میں بھی موجود ہیں لیکن کسی نے بھی آج نہ سنا اور نہ پڑھا کہ ترکی اور شام کی سرحدوں کے آر پار شامی پناہ گزینوں کے کیمپوں میں موجود خون کی کمی میں مبتلا مریضوں کے علاج کے لئے کوئی طبی ٹیم بھجوائی ہو؟ البتہ ہم نے یہ ضرور پڑھا اور سنا ہے کہ امریکہ کچھ ملکوں کے ساتھ ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان کی فروخت کی بڑے بڑے معاہدے منعقد کرتا رہا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے؛ یا یہ کہ امریکی ڈرون شادی کی محافل، عزاداری کی مجالس، سکولوں اور بچوں کے دیکھ ریکھ مراکز کو راکٹوں اور بموں کا نشانہ بناتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے یہ بھی سنا اور پڑھا ہے کہ امریکہ نے عراق پر اپنی جارحیت کے دوران عراقی عوام پر ختم شدہ یورینیم (Depleted uranium) استعمال کیا اور اس ملک میں سرطان کی بیماری پھیلا دی اور یہ امریکی اقدام ناقص الخلقہ بچوں کی ایک نسل کی پیدائش کا سبب بنا؛ ہم نے امریکہ کے اس قسم کے اقدامات کے بارے میں بہت کچھ پڑھا اور سنا ہے۔

کورونا وائرس نے امریکہ کی باضابطہ نسل پرستی کو رسوا کردیا، امریکی نظام صحت کا بھانڈا پھوڑ دیا اور جس طرح کہ اس وائرس نے امریکہ کی خودغرضی اور دوسروں کے رنج و الم کی نظر اندازی جیسی کمزوریوں اور رذالتوں کو طشت از بام کردیا اور امریکی سلطنت کے زوال کو عیاں کردیا۔ ایسے حال میں جبکہ روس اور چین کے طیارے ایرانی، اطالوی، ہسپانوی اور فرانسیسی ہوائی اڈوں کو امدادی کھیپ پہنچا رہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی فضاؤں میں اتحادی ممالک کی پروازوں پر پابندی لگائی ہے۔ [وہ ایک طرف سے کہہ رہے ہیں کہ "ہم کسی بھی ملک پر اعتماد نہیں کریں گے!" اور دوسری طرف سے جنوبی کوریا سے کچھ رعایتوں کا وعدہ دے کر امداد مانگ رہے ہیں اور ایک طرف سے کورونا وائرس کو چائنہ وائرس یا ووہان وائرس کہنے پر اصرار کررہے ہیں اور دوسری طرف سے چین کے سربراہ کو فون کرکے ان کی چاپلوسی کرکے امداد مانگ رہے ہیں]۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا سے متاثرہ ممالک کے لئے 10 کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے جبکہ انھوں نے جنہوں نے صرف ایک فحش اداکارہ کے الزامات اور متعلقہ سکینڈل کے حوالے سے افشائے راز سے چھٹکارا پانے کے لئے اس کو 130 میلین ڈالر کی رشوت دی تھی، تو کیا ان کے خیال میں درجنوں متاثرہ ممالک کے لئے 10 کروڑ ڈالر کی امداد رشوت کی مذکورہ رقم سے کم نہيں ہے؟

یقینا جس طرح کہ سوئٹزرلینڈ کی جنگ اور مصر پر برطانیہ، فرانس اور یہودی ریاست کے حملے نے سلطنت برطانیہ کو تاریخی حیثیت دی تھی، ممکن ہے کہ کورونا وائرس بھی سلطنت امریکہ کے زوال کی الٹی گنتی کا آغاز ثابت ہو [اور یہ وائرس اپنا نام ایک ظالم و جابر اور خطرناک و قانون شکن طاقت کے انہدام کے بنیادی سبب کے طور پر تاریخ میں ثبت کروا دے]۔
۔۔۔۔۔



۔۔۔۔۔
بقلم: عبدالباری عطوان، چیف ایڈیٹر روزنامہ "رأی الیوم"
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی



۔۔۔۔۔
110