20 مارچ 2021 - 13:30
مغرب کے لئے آیت اللہ العظمی سیستانی کے سات پیغامات - 2

یقینا امریکہ سمیت مغربی ممالک نے پوپ فرانسس کو اپنے مقاصد کے لئے عراق بھجوایا تھا لیکن آیت اللہ سیستانی نے انہیں اپنا قاصد بنا لیا اور پوپ سے مخاطب ہوکر فرمایا: "میں جو کچھ آپ سے کہہ رہا ہوں، یہ مغربی حکمرانوں کو منتقل کریں"، جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ عراق کی اعلی مرجعیت نے دنیا کے کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا پوپ فرانسس کو باریابی کی اجازت دے کر، مغربی معاشروں اور حکمرانوں کو بھی مورد خطاب قرار دیا؛ اور یہ پیغام بھی، یہ قاصد بھی اور پیام منتقل کرنے کی یہ روش بھی، بہت زیادہ اہم ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ گزشتہ سے پیوستہ

4۔ مسئلۂ فلسطین
اس ملاقات کا خاص الخاص نکتہ "مسئلۂ فلسطین" تھا۔ آیت اللہ سیستانی نے ملت فلسطین کے آلام اور مصائب و مسائل کی طرف اشارہ کیا اور مقبوضہ سرزمینوں کی صورت حال کی طرف خاص توجہ دی اور اس تاریخی موقف نے در حقیقت فلسطین کے سلسلے میں شیعہ مرجعیت کے ازلی موقف کی یاد تازہ تر کردی۔  
فلسطین کا اٹھایا جانا اور آیت اللہ سیستانی کی نگاہ کی نوعیت نیز فلسطینی قوم کے حقوق کے تحفظ پر مبنی ان کا موقف، کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ آیت اللہ سیستانی اپنی نوجوانی کے دور سے فلسطین کی آزادی اور فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کا مسئلہ ان کی فکرمندیوں میں شامل چلا آرہا ہے۔ انھوں نے اپنے اس نئے اور عالمی سطح کے تاریخی موقف نے ملت فلسطین کے حقوق پر مبنی مطالبات میں نئی روح پھونک دی اور یہودی ریاست اور اس کی دہشت گردی کے مغربی حامیوں کو رسوا کر دیا۔ عالم اسلام کی سیکولر قوتوں کو توقع نہ تھی کہ اس قسم کے ایک دیدار میں اس اہم مسئلے کو اٹھایا جائے گا چنانچہ آیت اللہ سیستانی کے اس عظیم تاریخی موقف نے عراق، ایران اور پاکستان سمیت عالم اسلام کے تمام ممالک میں دین و سیاست کی جدائی کے نرسنگے میں پھونکنے والے سیکولر دھاروں اور مغرب نوازوں کو بری طرح چونکا دیا اور انہیں نہتا کردیا۔
 آیت اللہ سیستانی کے بیان پر صہیونیوں کا غصہ
عالم اسلام کے سیکولر عناصر کے ساتھ صہیونی-یہودیوں نے بھی آیت اللہ سیستانی کے موقف سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا؛ وہ چاہتے بھی تھے اور بی بی سی سمیت مختلف صہیونی-مغربی ذرائع کے ذریعے تشہیری مہم بھی چلا رہے تھے کہ پوپ کا یہ دورہ کسی طرح قم اور نجف اور تہران و بغداد کے درمیان تقابل کے مترادف قرار دیا جائے لیکن آیت اللہ سیستانی سمیت نجف اشرف کے تمام مراجع اور امام خامنہ ای اور قم کے مراجع تقلید کے درمیان اتفاق رائے نے اس سازش کو ناکام بنایا اور پوپ کے دیدار میں آیت اللہ سیستانی کے نہایت بصیرانہ موقف نے بنیامین نیتن یاہو اور یہودی ریاست، نیز برطانیہ اور امریکہ سمیت یہودی ریاست کے تمام بہی خواہوں کو بری طرح مایوس اور اداس کرکے رکھ دیا۔ نیتن یاہو اور اس کے حلیفوں نے اپنی درندگی کو شدت بخشی؛ اور دلچسپ امر یہ ہے کہ عرب ممالک کے ساتھ ساز باز کے بعد، عراق کے ساتھ بھی سفارتی تعلق کی بحالی کا خواب، آیت اللہ سیستانی کے تاریخی موقف کے بعد،  کسی صورت میں بھی، شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔
