اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ آیت اللہ رضا رمضانی نے عید سعید غدیر کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عید کی مبارک باد پیش کی اور کہا: عید غدیر کی طرف جس آیت «الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي» کا اشارہ ہے اور جس میں دین کے کامل ہونے کا اعلان ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ دین غدیر میں مکمل ہوا اور اگر غدیر نہ ہوتی تو دین ناقص رہ جاتا۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ امامت اور ولایت سے دین مکمل ہوا واضح کیا: اگر امامت اور ولایت نہ ہوتی تو دین بے روح اور بے سہارا رہ جاتا۔
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سیکریٹری جنرل نے اس بات کی طرف اشاہ کرتے ہوئے کہ امام دین کا محافظ ہوتا ہے کہا: دین آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے 23 سالہ دور میں مکمل ہوا اور اگر امامت نہ ہوتی تو پیغمبر اکرم (ع) کی یہ تمام زحمتیں ضائع ہو جاتیں۔
اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ جب تک انسان موجود ہیں اور نبی تمام انسانیت کے نبی ہیں، دین بھی موجود ہے، انہوں نے کہا: کافر کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی وفات کے بعد ، جو کچھ ان 23 سالوں میں ہوا وہ سب ختم ہو جائے گا، لیکن نبی نے غدیر کے واقعہ سے دشمنوں کو مایوس کیا۔
آیت اللہ رمضانی نے بیان کیا: اسلامی معاشرے کے رہنما کی حیثیت سے پیغمبر اکرم (ص) کی حکمت نے ان سے دین کی حفاظت کا فرض طے کرنے کا تقاضا کیا اور غدیر کے واقعے نے اس فرض کا تعین کیا۔
اہل بیت (ع) عالمی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل نے پیغمبر اکرم (ص) کو دین کے تئیں ہر کسی سے زیادہ دلسوز سمجھا اور کہا: سب سے بہتر شخص جو علم لدنی کا مالک اور مقام عصمت پر فائز تھا اور دین کو اس کے حوالے کیا جانا چاہیے تھا خدا کی جانب سے منصوب ہوا اور نبی اکرم (ص) کے واسطے اس کا اعلان ہوا۔
انہوں نے یہ بیان کیا کہ روایتوں میں مشہور قول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے خطبہ غدیر کی تلاوت کرتے وقت 18،000 لوگوں کا مجمع تھا، کہا: پیغمبر اکرم (ص) کا یہ خطبہ کوئی معمولی خطبہ نہیں ہے اور پھر تین دن تک مرد اور حتیٰ عورتیں بھی آ کر بیعت کرتی رہیں۔
آیت اللہ رمضانی نے نشاندہی کی: واقعہ غدیر میں دین اپنے سرپرست کو جاننا چاہتا ہے، اور جس طرح حضور (ص) کو مرجعیت حاصل ہے ، اسی طرح امام کو بھی علمی، روحانی، سیاسی اور سب سے بالاتر دینی مرجعیت حاصل ہونا چاہیے۔
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل نے اس حقیقت کا حوالہ دیتے ہوئے کہ واقعہ غدیر میں لوگوں کو یہ بتلا دیا گیا کہ عالم اسلام کی دینی مرجعیت کا عہدیدار کون ہو گا کہا: غدیر کا تعلق صرف شیعوں سے نہیں ہے بلکہ غدیر تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔
* غدیر کا مسئلہ آج اسلامی معاشرے کی نشوونما میں موثر ثابت ہو سکتا ہے
آیت اللہ رمضانی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ غدیر کا مسئلہ، آج اسلامی معاشرے کی ترقی کے لیے موثر کردار ادا کرنے والا ثابت ہوسکتا ہے، کہا: آںحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کی سب سے بڑی عید عید غدیر سمجھتے ہیں اور اس واقعے کا تجزیہ و تحلیل ہونا چاہیے۔
