ابنا: پچھلے دنوں ایران کی بعض ویب سائٹس پر یہ خبر دیکھنے کو ملی کہ ایران کے پڑوسی ملک آذربائجان میں یورو ویژن کے نام سے جو چار روزہ فیسٹول منعقد ہورہا ہے، اس کے خلاف تبریز شہر کے عوام سر اپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ تفصیلات جاننے کے لئے خبر کو کھنگالا تو پتہ چلا کہ بے حیائی کا مظاہرہ کرنے کے لئے یورپ کے رقاص رقاصاؤں اور گلوکاروں کے ساتھ پور ری دنیا سے دو ہزار ہمجنس پرست بھی آذربائجان آرہے ہیں جو ایک اسلامی ملک کے دارالحکومت کی سڑکوں پر مارچ کریں گے۔
اطلاعات کے مطابق ایران کے شہر تبریز کے عوام کئی دنوں سے آذربائجان کی حکومت کے اس غیر اسلامی اور غیر اخلاقی اقدام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں تبریز میں واقع آذربائجان کے قونصل خانے کی سامنے بھی ایران کے غیرت مند عوام مظاہرہ کر چکے ہیں۔ جمہوریہ آذربائجان کے عوام کی شدید مخالفت کے باوجود باکو کی حکومت یورو ویژن 2012 کی تقریبات کے انعقاد پر مصر ہے۔جمہوریہ آذربائجان کے ایک اخبار نے رپورٹ دی ہے کہ باکو کی حکومت سرکاری ملازمین کو یوروویژن فیسٹیول کی ٹکٹ خریدنے پر مجبور کررہی ہے۔
آذری اخبار بیزیم یول کے مطابق جمہوریہ آذربائجان کے عوام نے یوروویژن فیسٹیول کو نظرانداز کردیا ہے جس کے بعد حکومت باکو نے سرکاری اداروں اور اسکولوں نیز کالجوں میں اس مغربی فیسٹیول کے ٹکٹوں کی خریداری ضروری قراردی ہے۔ آذری عوام کی مخالفت کے باوجود حکومت باکو نے یوروویژن فیسٹیول کےانعقاد کے لئے کروڑوں ڈالر مختص کئے ہیں۔ یاد رہے یوروویژن اور ہم جنس پرستوں کی پریڈ ایسے عالم میں جمہوریہ آذربائجان میں منعقد ہونا قرار پائی ہے کہ اس ملک کے مسلمان عوام کو مذھبی آداب بجالانے کی اجازت نہیں ہے اور حکومت مسجدوں اور امام بارگاہوں کو بند کررہی ہے۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ حکومت باکو اسلامی پارٹیوں کے کارکنوں کو بے بنیاد الزامات لگاکر گرفتار کررہی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سامراج نے مسلمانوں کے دینی جذبات اور عقائد کمزور کرنے کےلئے ان کے ممالک میں فحاشی اور مغربی اقدار کو فروغ دینے کے پروگرام پر ترجیحی بنیادوں پرعمل کرنا شروع کردیا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہی کہ مغرب کے دلداہ اور اقتدار کے بھوکے حکمران، اسلامی اقدار کو پس پشت ڈال کر مسلمانوں پر مغرب کی عریاں ثقافت کو مسلط کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور دوسری طرف علما اور مذہبی دانشور طبقہ ان مسائل پر توجہ کئے بغیر مذھب کے نام پر فریق مقابل کو زیر کرنے پر تلا ہوا ہے، حالانکہ عریانیت اور بے حیائی کا سیلاب سب کو بہا کر لے جائےگا۔ حکمراں طبقے کی ڈھٹائی کی وجہ یہ ہے کہ وہ سیاست میں دین کی مداخلت کو تسلیم نہیں کرتے لیکن دینی معاملات میں سیاست کو مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آذربائیجان جہاں کی 97 فیصد آبادی مسلمان ہے وہاں کے 20 لاکھ کی آبادی والے دارالحکومت باکو میں صرف چار مساجد ایسی ہیں جہاں لوگوں کو نماز پڑھنے کی اجازت ہے تاکہ حکومت اہلکار آسانی کے ساتھ نمازیوں پر نگاہ رکھ سکیں جبکہ لاؤڈ اسپیکر پراذان کی آواز پر پابندی ہے۔ ہائی اسکول سے اوپر کی طالبات کو سر ڈھانپنے کی اجازت نہیں۔ ایک پاکستانی تجزیہ کار ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم کے بقول مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رہ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ مغرب نے ریاست کو چرچ سے جدا کرکے بہت کچھ کھو دیا ہے، چونکہ اس سے ریاستی امور، اخلاقیات کی مہک سے محروم ہو گئے ہیں۔
ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم کے مطابق نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ پہلی جنگ عظیم کی اندوہناک بھٹی میں جا گرا، جہاں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے اور اتنی قتل وغارت گری ہوئی کہ خون کی ندیاں بہہ نکلیں پھر دوسری جنگ عظیم میں بھی کئی ملین انسانوں کو گیس چیمبرز میں ڈال کر گھاس بوس کی طرح جلا دیا گیا۔ اُن کا قصور یہ تھا کہ وہ عیسائی نہیں بلکہ یہودی تھے، پھر جاپان میں کیا ہوا۔ سفاک حملہ آوروں نے انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ ایٹم بم گرا کر معصوم لوگوں کے دو ہنستے بستے شہروں یعنی ہیروشیما اور ناگا ساکی کو راکھ کے ڈھیروں میں تبدیل کر دیا، یہ سب اخلاقی پستی کی کرب ناک داستانیں ہیں۔
اخلاقیات کی تباہی کی سلسلے میں آج کے جدید دور میں بھی کیا کچھ نہیں ہو رہا۔ گوانتانامو بے میں قیدیوں کو ننگا کرکے اُن پر کتے چھوڑے گئے، افغانستان میں مسلمان نوجوانوں کو قتل کرکے ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی اور پھر فلم بنائی گئی اور ڈرون حملوں سے درجنوں بلکہ سینکٹروں بے گناہ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ یہ سب کچھ مذہب اور اخلاقیات سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اس حیوانیت کو انسانیت کہنا، انسانیت کی توہین کے مترادف ہوگا۔ دراصل ریاستی امور سے مذہبی سوچ اور اخلاقیات کا جنازہ اٹھ جانے کے بعد مغربی قوموں کے افراد بھی بے راہ روی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اب مغرب کا نعرہ 'آزادی‘‘ کا ہے اور یہ وہ آزادی ہے جس کو ساری مہذب دنیا مادر پدر آزاد، آزادی کہتے ہیں۔ اس آزادی کا مطلب عریانی ہے اور بے حیائی بھی۔ ایک مومن، اہل ایمان اور مسلمان کا بہت قیمتی زیور 'حیا‘‘ ہی ہے۔
آزادی بھی اس کو ضرور ہے لیکن اسلامی تعلیم کے مطابق صرف حدود و قیود کے دائرے کے اندر۔بدقسمتی سے اب پاکستانی معاشرے میں بھی بے حیائی عام ہوتی جا رہی ہے۔ کیبلز پر انتہائی واحیات پروگرام دیکھ کر اب ٹیلی ویژن چنیلوں پر شرم وحیا سے عاری اشتہار بھی مہذب لگنے شروع ہو گئے ہیں۔اس بےحیائی اور بدکاری کو دیکھ کر ہماری جوان نسل اور بچے جو ہمارا ایک انمول سرمایہ ہیں، اخلاقی پستی کا شکار ہو رہے ہیں۔
حیا کا پردہ ہٹ جائے تو انسان بےحیائی کے گہرے سمندر میں غرق ہو جاتا ہے۔ موبائل، ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور کیبلز نیٹ ورک کے غلط استعمال سے جوان نسل اخلاقی طور پر اس طرح تباہ ہو رہی ہے جیسے رانی کھیت کی بیماری سے لاکھوں مرغے اور مرغیاں یک دم ہلاک ہو جاتے ہیں۔ معاشرے کو تباہ کرنے والا اصلی ڈینگی وائرس یہی ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ معاشرے کی اس تباہ کن پستی کی طرف کسی کا بھی کوئی دھیان نہیں۔ نام نہاد روشن خیال والدین بھی اپنی اولاد کے ساتھ ٹی وی اسکرینوں کے سامنے بیٹھ کر یہ گند ہضم کر جاتے ہیں۔
ٹی وی چینلز اور کیبل آپریٹرز صرف کمائی کے دھندے میں مصروف ہیں۔ قلم کاروں کو یہ معاشرہ کش دیمک نظر ہی نہیں آ رہی۔ جنرل عبدالقیوم کے بقول بےحیائی اور بدکاری کے پھیلتے ہوئے کلچر کو روکنے والا کوئی نہیں۔ جہان تک آذربائجان تعلق ہے تو اس بارے میں اتنا جان لینا ضروری ہے کہ ستر برس تک کمیونسٹ نظام کے تسلط میں رہنے کے بعد اس ملک کے مسمان عوام نے سن 1991 میں آزادی حاصل کی لیکن سابق سویت یونین کی خفیہ تنظیم کے جی بی کے اہلکاروں کو اقتدار پر تسلط حاصل جو اپنی بے دینی اور مذہب مخالف خصلت کی بنا پر آج بھی اسلام کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں اور لیکن ان کی مذھب بیزاری صرف اسلام سے ہی ہے، کیونکہ دنیا کی سب سے زیادہ انتہا پسند مذھبی حکومت، اسرائیل کے ساتھ اعلی سطح پر سفارتی تعلقات قائم ہیں۔
البتہ آذر بائیجان حکومت اور عوام کی سوچ میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور لوگوں میں اسلام اور اسلامی اقدار کی جانب رجحان بہت زیادہ ہے اور اس لئے ان کی جانب سے یورویژن اور ہمجنس پرستوں کی مجوزہ ریلی کی سخت مخالفت کی جارہی ہے۔
....... /169