آیت اللہ سیستانی کا یہ موقف در حقیقت نجف کی مرجعیت کی طرف سے قدس پر قابض طفل کش یہودی ریاست اور مغربی اور عرب حامیوں کے لئے ایک بڑے "نہیں" اور نمایاں انکار کا اظہار تھا۔
5۔ توسیع پسندی نامنظور
توسیع پسندی سے پرہیز پر تاکید آیت اللہ سیستانی کے موقف کا ایک اہم جزو تھا؛ کیونکہ مغربی ممالک، اقوام عالم کے حقوق غصب کرنے، بحرانوں کو ہوا دینے، اور کم ترقی یافتہ ممالک کے ذخائر اور معدنیات کو غارت کرنے میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ عراق سمیت کئی اسلامی ممالک پر امریکی گوالوں (cowboys) کی یلغار  اور امریکی دہشت گردی کو حاصل مغربی-عبرانی-عربی حمایت درحقیقت توسیع پسندی کا مصداق ہے اور آیت اللہ سیستانی نے پوری صراحت کے ساتھ اس مسئلے کو اٹھایا اور اس کی مخالف و مذمت کی۔ یوں انھوں نے امریکی توسیع پسندی کو بھی نامنظور کرلیا۔
حقیقت یہ ہے کہ آیت اللہ سیستانی کے ساتھ پوپ فرانسس کی ملاقات میں جو چیز بہت عیاں طور دیکھی گئی وہ یہ تھی کہ وسیع البنیاد بین الاقوامی مسائل - بشمول مغربی استکبار اور توسیع پسندی کی مخالفت کے سلسلے میں - عراق کی اعلی مرجعیت کا تزویری موقف بہت واضح اور شفاف ہے۔
6۔ تکفیر، مذہبی اقلیتوں کی سرکوبی نامنظور! یکسان آزادی کی حمایت
مذہبی آزادی کی اہمیت، حکومتوں کے ہاتھوں دینی اور مذہبی اقلیتوں کی سرکوبی کا سلسلہ روکنا اور دیندار انسانوں کے خلاف سرکاری اقدامات سے اجتناب"،  وہ اہم موضوعات تھے جن کی طرف آیت اللہ سیستانی نے پوپ فرانسس کی ملاقت میں، اشارہ کیا؛ یہ موضوعات ہیں کے حوالے سے فرانس سمیت متعدد مغربی ممالک کا عمل نامہ کافی سیاہ ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای نے چند ماہ قبل فرانسیسیوں کے ان رویوں پر سخت رد عمل ظاہر کیا اور یہ ردعمل فرانسیسی صدر اور حکومت کے خلاف یورپ اور اسلامی دنیا میں وسیع احتجاج کا سبب بنا۔
فلسطین کے مظلوم مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف غاصب صہیونی-یہودیوں کے جرائم، حجاب اور شہری حقوق کے حوالےسے یورپی حکومتوں کی طرف سے مسلم خواتین اور تمام مسلمانوں کے لئے پیدا کردہ گھٹن کی فضا ان ہی اقدامات میں سے ہیں؛ گوکہ بنی سعود، بنی نہیان اور بنی خلیفہ جیسی قبائلی شہنشاہیتوں کی تکفیری پالیسیوں کو بھی اسی قسم کے اقدامات کے زمرے میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
دیگر مذاہب کے خلاف جنگ اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے قتل عام کی غرض سے، بنی سعود اور اس کے دوسرے حلیفوں کی طرف سے، تکفیری دہشت گردی کی حمایت اور اس کی بنیادوں کی تقویت، بھی دنیا کو درپیش چیلنجوں میں سے ایک بڑا چیلنج اور اس کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
