اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

7 مئی 2024

7:08:32 AM
1456733

"آج غزہ کا مسئلہ، دنیا کا پہلا مسئلہ ہے۔۔۔ دیکھ لیجئے ان امریکی یونیورسٹیوں کو؛ آج پھر میں خبروں میں پڑھ رہا تھا کہ کئی مزید یونیورسٹیاں بھی ان سے جا ملی ہیں، آسٹریلیا میں، مختلف یورپی ممالک میں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اقوام عالم مسئلۂ غزہ پر حساس ہیں۔۔۔"۔ یہ امام خامنہ ای (مُدَّ ظِلُّہُ العَالی) کے تازہ ترین الفاظ ہیں، جو آپ نے یکم مئی (2024ع‍) کو طلبہ اور اساتذہ سے خطاب کرکے ادا کئے۔ اب سوال یہ ہے امریکی طلبہ کی یہ تحریک ہے کیا؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا |

اس رپورٹ کا بغور مطالعہ کیجئے:

- ماجرا بدھ 17 اپریل سے شروع ہؤا، جب نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے دسوں طلبہ نے اس یونیورسٹی کے احاطے میں خیمے لگائے اور اپنے دھرنے کا آغاز کیا۔ ان کا ابتدائی مطالبہ یہ تا کہ یونیورسٹی اسلحہ تیار کرنے والی ان کمپنیوں سے رابطہ منقطع کرے جو عزہ میں ہونے والی نسل کشی میں غاصب صہیونی ریاست کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ امریکی طلبہ نے اکتوبر کے مہینے سے غزہ کی نسل کشی پر اپنا احتجاج مختلف طریقوں سے ریکارڈ کرایا تھا، لیکن ان خیموں اور اس دھرنے سے یہ احتجاج نئے مرحلے میں داخل ہؤا۔

- عالمی سطح پر آزادی اظہار کی دعویدار حکومت کا ابتدائی رد عمل یہ تھا کہ کولمبیا یونیورسٹی کے سربراہ کو کانگریس بلایا گیا تاکہ وہ موجودہ صورت حال کے حوالے سے جوابدہ ہو! یونیورسٹی کے سربراہ نے وعدہ کیا کہ "میں اس بات کی اجازت نہیں دوں گا کہ میرے زیر قیادت یونیورسٹی "سامیت دشمنی" کے اظہار کا گڑھ بنے"۔ سامیت دشمنی (Anti-Semitism) کا الزام منحوس ریاس کے قیام سے لے کر اب تک اس ریاست کے تحفظ کے لئے ایک اوزار کا کردار ادا کرتا رہا ہے، یہ مغرب میں جرم کی حیثیت رکھتا ہے چنانچہ یہودی بھی اور یہودیوں کے مغربی اور امریکی حامی بھی اس عنوان سے استفادہ کرکے صہیونیوں کے مظالم پر احتجاج کرنے والوں کو سامیت دشمنی کا الزام لگا کر خاموش رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ آج بھی وہ 34000 فلسطینیوں کے قتل عام پر تنقید کرنے والوں پر سامیت دشمنی کا الزام لگا کر ان کی آوازوں کا گلا گھونٹنا چاہتے ہیں۔

- یونیورسٹیوں میں فلسطین کی حمایت کے لئے اٹھنے والی صدائیں خاموش کرنے کی غرض سے، ان کے سربراہوں پر کئی مہینوں سے مسلسل دباؤ ڈالا جاتا رہا تھا۔ دسمبر 2023ع‍ میں امریکی کانگریس نے تین اہم امریکی یونیورسٹیوں کے سربراہوں کو بلایا اور ان کی بازخواست کی۔ یہ ایک متنازعہ سماعت تھی جس کے بعد ان تین میں سے ہارورڈ یونیورسٹی اور پنسلوانیا یونیورسٹی کے سربراہوں کو استعفی دینا پڑا۔

