اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
ہفتہ

27 اپریل 2024

12:32:54 PM
1454456

امریکہ اور یورپ میں طلباء تحریک کی مناسبت سے؛

امام خامنہ ای کے دو خطوط یورپی اور امریکی نوجوانوں کے نام

سنہ 2015ع‍ کے آغاز میں، ـ مورخہ 21 جنوری 2015ع‍ کو ـ امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے فرانس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں اور اس کے بعد اسلام فوبیا کی لہر کے پیش نظر یورپ اور شمالی امریکہ کے نوجوانوں کے نام ایک خط بعنوان "Letter4u" تحریر فرمایا تھا جس کا متن درج ذیل ہے:

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

یورپ اور شمالی امریکہ کے نوجوانوں کے نام پہلا خط

 

بسم‌ الله الرّحمن الرّحیم


یورپ اور شمالی امریکہ کے تمام نوجوانوں کے نام

فرانس کے حالیہ واقعات، اور بعض دوسرے مغربی ممالک میں ایک جیسے واقعات، نے مجھے قائل کرلیا کہ آپ سے براہ راست بات چیت کروں۔

میں آپ نوجوانوں سے براہ راست مخاطب ہورہا ہوں؛ اس لئے نہیں کہ آپ کے والدین کو نظر انداز کرنا چاہتا ہوں، بلکہ اس وجہ سے کہ میں آپ کی قوم اور سرزمین کا مستقبل، آپ کے ہاتھوں میں، دیکھ رہا ہوں، نیز میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے اندر حقیقت پسندی کا احساس زیادہ زندہ اور بیدار ہے۔

نیز اس مکتوب میں میرا خطاب آپ کے سیاستدانوں سے بھی نہیں ہے، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے جان بوجھ کر سیاست کا راستہ صداقت اور سچائی کے راستے سے الگ کرلیا ہے۔

آپ سے میری بات اسلام کے بارے میں ہے، اور بطور خاص اسلام کے اس چہرے اور تصویر کے بارے میں جو آپ کو دکھائی جاتی ہے۔ گذشتہ دو عشروں ـ یعنی سوویت روس کی شکست و ریخت کے بعد ـ سے آج تک بہت زیادہ کوششیں بروئے کار لائی گئی ہیں کہ اس عظیم المرتبت دین کو ایک خوفناک دشمن کے مقام پر لاکھڑا کیا جائے۔

افسوس کا مقام ہے کہ مغرب کی سیاسی تاریخ میں خوف و نفرت کے جذبات ابھارنے اور ان جذبات سے فائدہ اٹھانے کی تاریخ بہت طویل ہے۔

میں یہاں خوف و ہراس کی ان اشکال پر بحث نہیں کرنا چاہتا جو مغربی اقوام پر مسلط کی گئی ہیں۔ آپ خود تاریخ کے تنقیدی مطالعات کا مختصر سا جائزہ لے کر دیکھ لیں گے کہ جدید تاریخ نویسی میں دنیا کی اقوام اور تہذیبوں کے ساتھ مغربی حکومتوں کی طرف سے روا رکھے گئے غیر دیانتدارانہ اور مکارانہ رویوں کی مذمت کی گئی ہے۔

یورپ اور امریکہ کی تاریخ غلام(پرور)ی کی وجہ سے شرمسار ہے، ان کا سر نوآبادیاتی دور کی بنا پر شرمندگی سے جھکا ہوا ہے اور رنگ دار نسلوں اور غیر عیسائیوں پر ظلم و ستم کی وجہ سے خجلت زدہ ہے؛ آپ کے اپنے محققین پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے عنوان سے مذہب کے نام پر یا پھر قومیت اور ملک کے نام پر، ہونے والی خونریزیوں کے پیش نظر، گہری شرمندگی اور خجلت زدگی کا اظہار کررہے ہیں۔

یہ بجائے خود باعث تحسین ہے اور میرا مقصد تاریخ کی ان ملامتوں کی طویل فہرست بیان کرنا نہیں ہے بلکہ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ جاکر اپنے دانشوروں سے پوچھیں کہ مغرب میں کیوں عام لوگوں کی ضمیر کئی عشرے یا پھر کئی صدیاں، تاخیر سے بیدار ہوتی ہے؟ یہاں سماجی ضمیر میں نظر ثانی کا تعلق دور دراز کے زمانوں سے تو ہوتا ہے لیکن حالات حاضرہ کے مسائل کو کیوں لائق توجہ نہیں سمجھا جاتا؟ اسلامی تہذیب و ثقافت اور افکار کے ساتھ طرز سلوک کی روش جیسے اہم مسائل میں، عمومی آگہی کے معرض وجود میں آنے کے راستے میں روڑے کیوں اٹکائے جاتے ہیں؟

آپ بخوبی جانتے ہیں کہ دوسروں کی تحقیر و تذلیل اور ان سے خوف زدہ کرنے کا رویہ، تمام تر ظالمانہ منفعت پرستیوں کا مشترکہ پیش خیمہ ہے۔