چنانچہ آیت اللہ سیستانی کے بیان کا یہ حصہ بھی بڑی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اس مسئلے میں بھی انھوں نے کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا کو شیعہ مرجعیت کی عقلیت کی گہرائی اور حوزات علمیہ اور فقہ جعفریہ کی عمرانیت اور معاشرت پسندی کی یاددہانی کرا دی۔
7۔ غربت نامنظور
غربت دیا کے بنیادی مسائل میں شامل ہے۔ استعماری عمرانیاتی اصولوں کے مطابق، دنیا کئی طبقوں میں بٹی ہوئی ہے؛ ایک طبقے کو ہمیشہ آجر و آقا و مالک رہنا ہے جس کو "پہلا طبقہ" [پہلی دنیا] کہا جاتا ہے، اور باقی طبقات [تیسرے طبقے یا تیسری دنیا] کو ان ک ترقی اور نشوونما کی چکی میں پِس جانا ہے. [اس عجیب استعماری زمرہ بندی میں "دوسرا طبقہ" یا "دوسری دنیا کا تصور نہیں ہے]۔
آیت اللہ سیستانی کی نگاہ میں انسداد غربت کو مسئلہ، اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ دنیا کی تمام قوموں کو استقلال اور خودمختاری تک پہنچنا چاہئے، اور ان کے وقار و عزت اور سعادت و کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ غربت اور استعمار کے لئے ماحول سازی کرنے والے چینلوں کا بند ہونا لازمی ہے جس کا لازمہ یہ ہے کہ عالمی استکبار کے ہاتھ ان اقوام و ممالک کے گریبان سے کاٹ دیئے جائیں، جنہیں مغربی استعماری قاموس میں "کم ترقی یافتہ یا ترقی پذیر" کا لقب دیا جاتا ہے اور ہم جانتے ہیں یہ لقب اس لئے ان اقوام و ممالک کو دیا گیا ہے کہ طبقۂ اول کی قوتوں نے ان ممالک کے باسیوں کا قتل عام کیا ہے اور ان کے وسائل کو لوٹ ٹیا ہے اور انہیں کمزور کردیا ہے اور خود طبقۂ اول کہلوا رہی ہیں۔
آیت اللہ سیستانی کا نظریہ ان تمام توسیع پسندانہ پالیسیوں پر بطلان کی لکیر کھینچنے کے مترادف ہے جو اقوام عالم کے استقلال و خودمختاری سلب کرکے، غربت، بھوک و افلاس اور مختلف بحرانوں کو ان پر مسلط کرتی ہیں۔
تشیّع کی عزت، حکمت اور عقلیت
آیت اللہ سیستانی کے ساتھ پوپ فرانسس کی ملاقات میں ہم نے ایسے رویوں کو دیکھا جو بہت قابل قدر تھے۔ بطور مثال آیت اللہ سیستانی کی رہائشگاہ تک کے راستے میں بھی اور رہائشگاہ کے اندر بھی آیت اللہ سیستانی کے سوا کوئی بھی دوسرا عالم موجود نہیں تھا؛ یا یوں کہئے کہ آیت اللہ سیستانی کے دفتر کے زیادہ تر کارکنان - جو علماء میں سے ہیں - پوپ کے پیچھے پیچھے دکھائی نہیں رہے تھے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اہم ملاقات میں آیت اللہ سیستانی نے عزت و حکمت کے دو اہم مراکز کو خاص طور پر ملحوظ رکھا ہؤا تھا۔ یعنی اس ضرورت کا خصوصی خیال رکھا گیا تھا کہ کہیں معزز شیعہ علماء کی عظمت کو گلی اور گھر کے اندر، پوپ کے پیچھے چل کر، مجروح نہ کیا جائے اور ان کی تذلیل و تخفیف نہ ہو۔
پوپ فرانسس، آیت اللہ سیستانی کے قاصد
