اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

مصر کے نامی گرامی صحافی محمد حسنین ہیکل (مرحوم) نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) سے ملاقات کے بعد لکھا: "مجھے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ایک صحابی کا دیدار نصیب ہؤا جو زمانے کے 1400 سالہ سرنگ سے عبور کرکے عصر حاضر میں آیا ہے، تاکہ علی (علیہ السلام) کے ان سپاہیوں کو اکٹھا کر لے جو آپ کی شہادت کے بعد منتشر ہو گئے تھے، اور اسلام کو ـ جسے بھلا دیا گیا ہے ـ ایک بار پھر عدل علی(ع) کی حکومت کی کرسی پر بٹھا دے۔ میں ان کے چہرے میں اس صلاحیت کو عیاں دیکھ رہا ہوں"۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ

جنگ خندق جاری ہے۔ مختلف جماعتوں، گروپوں، عقائد کے دشمنان اسلام متحد ہوکر اسلام کے مقابلے پر آئے ہیں۔ اسلام کو مشترکہ دشمن سمجھتے ہیں اور اتفاق کر چکے ہیں کہ وقتی طور پر باہمی اختلافات بھلا کر اس مشترکہ دشمن کے خلاف صف آرا ہوجائیں، اور بعدازاں ہر کوئی اپنی راہ چلے! جنگ خندق کو اسی وجہ سے جنگ احزاب کہا گیا ہے۔ قبائل اور جماعتوں نے یہودیوں کی معیت میں اس زمانے کے جدیدترین ہتھیاروں سے لیس 10000 جنگی مَردوں کی ایک سپاہ  تشکیل دی اور یہ سپاہ مدینہ کا محاصرہ کرنے کی نیت سے، آ گیا۔ دوسری طرف سے 3000 سے بھی کم افراد پر مشتمل سپاہ اسلام ہے جو انتہائی کم جنگ وسائل سے لیس ہے۔ سلمان فارسی محمدی کی تجویز پر ایک خندق کھودی گئی ہے جس کے اس پار احزاب کی سپاہ کھڑی ہے۔ سپاہ کفر کی طرف سے پانچ مشہور پہلوان میدان میں آئے ہیں جن میں سر فہرست عَمروُ بنُ عَبدُ وَدّ (یا أو عَبدُ وُدّ) ہے۔ عمرو  ہل من مبارز (ہے کوئی مجھ سے لڑنے والا؟) کی صدائیں دے رہا ہے لیکن کسی میں سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ سپاہ اسلام سے امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب (علیہما السلام) میدان میں آتے ہیں۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) اس معرکے کی توصیف میں فرماتے ہیں:

"بَرَزَ الإِیمَانُ كُلُّهُ اِلىَ الشِرْكِ كُلِّهِ؛ 

پورا [کا پورا] ایمان، پورے [کے پورے] شرک کے مد مقابل نمودار ہؤا ہے"۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے اس معرکے میں سب کی حیرت کے اسباب فراہم کرتے ہوئے اپنی تلوار کے وار سے عمرو بن عبد ود کو ہلاک کر دیا۔ احزاب کے باقی منتخب پہلوانوں نے فرار کو قرار پر ترجیح دی اور بھاگ کھڑے ہوئے۔ سپاہ کفر ربط و ہم آہنگی اور استحکام کھو بیٹھا۔ سپاہ اسلام میں ہنگامہ سرور بپا ہؤا اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) ارشاد فرماتے ہیں:

"ضَرْبَةُ عَلِيٍ يَوْمَ الخَنْدَقِ اَفضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الثَّقَلَیْنِ...؛

علی کا یہ ایک وار [قدر و قیمت کے لحاظ سے] جنّ و انس کی عبادت سے افضل ہے"۔

سپاہ اسلام میں سے علی (علیہ السلام) میدان کے وسط میں ہیں اور دوسری طرف سے عمرو بن عبد ود۔

سوال: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اس معرکے کو "پورے کفر" کے ساتھ "پورے اسلام" (اور پورے ایمان) کا معرکہ کیوں ٹہرایا اور علی(ع) کی ضربت کو تمام جہانوں کی عبادت سے برتر و افضل ٹہرایا؟

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی اس توصیف کا سبب اس دن کے بہت سے شاہدین اور مؤرخین نے بیان کیا ہے لیکن اسے آنحضرت(ص) ہی کی زبان سے سنا جائے تو شیریں اور دلنشیں تر ہے۔ فرماتے ہیں: اے علی! بشارت ہو آپ کو، کیونکہ اگر آپ کے آج کے دن کے عمل کا پوری امت محمد(ص) کے تمام اعمال کے ساتھ موازنہ کرایا جائے تو آپ کا عمل سب پر بھاری ہے؛ کیونکہ مشرکین کے گھروں میں سے ایسا ایک گھر بھی نہیں ہے جس پر عمرو بن عبد ود کی ہلاکت سے خواری اور ذلت سایہ فگن نہ ہوئی ہو؛ اور مسلمانوں کے گھروں میں سے کوئی بھی گھر ایسا نہیں ہے جس نے اس کی ہلاکت سے عزت و شوکت نہ پائی ہو"؛ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا یہ کلام بھی اسی سلسلے میں ہی وارد ہؤا ہے:

"ذَهَبَ رِيُحُهُمْ وَلَا يَغْزُونَنَا بَعْدَ اَلْيَوْمِ وَنَحنُ نَغْزُوهُم إنُ شَاءَ اللَّهُ...؛ 

آج کے بعد ان [کفار و مشرکین] کی ہوا اکھڑ گئی [اور ان کی شوکت و عظمت ٹوٹ گئی]، اور اس کے بعد وہ ہم سے لڑنے نہیں آئیں گے اور ہم ہی جو مستقبل میں ان کے خلاف جنگ لڑیں گے، اگر اللہ چاہے"۔

اب سپاہ اسلام کی حالیہ کاروائی "وعدہ صادق" کی طرف پلٹ آتے ہیں، جو 13 اور 14 اپریل کی درمیانی شب کو صہیونی [یہودی] ریاست کے خلاف انجام پائی۔

 الف: اس معرکے میں ایک طرف سپاہ اسلام کھڑی ہے اور دوسری طرف اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے تمام چھوٹے بڑے دشمن صف بند ہو کر کھڑے ہیں: صہیونی ریاست، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور 23 ممالک اور، جو شمال سے جنوب اور مشرق و مغرب تک، ایران کے پہلے سے اعلان کردہ آپریشن کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار باش کی حالت میں ہیں اور اپنی پوری صلاحیتیں میدان میں لائے ہیں۔ (جنگ احزاب میں سپاہ کفر کی طرح)۔

ب: دشمنوں کے مجموعے کی فوجی طاقت اور جنگی وسائل، اس طرف والے محاذ کی نسبت بہت وسیع اور زیادہ ہیں۔ دشمن کا رعب و دبدبہ اتنا خوفناک، وسیع، وسیع البنیاد اور نمایاں ہے کہ کوئی بھی دوسری طاقت اس سے لڑ پڑنے کی جرات نہیں رکھتی۔ صہیونی ریاست خود کو دنیا کی چوتھی بڑی طاقت اور ناقابل شکست قوت سمجھتی ہے! امریکہ بلا منازع (یا بلا مقابلہ Unopposed) بڑی طاقت کہلاتا ہے؛ برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک بھی جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں اور یہ سب نیٹو تنظیم (North Atlantic Treaty Organization [NATO]) میں اکٹھے ہوئے ہیں۔ خطے کے بہت سے عرب اور غیر عرب ممالک بھی اپنی پوری ساکھ اور پوری طاقت یہودیوں کی غلامی میں مگن ہوکر میدان میں آگئے ہیں سپاہ کفر کے شانہ بشانہ اور۔۔۔ ( قیاس کریں سا کا جنگ احزاب میں مشرکین کے بڑے لشکر اور وسائل سے)۔

ج: آپریشن "وعدہ صادق" طاقت کے عروج پر انجام پایا اور سپاہ پاسداران کے میزائلوں اور ڈرون طیاروں نے دشمنوں کی حیرت اور پریشانی کے عین وقت میں پوری قوت اور شان و شوکت سے صف بندی کی تھی، اور ایران کے مختلف علاقوں سے اڑ کر صہیونی ریاست کے طیارہ شکن اور میزائل شکن سسٹمز نیز 23 ملکی دفاعی نظامات کو ـ جو کہ پہلے ہی مقابلے کے تیار تھے ـ کو پیچھے چھوڑ کر پہلے سے متعینہ دو نشانوں پر اترے اور اعلیٰ ترین کارکردگی دکھاتے ہوئے ان دو نشانوں کو انتہائی درستگی کے ساتھ تباہ و برباد کر دیا۔ چھوٹے بڑے دشمنوں نے ناامیدی اور اداسی سے بھرپور حیرت کے ساتھ، اپنی شکست ناپذیری کا دعویٰ چور چور ہوتے ہوئے دیکھا اور اعلانیہ اعتراف کیا کہ "ہم اسلامی ایران کی دانشمندی اور زبدرست فوجی طاقت کے سامنے اپنی تسدیدی صلاحیت (Deterrence capability) کھو چکے ہیں۔۔۔ (بالکل اسی طرح کہ جب عمرو بن عبد ود مارا گیا تو سپاہ شرک کا رعب و دبدبہ پوری طرح ٹوٹ گیا) اور غزہ کے مسلمان اس رات آرام سے سوئے، اور مقبوضہ فلسطین کے مسلمانوں سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں اور حق پرست انسانوں کی شادمانی کی صدائیں آسمان تک پہنچیں (اور ان شادمانیوں نے اس جشن و سرور کی یاد تازہ کی کہ جو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ایک کاری ضربت سے عمرو بن عبد ود کی ہلاکت کے بعد مسلمانوں نے منایا تھا وہی کاری ضرب جو عبادت ثقلین سے افضل ہے ارشاد رسالت کے مطابق)۔

