اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

7 مئی 2024

12:26:57 PM
1456795

امسال حَجّ، حَجِّ برائت ہے / غزہ کے واقعات تاریخ میں امر ہونگے / ہم فلسطین کی پشت پناہی کے لئے کسی کے منتظر نہیں رہتے۔ امام خامنہ ای کا حج کے کارگزاروں سے خطاب

رہبر معظم امام خامنہ ای (مُدَّ ظِلُّہُ العالی) نے ادارہ حج کے کارگزاروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: جو کچھ آج غزہ میں ہو رہا ہے، یہ ایک عظیم معیار ہے، جو تاریخ میں امر ہوگا اور راستہ دکھائے گا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، انقلاب اسلامی کے رہبر معظّم نے کل [6 اپریل 2024ع‍ کی] صبح، ادارہ حج کے کارگزاروں اور عازمین حج سے خطاب کرتے ہوئے، ذکر اللہ اور "اتحاد مسلمین" کو فریضہ حج کے دو اہم روحانی اور معاشرتی عناصر قرار دیا اور غزہ کے عظیم واقعے اور خونخوار صہیونی ریاست کے جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس سال کا حج ـ قرآن کریم کی آیات کی رو سے، اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یاد اور نام کی روشنی میں، گذشتہ برسوں سے کہیں بڑھ کر، مسلمانوں کے اس جرائم پیشہ دشمن اور اس کے حامیوں سے برائت و بیزاری کا حج ہونا چاہئے

انقلاب اسلامی کے رہبر معظّم نے کل [6 اپریل 2024ع‍ کی] صبح، ادارہ حج کے کارگزاروں اور عازمین حج سے خطاب کرتے ہوئے، ذکر اللہ اور "اتحاد مسلمین" کو فریضہ حج کے دو اہم روحانی اور معاشرتی عناصر قرار دیا اور غزہ کے عظیم واقعے اور خونخوار صہیونی ریاست کے جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس سال کا حج ـ قرآن کریم کی آیات کی رو سے، اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یاد اور نام کی روشنی میں، گذشتہ برسوں سے کہیں بڑھ کر، مسلمانوں کے اس جرائم پیشہ دشمن اور اس کے حامیوں سے برائت و بیزاری کا حج ہونا چاہئے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (مُدَّ ظِلُّہُ العالی) نے فرمایا:

حج روحانی اور مادی لحاظ سے کثیر جہتی فریضہ ہے؛ اندرونی اور باطنی جہت میں، اللہ کا ذکر اور اس کی یاد "حقیقی زندگی، عزم اور ارادے اور فردی، سماجی اور قومی فیصلہ سازی کا سرچشمہ" ہونے کے ناطے، حج کے تمام مراحل اور مواقف کا نمایاں نکتہ ہے۔

آپ حجاج کرام ان اہم امور پر توجہ مرکوز رکھیں جو حجاز میں ہیں اور کہیں اور نہیں ہیں، جیسے کعبہ، مسجد الحرام، طواف اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی زیارت؛ بازار، مارکیٹیں اور مختلف قسم کا ساز و سامان تو ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اپنا وقت مارکیٹوں میں صرف نہ کریں۔  

حج کے سماجی پہلو کا ایک نمایاں نکتہ مسلمانوں کے ساتھ اتحاد اور حجاج کا باہمی رابطہ ہے۔ ایک خاص موقع پر، ایک خاص مقام پر مسلمانوں کو اکٹھا ہونے کی الٰہی دعوت کا فلسفہ یہ ہے کہ مسلمانوں ایک دوسرے کو پہچان لیں، ایک دوسرے کے ساتھ مل اہم مسائل کے حوالے سے مشترکہ فیصلہ سازی کریں، تا کہ حج کے پر برکت اور عینی ثمرات پورے عالم اسلام اور بنی نوع انسان کے نصیب ہوں، جبکہ آج عالم اسلام میں مشترکہ فیصلہ سازی کا بہت بڑا خلا ہے۔