آیت اللہ رمضانی نے مزید کہا: امیر المومنین (ع) کو غدیر کے دن ایک کامل ترین، زاہد ترین اور شجاع ترین انسان کے طور پر متعارف کروایا تاکہ دشمن مایوس ہو جائیں کہ اب وہ کچھ نہیں کر سکتے۔
اہل بیت (ع) عالمی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اگر آج ہم غدیر کی تعلیمات پر توجہ دیں گے تو ہم دین کے تحفظ میں اس کے کردار کو سمجھیں گے انہوں نے کہا: غدیر انسانی معاشرے کو دین کی انتہائی درست تفہیم فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے بیان کیا کہ غدیری تحریک نے دانشگاہ امام باقر و امام صادق (علیھما السلام) کو وجود بخشا، مزید کہا: اگر یہ غدیر نہ ہوتی تو دین اور قرآن کی سچائی نظر نہ آتی کیونکہ لوگ اسے آسانی سے مسخ کر دیتے۔
آیت اللہ رمضانی نے دین کی صحیح تفہیم کے فقدان کو معاشرے کے انحراف کا سبب سمجھا اور کہا: جب بھی دین بدکرداروں اور حکمرانوں کے قبضے میں ہوگا، اسلامی معاشرہ ذلیل ہوگا انسانی وقار ایسے معاشرے میں نظر آئے گا جہاں امام اور خدا کے ولی معاشرے میں موجود ہوں اور وہ حکومت کریں۔
مجلس خبرگان رہبری میں گیلان کے لوگوں کے نمائندے نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ امام اجازت نہیں دیتا معاشرہ انحراف کا شکار ہو، واضح کیا: پوری تاریخ میں امامت کو ایسا ہونا چاہیے۔ آج بھی یہ قیادت اور امامت بطور امام ہادی حضرت ولی عصر (ع) کے ہاتھ میں ہے۔
انہوں نے کہا: "جہاں بھی امامت صحیح طریقے سے اپنا کردار ادا کرے معاشرہ تمام انحرافات سے نجات پا جاتا ہے۔
آیت اللہ رمضانی نے مزید کہا: "جہاں بھی نائب امام نے معاشرے میں اپنے سماجی اور سیاسی کردار کو مضبوط بنایا وہاں دین سماجی میدان میں محسوس ہونے لگے گا۔
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ غدیر کا ایک اہم سبق دین کو سیاست سے الگ کرنا نہیں ہے اور کہا: جب پیغمبر(ص) لوگوں کو علی (ع) کی بیعت کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سماجی اور سیاسی معاشرے میں دین کا نمایاں کردار نظر آنا چاہیے۔
* ایران کا اسلامی انقلاب امامت کا مظہر ہے
انہوں نے غدیر کو مسلمانوں کا سب سے اہم اجتماع قرار دیا کہ جس میں امام کو معاشرے کے لیے متعارف کروایا گیا اور مزید کہا: "اس واقعہ نے انسانی تاریخ کے مستقبل میں مسلمانوں کی صورت حال کا تعین کیا۔"
آیت اللہ رمضانی نے مزید کہا کہ ایران کا اسلامی انقلاب امامت کا مظہر ہے ہم سب کو اس انقلاب کی قدر کرنی چاہیے اور سماجی میدان میں دین کی تبلیغ عدل و انصاف کے ساتھ ظاہر ہونا چاہیے۔"
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ عدالت دین کے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتی اور دین اور عدالت کے درمیان واضح رشتہ پایا جاتا ہے کہا: آج ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ لوگ اسلامی نظام میں عدل و انصاف کا مزہ چکھیں اور یہ ایک الہی وعدہ ہے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اگر امام حکومت حق تشکیل دیں تو عوام سلامتی اور عدالت حاصل کریں گے کہا: اسلامی ملک میں حکومت کو ایسے کارنامے دکھلانا چاہیے تاکہ لوگ مایوسی کا شکار نہ ہوں۔
...........
242