- کولمبیا یونیورسٹی کے سربراہ نے کانگریس میں حاضر ہونے کے بعد ایک خط جاری کرکے دعوی کیا کہ احتجاج کرنے والے طلبہ یونیورسٹی کے امن اور جاری امر میں خلل ڈال رہے ہیں، چنانچہ پولیس کو ان سے نمٹنا چاہئے! جس کے ایک بعد پولیس یونیورسٹی کے احاطے میں داخل ہوئی اور طلبہ کے لگائے ہوئے خیموں کو اکھاڑ کر انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی۔ پولیس نے 100 سے زائد طلبہ کو گرفتار کیا لیکن دھرنا ختم کرنے میں ناکام رہی۔ کلاسوں کی چھٹی ہوئی اور اساتذہ سے کہا گیا کہ فاصلاتی تدریس کی روش اپنائیں۔ عجب یہ کہ یونیورسٹی کے "مصری نژاد سربراہ" نے موقف اپنایا کہ "کولمبیا یونیورسٹی کبھی بھی اسرائیل سے جدا نہیں ہوگی"۔

- ایک ہفتہ بعد امریکی ایوان نمائندگان کے سربراہ مائیک جانسن نے کولمبیا یونیورسٹی پہنج کر ایک کشیدگی سے بھرپور اجتماع میں کہا: "اگر یونیورسٹی کا سربراہ "افراتفری کا خاتمہ" کرکے حالات کو ٹھیک نہیں کر سکتا تو اسے استعفی دینا چاہئے"۔ چنانچہ حالات مزید کشیدہ ہوگئے۔ جانسن نے یہ بھی کہا تھا کہ "اگر اس صورت حال کو فوری طور پر قابو میں نہ لایا جائے تو نیشنل گارڈ کی مداخلت کے لئے مناسب موقع پایا جاتا ہے"۔

- امریکہ میں نیشنل گارڈ کا سایہ فعال کرنے کی بات آتی ہے تو بہت سے امریکیوں کو 1970ع‍ کے تلخ واقعات ستاتے ہیں، جب اوہایو نیشنل گارڈ نے ریاستی یونیورسٹی "کینٹ" میں ویتنام کی جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ پر گولی چلائی جس کے نتیجے میں 4 طلبہ قتل اور 9 زخمی ہوئے تھے۔

- اس سے دو سال قبل سنہ 1968ع‍ میں کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ نے ویتنامی آبادیوں پر کارپٹ بمباری اور ویتنامی عوام پر آگ والے نیپام بموں (napalm bombs) کے استعمال پر احتجاج کرتے ہوئے یونیورسٹی کی کئی عمارتوں پر قبضہ کر لیا تھا اور ان کے اس اقدام سے متاثر ہو کر دوسری امریکی یونیورسٹیاں بھی اس احتجاجی تحریک میں شامل ہوئی تھیں۔ اس بار کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اپنا احتجاجی کیمپ ختم کریں یا پھر اس کے نتائج بھگت لیں۔

- طلبہ اجتجاج سے باز آنے کے لئے تیار نہیں ہیں> جبکہ اس ہفتے سے طلبہ کی معطلی کا سلسلہ بھی شروع ہؤا ہے۔ دو چیزیں طلبہ پر حملے کی امریکی حکومت کی دستاویز ہیں: 1۔ عمومی نظم و ضبط کو درہم برہم کرنا؛ 2۔ سامیت دشمنی (Anti-Semitism)!۔ یہ دو تہمتیں وہی ہیں جن کے لئے انہوں نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے اور طلبہ کے اقدامات سے بھی یہ الزامات ثابت نہیں ہیں؛ کیونکہ دھرنا دینے والے طلبہ کی صفوں میں یہودی طلبہ بھی موجود ہیں جس سے بخوبی ثابت ہے کہ یہودیت دشمنی کا الزام کتنا بے بنیاد ہے؛ اور پھر سینٹر برنی سینڈرز کے بقول "34000 فلسطینیوں کے قتل عام پر احتجاج کرنا، صہیونیت دشمنی نہیں ہے"، اور پھر طلبہ نے خیمے لگائے ہیں، دھرنا دے رہے ہیں، نہ لڑ رہے ہیں، نہ تخریبکاری کر رہے ہیں نہ ہی یونیورسٹی کے اموال و املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور نہ ہی معاشرے کی معمول کی زدگی میں خلل ڈال رہے ہیں۔

