اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
منگل

7 مئی 2024

3:23:06 PM
1456824

رفح پر حملہ صہیونیوں کا مکر ہے. ناحوم برنیاع

یدیعوت آحارونوت کے کالم نویس ناحوم برنیاع نے لکھا: مجھے رفح پر ممکنہ حملے کے بارے میں مزید وضاحت کی اجازت دیجئے: اس ہفتے "اسرائیلی" فوج نے فیصلہ کیا اس علاقے کو تیار کر دے جہاں 10 لاکھ بے گھر افراد کو بسایا جائے گا، یہ معلوم نہیں ہے کہ بے گھر افراد کی منتقلی کا کام ایک ہفتے میں مکمل ہوتا ہے یا ایک مہینے میں۔

اہل بیت(ع) ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، صہیونی اخبار کے کالم نویس نے لکھا: اخبارات کی شہ سرخیوں نے موجود بحث و جدل کو تین الفاظ میں سمیٹ لیا ہے: [“اسرائیلی”] مغویان یا رفح؟ اور تھامس فریڈین نے نیویارک ٹائمز میں اپنے کالم کو یہ عنوان دیا: “ریاض یا رفح”۔ (گویا اس کا اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ صہیونی ریاست سعودیوں کو بلیک میل کررہی ہے اور رفح پر حملے کی افواہ اڑا کر ریاض کو مجبور کرنا چاہتی ہے کہ وہ غاصب ریاست کو تسلیم کرے!]

یدیعوت آحارونوت کے کالم نویس ناحوم برنیاع نے لکھا: مجھے رفح پر ممکنہ حملے کے بارے میں مزید وضاحت کی اجازت دیجئے:

اس ہفتے “اسرائیلی” فوج نے فیصلہ کیا اس علاقے کو تیار کر دے جہاں 10 لاکھ بے گھر افراد کو بسایا جائے گا، یہ معلوم نہیں ہے کہ بے گھر افراد کی منتقلی کا کام ایک ہفتے میں مکمل ہوتا ہے یا ایک مہینے میں۔

اسی اثناء میں “اسرائیلی” فوج کے دو ڈویژن رفح میں داخلے کے منتظر ہیں۔ نیتن یاہو یہ بات دلوں میں بٹھانے میں کامیاب ہؤا ہے کہ “مطلق فتح” رفح پر حملے سے حاصل ہوگی، حماس کی باقیماندہ چار یونٹیں تباہ ہونگی، السنوار کو گرفتار یا قتل کیا جائے گا، اور اگرچہ تمام “اسرائیلی” قیدیوں کی رہائی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن درجنوں قیدی ضرور رہا کروائے جائيں گے!!!

لیکن کہنا پڑتا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ چار یونٹیں تباہ ہو جائیں، لیکن ضروری نہیں ہے کہ السنوار کو بھی قتل کیا جاسکے؟ ادھر “اسرائیلی” قیدی بھی کئی گروہوں اور تنظیموں کے پاس ہیں اور مختلف مقامات پر رکھے جا رہے ہیں۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ رفح پر “اسرائیلی” حملے سے باقیماندہ “اسرائیلی” قیدی بھی ہلاک ہو جائیں۔

واضح رہے کہ “اسرائیلی” فوج پوری طاقت سے، فضائی اور زمینی حملوں کے ساتھ شمالی غزہ اور مرکزی کیمپوں اور خان یونس میں داخل ہوئی۔ جبکہ اس روش کو رفح میں دہرایا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ اسرائیل کو مزید عالمی رائے عامہ کی حمایت حاصل نہیں ہے:

“ہیگ کی بین الاقوامی فوجداری عدالت کے اٹارنی جنرل کی میز پر “اسرائیلی” حکام کی گرفتاری کے متعدد احکامات موجود ہیں؛

دوسری حکومتیں اور دوسری کمپنیاں اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم کرنے پر غور کر رہی ہیں۔ اور سب سے اہم یہ کہ غزہ میں قید “اسرائیلی” قیدیوں کے اہل خانہ اپنے عزیزوں کی جان خطرے میں ڈالنے کا ذرہ برابر شوق بھی نہیں ہے۔

اس وقت ریاست کو قیدیوں کے اہل خانہ کے شدید احتجاجات کا سامنا ہے اور اس کے بعد فوج میں موجود اہلکاروں کے اہل خانہ کی باری بھی آ رہی ہے، جو کہہ رہے ہیں کہ “ہمارے بچوں کیوں قتل کروایا جا رہا ہے”۔

حکومتی ڈھانچے کے اندر کا ایک شخص مجھ سے کہہ رہا تھا کہ رفح پر ممکنہ حملہ ایک نمائشی اقدام ہوگا، جس سے دائیں بازو کے انتہاپسند صحافیوں اور اینکروں کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ “ہم نے قبضہ کیا، ہم ـ کوئی چیز بھی ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئے بغیر! ـ کامیاب ہو گئے، ہم نے جنگ کے مقاصد کو حاصل کر لیا”۔

اور ٹیلی ویژن کا رپورٹر ایک ویرانے کے ڈھیر پر کھڑا ہوگا اور فخر کے ساتھ اعلان کرے گا کہ “یہ السنوار کی دوسری جوتی ہے جو ہمیں ملی ہے”۔ جبکہ اس سے پہلے آئی-12 چینل کی نامہ نگار ادوا دادون (adva dadon) نے خان یونس میں السنوار کے گھر پر “اسرائیلی” بم گرنے کا دعوی کرکے ایک ویرانے سے ایک جوتی اٹھا کر دعوی کیا تھا کہ “یہ جوتی ممکنہ طور پر یحیی السنوار کی ہے!”؛ [تو کیا نیتن یاہو کو ان کی دوسری جوتی کی تلاش ہے، جبکہ اس کی کابینہ ان کے جواب کا انتظار کر رہی ہے؟]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110