اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
منگل

7 مئی 2024

3:30:14 PM
1456826

رفح ایک اسرائیلی مکر اور ایک دھوکہ ہے۔ صہیونی کالم نویس

صہیونی اخبار کے کالم نویس نے لکھا: رفح پر مجوزہ حملہ ایک "اسرائیلی" مکر اور "اسرائیلی" دھوکہ ہے۔

نیتن یاہو نے رفح کے بارے میں بہت کچھ کہا، لیکن عملی طور پر کچھ کرنے سے اجتناب کیا۔ نیتن یاہو اچھی طرح جانتا ہے کہ اسے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے حصول کے لئے کیا کرنا چاہئے! اس نے گذشتہ دو ہفتوں کے دوران رفح آپریشن کے بارے میں بولتا رہا، اب اس کے حامی کہتے ہیں کہ کابینہ کے بعض اراکین اس کاروائی کے التواء کا سبب بنے ہوئے ہیں۔

اگر السنوار کا جواب منفی ہو تو رفح سے آبادی کی منتقلی کا عمل چند دن میں شروع ہو جائے گا اور اس کے بعد رفح میں داخلے کا راستہ روکنا، مشکل ہو جائے گا۔ “اسرائیل” کا اندازہ ہے کہ السنوار کا جواب مثبت ہو سکتا ہے اور وہ ایک بار پھر جنگ دوبارہ شروع نہ کرنے کے “اسرائیل” عہد، اور اس سلسلے میں بین الاقوامی ضمانتوں کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔

رفح ایک بہانہ ہے، ایک تزویراتی ہدف نہیں ہے

بہر صورت رفح ایک بہانہ ہے اور ایک تزویراتی ہدف نہیں ہے۔ امریکی صدر جو غلطی سے اس کو “حیفا” کہتا ہے، ایک بار پھر بھی اس کا نام بھول جائے۔ لیکن مصر کی تجویز “اسرائیل” کے لئے بہت بھاری ہے۔ ابتدائی مرحلے میں غزہ میں قید “اسرائیلی” فوجی عورتوں کی رہائی کے بدلے 100 فلسطینی اسیروں کو رہا کرنا پڑے گا، اور دوسرے مرحلے میں “اسرائیلی” قیدیوں کی رہائی کے بدلے سینکڑوں فلسطینی اسیروں کو رہا کرنا پڑے گا۔

آج کی صورت حال یہ ہے کہ اگر سات اکتوبر کے واقعے میں نیتن یاہو کی ذمہ داری کے بارے میں بات چیت ہو سکتی ہے، تو یقینا اس کے بعد کے واقعات کی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی نیتن یاہو کے کندھوں سے اٹھانا ممکن نہیں ہے۔

جو تزویرانی فیصلے جو اس عرصے میں سامنے آئے ہیں کچھ یوں ہیں:

1۔ “اسرائیلی” وزیر دفاع یوآف گالانت کی تجویز کے برعکس، “جنوب میں حملے اور شمال میں دفاع” کا فیصلہ موجود تھا، لیکن نیتن یاہو نے کبھی بھی وضاحت نہیں کی کہ وہ کرنا کیا چاہتا ہے!

2۔ اگلی تجویز زمینی مشق تھی۔ نیتن یاہو نے اس کی مخالفت کی لیکن اس نے اپنی رائے پر اصرار نہیں کیا۔

3۔ نیتن یاہو نے قیدیوں کے تبادے کے پہلے سمجھوتے کے وقت بھی اس فیصلے کو کئی بار ملتوی کردیا لیکن (صہیونی کابینہ کے بغیر قلمدان کے وزیر) آئزنکوٹ نے استعفے کی دھمکی دی تو نیتن یاہو گھبرا گیا اور آخرکار اس سمجھوتے پر راضی ہؤا۔

– غزہ کو انسانی بنیادوں پر امداد کی ترسیل کا کام اس وقت شروع ہؤا جب “اسرائیل” کو بھاری قیمت چکانا پڑی تھی اور اب تک بھی چکانا پڑ رہی ہے۔ یہ اجازت نامہ امریکی ڈکٹیشن کا نتیجہ تھا اور کئی مہینے تاخیر کے بعد ترسیل کا کام شروع ہؤا۔

بحث جنگ کے خاتمے پر، شاہینوں اور کبوتروں اور دائیں بازو اور بائیں بازو کے درمیان، یا فتح کے متوالوں اور غزہ میں قید اسرائیلیوں کے عاشقوں کے درمیان نہیں ہے؛ نیتن یاہو کے مخالف [اندرونی] محاذ میں ایسے لوگ موجود ہیں جو قیدیوں کے واپس لوٹانے کے لئے بھاری قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ سات اکتوبر کا واقعہ ایک برا خواب تھا اور اب صبح ہو چکی ہے اور چھ اکتوبر کچھ اس طرح سے جاری رہ سکتا ہے کہ گویا کچھ ہؤا ہی نہیں ہے!

لیکن بائیڈن کی حکومت انتظار کرتے کرتے تھک چکی ہے۔ بائیڈن کے پاس مزید وقت نہیں ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات میں صرف چھ مہینے رہتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ نے اس ہفتے ریاض کا دورہ کیا جس کا بنیادی مقصد سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان ایک اتحاد قائم کرنا تھا۔ طے یہ تھا کہ تیسرا شریک “اسرائیل” ہو، لیکن نتیجہ یہ ہے کہ یہ کام نیتن یاہو کے ساتھ آگے نہیں بڑھے گا، شاید “اسرائیل” کے بغیر۔

ایک امریکی، جس نے اس ہفتے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا، نے مجھ سے کہا: “دنیا پاگل پن کا شکار ہوئی ہے، سعودی عرب میں حکمران مذہبی انتہاپسندوں کو قیدخانوں میں بند کر رہا ہے اور “اسرائیل” میں اجازت دی جاتی ہے کہ انتہا پسند ہی حکومت کا انتظام چلائیں”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110