 - تشدد آمیز رویہ، طلبہ اور اساتذہ کی گرفتاری، یہاں تک کہ انہیں یونیورسٹیوں سے نکال باہر کرنا اور تعلیم سے محروم کرنا، ان دنوں کا امریکی اداروں کا جاری رویہ ہے لیکن یہ اقدامات بھی نہ صرف طلبہ کا احتجاج روکنے میں ناکام رہے ہیں، بلکہ احتجاج کا دائرہ پھیل گیا ہے اور فلسطینیوں کی حمایت میں دھرنوں کے کیمپ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، ایمرسن کالج، یونیورسٹی آف ٹیکساس - آسٹن، مشی گن یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا - برکلے میں بھی قائم کئے گئے ہیں۔

- کولمیبا یونیورسٹی میں فلسطین کے حامی احتجاجی طلبہ نے کہا: جب تک کہ یہ یونیورسٹی صہیونی ریاست کے ساتھ اکیڈمک تعلقات ختم نہیں کرے گی، اور جب تک کہ اپنا پورا سرمایہ اسرائیل سے متعلق اداروں سے نکالنے کی پابند نہیں ہوگی، اور ہمارے تمام مطالبات منظور نہیں ہونگے، ہم منتشر نہیں ہونگے۔

- دوسری یونیورسٹیوں کے طلبہ نے ایسے ہی مطالبات پیش کئے ہیں۔ ان کے مطالبات کچھ یوں ہیں:

* اسلحہ تیار کرنے والی ان کمپنیوں کے ساتھ تجارت بند کی جائے جو اسرائیل کو اسلحہ دے رہی ہیں۔

* اسرائیلی ریاست کی طرف سے ان منصوبوں کے لئے فنڈز قبول نہ کئے جائیں جو اس ریاست کے فوجی عزائم کی تکمیل کرتے ہیں۔

* یہ مسئلہ بالکل شفاف کیا جائے کہ اسرائیلی ریاست سے کس قسم کے فنڈز وصول کئے جاتے ہیں اور ان سے کن امور میں فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

* ان کمپنیوں میں سرمایہ کاری سے اجتناب کیا جائے جو جنگ غزہ سے منافع کما رہی ہیں۔

- یہ معمولی اور درست مطالبات ایسے حال میں پیش کئے جا رہے ہیں کہ امریکہ غزہ کے عوام کے خلاف جنگ میں صہیونی ریاست کے ساتھ، برابر کا شریک ہے، مختلف قسم کے ہتھیار دے رہا ہے، اربوں ڈالر کی مالی امداد فراہم کر رہا ہے، بین الاقوامی فورموں میں صہیونیوں کی سفارتی مدد کر رہا ہے، صہیونیوں کو نسل کُشی کے قانونی اور سیاسی انجام سے بچانے کے لئے اقدامات کر رہا ہے اور سلامتی کونسل میں صہیونیوں کے خلاف آنے والی قراردادوں کو ویٹو کر رہا ہے!

- امریکہ کی 22 ریاستیں غزہ کی جنگ کے خلاف طلبہ کی احتجاجی تحریک کا گڑھ بنے ہوئے ہیں اور پولیس کے ہاتھوں کم و بیش 2500 طلبہ اور اساتذہ کی گرفتاری کے باوجود، امریکی انتظآمیہ احتجاجی اقدامات روکنے میں ناکام رہی ہے۔ سی این این کی ویب گاہ نے لکھا: "لگتا ہے کہ بہت سے طلبہ اپنے احتجاج کا انجام قبول کرنے کے لئے تیار ہیں"۔