قومیتی، مذہبی اور قومی و نسلی اختلافات کو نظرانداز کو نظر انداز کرنا وحدت مسلمین کی تمہید ہے، اور تمام مذاہب اور تمام قومیتوں کے اسلامی مکاتب کے پیروکاروں کا بڑا یکسان، متحد اور ہم شکل اجتماع حج کے سیاسی ـ معاشرتی پہلو کا نمایاں مظہر ہے۔ گوکہ اختلافات اور تفرقہ انگیز مسائل کو بالائے طاق رکھنے کی ضرورت حج کے لئے مختص نہیں ہے اور قرآن کی متعدد آیات کریمہ میں مسلمانوں کے اتحاد اور یکجہتی پر زور دیا گیا ہے جن پر عمل درآمد ہمیشہ، لازمی ہے۔

حج کا فریضہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مبارک نام اور اس عظیم پیغمبر کے نام گرامی اور تعلیمات سے مشحون و مالامال ہونا چاہئے؛ اللہ کے دین کے دشمنوں سے برائت و بیزاری حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کی انتہائی قیمتی تعلیمات میں سے ایک ہے۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے ایام کے آغاز سے ہی، مشرکین سے برائت حج کا جاری رکن رہا ہے لیکن غزہ کے عظیم اور عجیب واقعے کی رو سے، ـ جس نے مغربی تہذیب سے اٹھنے والے خونخوار مجموعے کا چہرہ پہلے سے زیادہ بے نقاب اور آشکار کر رکھا ہےـ اس سال کا حج خاص طور پر "حجِّ برائت ہے۔

غزہ کے موجودہ واقعات تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہنے والے معیار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک طرف سے صہیونی پاگل کتے کی وحشیانہ یلغار اور دوسری طرف سے غزہ کے عوام کی مظلومیت اور مزاحمت و استقامت، تاریخ میں ہمیشہ کے لئے زندہ رہے گی اور بنی نوع انسان کو راستہ دکھاتی رہے گی؛ جیسا کہ آج غیر مسلم معاشروں اور آج امریکہ اور دوسرے ممالک کی جامعات میں اس کی بے مثل عکاسی، اسی تاریخ سازی اور معیار سازی کی نشانیاں ہیں۔

امت مسلمہ کی ذمہ داری

اب دیکھنا ہے کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے سیکھتے ہیں [کہ ہمارا فریضہ کیا ہے] آپ دیکھ لیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نرم دل اور مہربان نبیوں میں سے ہیں۔۔۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بہت مہربان تھے۔ مثال کے طور پر جب فرشتے لوط (علیہ السلام) کے وطن پر عذاب اتارنے کے لئے جانا چاہتے تھے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے ساتھ بحث کی کہ اگر ممکن ہو تو ان پر رحم کرو: "یُجادِلُنا فی‌ قَومِ لوط؛ [وہ قوم لوط(ع) کے بارے میں ہم سے جدل یا جھگڑا کرنے لگے (سورہ ہود، آیت 74)]، یعنی یہ کہ وہ اللہ کے ملائکہ کے پاس ثالثی اور شفاعت کرنا چاہتے تھے کہ اگر ممکن ہے تو ان پر رحم کرو؛ یعنی ابراہیم (علیہ السلام) ایسی ہستی ہیں۔ بعض ابراہیم (علیہ السلام) کے حالات مختلف ہیں، اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں ـ یا سورہ ابراہیم [کی آیت 36] میں ارشاد ہوتا ہے: "فَمَن تَبِعَنی‌ فَاِنَّهُ مِنّی وَ مَن عَصانی‌ فَاِنَّکَ غَفورٌ رَحیم" یعنی جو میری پیروی کریں، تو بہت خوب، پیروی کرتے ہیں، [لیکن] یہ نہیں کہتے کہ "اے پروردگار، جو لوگ میری بات نہيں سنتے ان کی اصلاح فرما یا ان کو ہدایت عطا فرما یا ان پر عذاب اتار دے بلکہ اللہ سے التجا کرتے ہیں کہ "فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ؛ (تو، یقینا تو بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے)؛ یعنی ان سے درگذر فرما اور انہیں بخش دے۔ تو ابراہیم (علیہ السلام) اتنے رؤوف و رحیم دل کے مالک ہیں۔ ان مسلمانوں کے سلسلے میں، جو اسلام کے خلاف جنگ نہیں کرتے، سورہ ممتحنہ میں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں ارشادات کے بعد یہ آیات کریمہ آتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تعلق بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ہے: 

"لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَ لَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَ تُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (سورہ ممتحنہ آیت 8)؛ یعنی جو وہ تمہارے ہم مسلک نہیں بھی ہیں، لیکن [دین کی بنیاد پر] تم سے جنگ نہیں کرتے [اور تمہیں اپنے وطن سے نکال باہر نہیں کرتے] تو ان کے ساتھ عدل و انصاف کے مطابق سلوک روا رکھو، منصفانہ برتاؤ روا رکھو، ان کے ساتھ نیکی کرو، یعنی ہر وہ غیر مسلم جو آپ سے لڑتا بھڑتا نہیں ہے، آپ کے کام سے کام نہیں رکھتا، آپ کو اذیت نہیں پہنچاتا،

یعنی ابراہیم (علیہ السلام) ایک ایسی شخصیت ہیں، نافرمانوں کے ساتھ اور غیر مسلموں کے ساتھ [ان کا رویہ یہ ہے]۔ لیکن آپ دیکھ لیں یہی ابراہیم (علیہ السلام) ایک دوسری جماعت کے ساتھ بالکل مختلف رویہ اختیار کرتے ہیں؛ [سورہ ممتحنہ کی چوتھی آیت میں ارشاد ہوتا ہے]: "قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيٓ إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَآءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُۥٓ؛ (تم لوگوں کے لئے بہت اچھا نمونۂ عمل ہے ابراہیم اور ان کے ساتھ والوں میں جب انہوں نے اپنی قوم والوں سے کہا کہ یقینا ہم تم سے بیزار ہیں اور اس سے جس کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو، ہم تمہارا انکار کرنے والے ہیں اور ہماری اور تمہاری دشمنی اور منافرت ہمیشہ کے لئے نمایاں ہو گئی ہے جب تک کہ تم ایمان لاؤ ایک اللہ پر)"؛ دیکھ لیں، ایک دشمن اور جنگ پسند دشمن کے ساتھ یہ برتاؤ کرتے ہیں؛ وہی رحیم و رؤوف اور ودود ابراہیم(ع) جو قوم لوط(ع) کی شفات کرتے ہیں، نافرمانوں کے لئے مغفرت طلب کرتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جو کفار مسلمانوں کے ساتھ جنگ جھگڑا نہیں رکھتے، ان کے ساتھ نیکی کرنا چاہئے، یہی ابراہیم(ع) ایک موقع پر اس قدر استحکام کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں اور برائت کا اظہار کرتے ہیں؛ [اور فرماتے ہیں:] "إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ؛ ہم تم سے برائت و بیزاری کا اعلان کرتے ہیں اور "وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَآءُ؛ ہمارے اور تمہارے درمیان آشکار دشمنی ہے، ہم تمہارے دشمن ہیں، اور تم سے دشمنی کرتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں؟ وہی لوگ ہیں جو لڑنے پر اتر آتے ہیں۔ اسی سورہ ممتحنہ کی آیت، جو میں نے اس سے پہلے پڑھ لی، کے تسلسل میں [سورت کی نویں آیت] ـ جو پھر بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ذہنی فضا سے تعلق رکھتی ہے ـ میں ارشاد ربانی ہے: "إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَىٰٓ إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ؛ یعنی تمہیں یہ حق ہرگز حاصل نہیں ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ ـ جو تمہیں قتل کرتے ہیں، تمہارے ساتھ جنگ کرتے ہیں، اور تمہیں اپنے گھر اور وطن سے نکال باہر کرتے ہیں یا ان لوگوں کی مدد و معاونت کرتے ہیں، ـ رابطہ اور ان کی طرف دوستی کا ہاتھ پھیلاؤ، یہ حق تمہیں حاصل نہیں ہے! یعنی یہ کہ تمہارے درمیان دشمنی برقرار ہونا چاہئے، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا: "وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَآءُ"۔