یقینا امریکہ سمیت مغربی ممالک نے پوپ فرانسس کو اپنے مقاصد کے لئے عراق بھجوایا تھا لیکن آیت اللہ سیستانی نے انہیں اپنا قاصد بنا لیا اور پوپ سے مخاطب ہوکر فرمایا: "میں جو کچھ آپ سے کہہ رہا ہوں، یہ مغربی حکمرانوں کو منتقل کریں"، جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ عراق کی اعلی مرجعیت نے دنیا کے کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا پوپ فرانسس کو باریابی کی اجازت دے کر، مغربی معاشروں اور حکمرانوں کو بھی مورد خطاب قرار دیا؛ اور یہ پیغام بھی، یہ قاصد بھی اور پیام منتقل کرنے کی یہ روش بھی، بہت زیادہ اہم ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ اور مسلم دنیا میں عراق اور ایران کے بدخواہوں نے پوپ فرانسس کے دورہ عراق پر پیشگی جشن مناتے ہوئے دنیا والوں کو یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کی کہ "عراق مزید محاذ مزاحمت کا ساتھ نہیں دے گا اور مغرب کے دامن میں گرے گا؛ لیکن صاحبان فکر و نظر کے لئے آیت اللہ سیستانی کے بیان کے مختلف پہلو واضح ہونے کے بعد، ورق الٹ گیا اور امریکی مفادات کے لئے مسلم معاشروں کی گمراہی پر مامور تشہیری و ابلاغی نیز سیاسی عناصر کی تمام کوششیں خاک میں مل گئیں؛ کیونکہ وہ جان گئے کہ نجف کی مرجعیت مغرب نوازوں کے زیر اثر نہیں آتی اور آیت اللہ سیستانی کا موقف عراقی قوم کا موقف ہے اور عراقی قوم اپنی سرزمین کی آزادی اور استقلال کی خواہاں ہے اور یہ قوم جانتی ہے کہ استقلال و خودمختاری سازباز کے ذریعے نہیں بلکہ مقاومت و مزاحمت کے راستے سے حاصل ہوا کرتی ہے؛ اور یہ وہی درس ہے جس کی سب سے بڑی پشت پناہ نجف میں مستقر دینی مرجعیت ہے وہی جس نے جہاد کا فتوی دے کر الحشد الشعبی کے قیام کا راستہ ہموار کیا اور عراق کو امریکی-صہیونی-وہابی-داعشی قبضے سے نکال دیا۔
عراق کی موجودہ عبوری حکومت اور عبوری وزیر اعظم مصطفی الکاظمی کو ہرگز توقع نہ تھی کہ آیت اللہ سیستانی دو ٹوک الفاظ میں، عراق کی عزت و عظمت پر تاکید کریں گے، کیونکہ حالیہ چند مہینوں میں اس حکومت اور وزیر ا‏عظم کی کارکردکی نے واضح کردیا ہے کہ ان کا ارادہ زیادہ تر مغربی قوتوں کے ارادے کا تابع ہے اور انہیں عراقی قوم کے مفادات و مطالبات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ الکاظمی کی حکومت کی کارکردگی کی وجہ سے، مغرب نوازوں کی توقعات میں زبردست اضافہ ہؤا ہے، یہاں تک کہ پوپ کے دورہ عراق سے پہلے انھوں نے موقع مناسب سمجھ کر یہ جھوٹی خبر تک پھیلا دی کہ عراق بھی امارات، مصر، اردن، مراکش، سوڈان، بحرین اور سعودی عرب کی طرح غاصب یہودی ریاست کے ساتھ صلح کرے گا اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرے گا؛ گوکہ فلسطینی کاز کی حمایت میں آیت اللہ سیستانی کے تاریخی موقف نے اس تشہیری مہم کو بھی مغرب نوازوں اور یہود نوازوں کی رسوائی اور شرمندگی میں تبدیل کردیا۔
.................
بقلم: حسین محمدی اصل، ماہر امور مغربی ایشیا
ترجمہ و ترتیب: فرحت حسین مہدوی
.................
110