- بہرحال امریکی پولیس اور سیکورٹی اداروں کا تشدد طلبہ تک محدود نہیں رہا ہے اور کئی پروفیسرز گرفتار اور حتی کہ معطل ئے گئے ہیں۔ اب کچھ پروفیسرز بھی طلبہ کے احتجاج میں شامل ہو گئے ہیں اور اداروں کے تشدد آمیز سلوک کے خلاف موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ اگرچہ وہ خود بھی اپنے اس موقف کے انجام سے محفوظ نہیں ہیں۔

- لگتا ہے کہ احتجاجی دھرنوں، جلسے جلوسوں اور مظاہروں کے منتظمین نے 1980ع‍ کے عشرے کے تجربے سے اثر لیا ہے؛ جب امریکی طلبہ نے ان کمپنیوں کو احتجاج کا نشانہ بنایا جو جنوبی افریقہ کی (نسلی امتیاز پر استوار) اپارتھائیڈ حکومت کے ساتھ لین دین کر رہی تھیں اور نتیجہ یہ ہؤا کہ 150 امریکی یونیورسٹیاں جنوبی افریقی اپاتھائیڈ کے ساتھ فاصلہ قائم کرنے اور تعلق ختم کرنے پر مجبور ہوئیں۔

- بے شک غزہ مغربی تہذیب و اخلاقیات کی قربان گاہ ہے، یہاں مغرب پوری طرح اخلاقی اور تہذیبی حوالے سے، فیل ہو گیا ہے اور طلبہ کے احتجاج کو اس منظر سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ مغرب کا بگڑا ہؤا بے نقاب چہرے کو از سرنو مقبول بنا رہے ہیں! یعنی غزہ کے خلاف جنگ کے خلاف امریکی طلبہ کی احتجاجی تحریک کسی حد تک مغرب کی اس تاریخی رسوائی کا ازآلہ کر رہی ہے۔ اس تحریک سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب کی نئی نسلیں اپنے سابقین کے ذہنی تصورات سے آزاد ہونے کی زیادہ استعداد اور زیادہ آمادگی رکھتی ہیں اور مغرب کی عظیم تشہیراتی مشینری اور ابلاغیاتی جادو سے متاثر نہیں ہو رہی ہیں۔

- یہ وہی چیز ہے کہ جس کے شواہد و آثار رہبر انقلاب حضرت امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے ایک عشرہ قبل دیکھ لئے تھے۔ آپ نے 2015ع‍ میں یورپ اور شمالی امریکہ کے نوجوانوں کے نام دو خطوط تحریر کئے اور لکھا: "میں آپ نوجوانوں سے مخاطب ہو رہا ہوں، اس لئے نہیں کہ آپ کے باپوں اور ماؤں کو نظرانداز کر رہا ہوں، بلکہ اس لئے کہ آپ کی قوموں اور سرزمینوں کو مستقبل میں ـ آپ کے ہاتھوں میں ـ دیکھ رہا ہوں، نیز حقیقت پسندی کے احساس کو آپ کے دلوں میں زیادہ بیدار اور زیادہ ہوشیار، دیکھ رہا ہوں۔ میں اس تحریر میں آپ کے سیاستدانوں اور حکمرانوں سے مخاطب نہیں ہو رہا ہوں؛ کیونکہ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر، سیاست کا راستہ صداقت اور حقیقت کے راستے سے الگ کر لیا ہے"۔

- کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ آج کے دن ـ جبکہ پولیس کے محاصرے میں ہیں اور ڈرون طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کو یونیورسٹی کے احاطے پر منڈلاتے دیکھ رہے ہیں، غیر یقینی صورت حال میں ـ اپنے آپ سے پوچھ رہے ہیں:

کیا ہم آپ کی روشنی میں، روشنی کا مشاہدہ کر سکیں گے؟

*****

ہم بھی ان سے صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ:

پيوستہ رہ شجر سے ، اميد بہار رکھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تکمیل و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110