د: غزہ میں صہیونیوں کے وحشیانہ جرائم کے خلاف عالمی سطح پر وسیع پیمانے پر ہونے والے احتجاجی ریلیوں اور جلسے جلوسوں کے بعد، کئی ہفتے ہوئے کہ امریکہ، یورپ، بحر الکاہل، ایشیا اور افریقہ کی جامعات کے طلبہ اور اساتذہ بھی غزہ میں صہیونیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کُشی اور وحشیانہ جرائم کے خلاف احتجاج کے لئے میدان میں آئے ہیں؛ اور ان کے مطالبات اور نعرے اسرائیل کی مذمت سے بہت آگے بڑھ گئے ہیں اور مذمت کا راستہ بدل کر خونخوار یہودی ریاست کو مٹانے پر مرکوز ہو گئے ہیں؛ اور صہیونی ریاست کے خلاف اساتذہ اور طلبہ کی تحریک کی خبریں دنیا کے ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیاں بن گئی ہیں۔ طلبہ اور اساتذہ کو مارا پیٹا جاتا ہے، گرفتار کیا جاتا ہے لیکن یونیورسٹیوں سے برخاست کیا جاتا ہے لیکن اس تاریخی احتجاجی تحریک میں نہ صرف کوئی کمی نہیں آ رہی ہے بلکہ ایک خبر یہ بھی آئی کہ وائٹ ہاؤس کے بالکل سامنے، نماز جماعت بپا ہوئی اور مظاہرین رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای کی تصویر اور فلسطینی پرچم اٹھا کر مظاہرے میں شریک ہوئے۔

کعبہ کی دیوار مسکرائی تو سیدہ فاطمہ بنت اسد (سلام اللہ علیہا) داخل ہوئیں، دیوار بند ہوئی، امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی اور دیوار پھر شگافتہ ہوئی سیدہ کے باہر آنے کے بعد، دیوار پہلی کی سی حالت میں بند ہوئی، اسی بنا پر آپ کو مولود کعبہ کہا گیا؛ اور اگرچہ شاعر نے کہا:

همتای علی نخواهد آمد هرگز

صد بار اگر کعبه ترک بردارد

علی کا ہم پلہ نہیں آئے گا کبھی بھی

سو بار بھی اگر دیوار کعبہ شگافتہ ہو جائے

یہ ایک حکیمانہ کلام بھی ہے، لیکن، واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ آپریشن "وعدہ صادق" کی خصوصیات جنگ احزاب کی خصوصیات ہیں اور گویا کہ یہ آپریشن بھی اس دن کی امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ضربت ہم آہنگ ہؤا ہے؛ کیونکہ وعدہ صادق آپریشن کی ضرب صرف صہیونی ریاست کے ماتھے پر ہی نہیں لگی ہے۔ اس آپریشن میں صہیونی ریاست کو عمرو بر عبد ود کا کردار سونپا گیا تھا! وعدہ صادق کی ضرب ایک فیصلہ کن ضرب تھی جو امریکہ، یورپ، نیٹو اور اسرائیل کے تمام دوسرے علاقائی اور غیر علاقائی حامیوں پر لگی ہے۔۔۔ جس نے بالکل غزوہ خندق سے نمونہ حاصل کیا اور تمام احزاب تتھر بتھر ہو گئیں۔

اور آخر میں، یہ نکتہ بھی دلچسپ ہے جو مصر کے نامی گرامی صحافی محمد حسنین ہیکل (مرحوم) نے بیان کیا ہے۔ انھوں نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تہران میں امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) سے ملاقات کرنے کے بعد لکھا: "مجھے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ایک صحابی کا دیدار نصیب ہؤا جو زمانے کے 1400 سالہ سرنگ سے عبور کرکے عصر حاضر میں آیا ہے، تاکہ علی (علیہ السلام) کے ان سپاہیوں کو اکٹھا کر لے جو آپ کی شہادت کے بعد منتشر ہو گئے تھے، اور اسلام کو ـ جسے بھلا دیا گیا ہے ـ ایک بار پھر عدل علی(ع) کی حکومت کی کرسی پر بٹھا دے۔ میں ان کے چہرے میں اس صلاحیت کو عیاں دیکھ رہا ہوں"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حسین_شریعتمداری؛ چیف ایڈیٹر  روزنامہ کیہان

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110