اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
اتوار

5 مئی 2024

3:11:27 PM
1456296

بحیرہ قلزم غزہ دشمنوں کے لئے غیر محفوظ؛

یمن: بحیرہ احمر سے امریکی اتحاد کی بتدریج پسپائی کے اسباب

سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ بحیرہ احمر میں یمنی افواج کی بحری کاروائیوں کے مقابلے میں امریکی فوجی اتحاد کے تمام آپشن ناکام ہو چکے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، یمن کے امور کے ماہر و مبصر "طالب الحسینی" نے بین العلاقائی اخبار "رأی الیوم" میں اپنے مضمون میں، بحیرہ احمر میں یمنی افواج کے مقابلے میں امریکی فوجی اتحاد کی شکست کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا:

جس وقت یمن نے بحیرہ احمر اور بحیرہ عرب میں اپنی کاروائیوں کا آغاز کیا اور غزہ کی حمایت کرتے ہوئے اسرائیلی دشمن کے جہازوں پر راستہ بند کر دیا، تو یمنیوں کے اس جراتمندانہ اقدام کا مقابلہ کرنے کے لئے مختلف قسم کے ممکنہ منظرنامے سامنے آئے جن میں سے ایک منظرنامے کا تعلق ان دو سمندروں میں امریکیوں کے دوبارہ سرگرم عمل ہونے سے تعلق رکھتا تھا۔ اور امریکیوں نے اس مقصد کے لئے ایک اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا۔

اس اتحاد کا نام "خوشحالی کا محافظ اتحاد" (Prosperity Guardian) رکھا گیا اور اس کا مقصد باب المندب اور بحیرہ احمر میں یمنی حملوں کے مقابلے میں اسرائیلی جہازوں کو تحفظ فراہم کرنا، قرار دیا گیا۔

امریکیوں کو توقع تھی کہ طیارہ بردار امریکی، برطانوی، فرانسیسی، جرمن، اطالوی، ولندیزی اور یونانی جہازوں، اور دوسرے جنگی اور فوجی جہازوں کے حرکت میں آتے ہی یمنی افواج کی کاروائیاں رک جائیں گی۔

لیکن جو کچھ ہؤا، وہ یہ نہیں تھا بلکہ جو کچھ ہؤا وہ یہ تھا کہ صنعاء نے اپنی کاروائیوں کا دائرہ وسیع تر کر دیا اور نہ صرف اسرائیلی جہازوں یا اسرائیلی بندرگاہوں کی طرف جہازوں کو نشانہ بنایا بلکہ امریکی اور برطانوی تجارتی جہازوں کو بھی نشانہ بنایا۔

یہ صورت حال بحیرہ احمر میں امریکی فوجی اتحاد کے لئے بہت بڑا چیلنج بن گئی کیونکہ یمنیوں کے حملوں سے نمٹنے کے لئے بہت بڑی انٹیلی جنس اور فوجی طاقت کی ضرورت تھی اور مغربی جنگی جہازوں کے لئے میزائل شکن اورطیارہ شکن نظامات اور باب المندب اور بحیرہ احمر سے گذرنے والے جہازوں کی نقل و حرکت کے بارے میں درست معلومات کے حصول کی ضرورت پڑی تھی۔

یہی مسائل مذکورہ اتحاد کی شکست کا باعث بنے اور نتیجہ یہ ہؤا کہ انہیں یمنی افواج کا مقابلہ کرنے کے لئے متبادل راستوں کی طرف دیکھنا پڑا، یعنی امریکی اتحاد نے یمن کی مسلح افواج کی فوجی صلاحیتیں کمزور کرنے اور جہازوں کو درست نشانہ بنانے کی صلاحیت میں خلل ڈآلنے کے لئے، یمن پر بمباریوں کا آغاز کیا۔

گوکہ یہ آپشن ایک ایسے ملک پر جارحیت کی اعلیٰ سطح کی نشاندہی کر رہا تھا جس کو 10 سال سے مسلسل بیرونی جارحیت اور محاصرے کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن امریکہ اور برطانیہ کو کئی ہفتوں سے یمنی شہروں پر جارحیت کے بعد معلوم ہؤا کہ یہ آپشن بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتا، بلکہ یہ بھی ناکام ہو چکا ہے۔

واضح رہے کہ سعودی عرب نے یمن پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کر دی اور اندون ملک خانہ جنگی بھی جاری رہی لیکن آج امریکہ اور برطانیہ کا اگلا متبادل یہ ہے کہ اس آزمائے ہوئے ناکام ہتھکنڈے کو ایک بار آزمائیں اور سعودی عرب کی طرف سے ایک بار زمینی جارحیت کا آغاز کیا جائے اور خانہ جنگی کو بھی ہوا دی جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نکتہ: یمن کی تمام اقوام اور تمام علاقوں کے لوگ جعلی صہیونی ریاست کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور انصار اللہ کے خلاف خانہ جنگی میں ملوث گروپ بھی، اسرائیل اور اس کے حلیفوں کے خلاف انصار اللہ کی کاروائیوں کے حامی ہیں، چنانچہ یہ امکان بہت کمزور ہے کہ وہ ایک بار خانہ جنگی میں الجھ کر صہیونیوں اور ان کے حلیفوں کو تحفظ فراہم کریں گے اور غزہ کے عوام کے خلاف صہیونی ریاست کی حفاظت کریں گے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110