اچھا، تو آج کی دنیا میں وہ کون ہے جو مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کرتا ہے، نزاع کرتا ہے، انہیں قتل کرتا ہے، ـ ان کی خواتین کو، ان کے مردوں کو، ان کے بچوں کو ـ اور کون ہے جو انہیں اپنے گھروں سے نکال باہر کرتا ہے؟ وہ دشمن کون ہے؟ کیا قرآن کریم میں صہیونی دشمن کی اس سے بھی بڑھ کر توصیف چاہئے [آپ کو]؟ صرف صہیونی ہی نہیں ہیں: بلکہ "وَظَاهَرُوا عَلَىٰٓ إِخْرَاجِكُمْ؛ وہ لوگ جو تمہارے دشمن کی مدد کرتے ہیں [تاکہ وہ تمہیں تمہارے شہر و دیار سے نکال باہر کریں]؛ تو کون ہے جو ان کی مدد کر رہا ہے؟  اگر امریکہ کی مدد نہ ہوتی، تو کیا صہیونی ریاست میں یہ طاقت اور جرات تھی کہ اس انداز سے مسلمان لوگوں، خواتین اور بچوں، کے ساتھ اس محدود علاقے میں، اس طرح کا وحشیانہ برتاؤ روا رکھے؟ ان دشمنوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا ممکن نہیں۔ ان کے ساتھ نرم رویہ نہیں اپنایا جا سکتا؛ خواہ وہ جو بلاواسطہ طور پر قتل کر رہا ہے، خواہ وہ جو قتل میں معاونت کر رہا ہے اور اس قتل [عام] کی پشت پناہی کر رہا ہےو خواہ وہ جو گھر کو ویران کرتا ہے، خواہ وہ جو گھر کے ویران کنندہ کی پشت پناہی کرتا ہے؛ [اور اللہ کا ارشاد ہے کہ:] "وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ؛ اور جو ان کے ساتھ تعاون کرے گا تویہ لوگ خود ظالم ہیں"۔ (سورہ ممتحنہ، آیت 9)۔ یعنی جس نے ان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ ملایا تو وہ ستمگر ہے، ظالم ہے؛ "أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ؛ آگاہ ہو کہ اللہ کی لعنت ہے تمام ظالموں پر"۔ قرآن کی نصّ اور آیات قرآن، یہ ہیں۔ یعنی یہ کہ اس سال کی برائت سابقہ برسوں سے نمایان تر ہے۔ اس سال کا حج، حجِّ برائت ہے۔

مؤمن حاجیوں کو چاہئے ـ چاہے وہ ایرانی ہوں یا غیر ایرانی ہو، اور جہاں سے بھی ہوں ـ کہ اس قرآنی مطق کو پوری دنیائے اسلام تک منتقل کریں۔ آج فلسطین کو اس کی ضرورت ہے؛ فلسطین کو عالم اسلام کی پشت پناہی کی ضرورت ہے۔

[البتہ] اسلامی جمہوریہ اس یا اس کا منتظر نہیں رہا، اور نہیں رہتا، لیکن اگر مسلم اقوام اور مسلم حکومتوں کے قوی ہاتھ یکجا ہو جائیں اور ساتھ دیں تو اس کے اثرات میں بہت اضافہ ہوتا ہے؛ اور فلسطینی عوام کی یہ افسوسناک حالت اس انداز سے، جاری نہیں رہے گی؛ یہ فریضہ اور ذمہ داری ہے۔ [حاضرین کی طرف سے آمادگی کے اعلان پر:] جی ہاں! آپ تو آمادہ ہیں، لیکن اللہ کرے کہ دنیائے اسلام آمادہ ہو جائے۔ ان شاء اللہ۔۔۔۔۔ 

اللہ تعالی سے اپنے امام بزرگوار [رضوان اللہ علیہ]، اپنے شہداء اور اپنے مرحومین کے لئے فضل و رحمت اور بخشش و مغفرت کی التجا کرتے ہیں۔

والسّلام علیکم و رحمۃ ‌الله و‌ برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110