اب میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہراس انگیزی اور منافرت خیزي کا ہتھکنڈہ اس بار ـ بےمثل انداز سے اسلام اور مسلمانوں کو کیوں نشانہ بنائے ہوئے ہے؟ آج کے زمانے میں طاقت کا ڈھانچہ کیوں اسلامی تفکر کو دنیا میں دیوار سے لگانے کے درپے ہے اور اس کو غیر فعال بنانا چاہتا ہے؟ اسلام میں وہ کون سے معانی اور اقدار ہیں جو بڑی طاقتوں کی منصوبہ بندی کی راہ میں رکاوٹ ہیں؟ اور اسلام کی غلط تصویر سازی کی بنا پر [ان کے] کونسے مفادات پورے ہوجایا کرتے ہیں؟

پس میری پہلی اپیل یہ ہے کہ اسلام کے خلاف اس وسیع بد نمائی [اور اس کی بگڑی صورت پیش کرنے] کے محرکات کے بارے میں پوچھ گچھ اور تحقیق کریں۔

میری دوسری اپیل یہ ہے کہ منفی تشہیریی مہم اور تعصب آمیز رویوں کے سیلاب کے مقابلے میں اس دین کے بارے میں براہ راست اور بلا واسطہ شناخت و معرفت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

صحت مند منطق کا تقاضا ہے کہ کم از کم جان لیں کہ جس چیز سے وہ آپ کو بھگا رہے ہیں اور خوفزدہ کر رہے ہیں وہ در اصل ہے کیا، اور اس کی حقیقت و ماہیت کیا ہے؟

میں اصرار نہیں کرتا کہ اسلام کے بارے میں میرا یا کسی بھی دوسرے شخص کا تصور قبول کریں بلکہ کہنا چاہتا ہوں کہ کسی کو بھی موقع نہ دیں کہ وہ اس متحرک اور پر اثر حقیقت کو، آلودہ اہداف و اغراض کی روشنی میں، آپ سے متعارف کرا دے۔

آپ موقع نہ دیں کہ مکاری اور حیلہ گری کے ساتھ ان دہشت گردوں کو اسلام کے نمائندوں کے طور پر آپ کے سامنے پیش کیا جائے جو ان کے اپنے ہی گماشتے ہیں۔

اسلام کو بنیادی اور اصلی مآخذ اور درجۂ اول کے منابع کی روشنی میں پہچان لیں۔

اسلام سے قرآن اور اس کے نبی اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات و سیرت کے راستے سے متعارف ہوجائیں۔

میں یہاں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آج تک آپ نے مسلمانوں کے "قرآن" سے براہ راست رجوع کیا ہے؟

کیا آپ نے آج تک ذرائع ابلاغ کے علاوہ کسی اور ذریعے سے اسلام کا پیغام وصول کیا ہے؟

کیا آپ نے کبھی اپنے آپ سے پوچھا ہے کہ اسی اسلام نے، کن اقدار کی بنیاد پر کئی صدیوں کے دوران دنیا کی عظیم ترین علمی اور فکری تہذیب و تمدن کو پروان چڑھایا اور برترین و اعلی ترین علماء اور مفکرین کی پرورش کی؟

میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ کسی کو بھی یہ موقع نہ دیں کہ اہانت آمیز اور گھٹیا تصویر کشی کے ذریعے "آپ اور حقیقت" کے درمیان جذباتی دیوار کھڑی کرے اور آپ کو غیر جانبدارانہ فیصلہ دینے سے باز رکھے۔

آج، جبکہ مواصلاتی اوزاروں نے جغرافیائی سرحدوں کو توڑ کر رکھ دیا ہے، کسی کو بھی موقع نہ دیں کہ آپ کو بناوٹی اور ذہنی سرحدوں میں محصور کر دے۔

اگرچہ کوئی بھی انفرادی طور پر [طاقتوں کی] بنائی ہوئی خلیج کو پر نہیں کرسکتا، لیکن آپ میں سے ہر فرد خود آگہی اور گرد و پیش کے ماحول کو آگاہ کرنے کی غرض سے، اس خلیج اور دراڑ کے اوپر فکر اور انصاف کا پل تعمیر کرسکتا ہے۔

اسلام اور آپ نوجوانوں کے درمیان پہلے سے تیار کردہ تقابل اگرچہ ناخوشگوار ہے لیکن یہ آپ کے متجسس اور متلاشی ذہن میں نئے سوالات کو جنم دے سکتا ہے۔

ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش، آپ کو نئی حقیقتوں کی دریافت کے بیش قیمت مواقع فراہم کرتی ہے۔

لہذا، اسلام کی درست فہمی اور پیشگی فیصلوں سے فارغ ادراک کا یہ موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں تا کہ شاید حقیقت کے سلسلے میں آپ کے احساس ذمہ داری کی برکت سے، مستقبل کے تاریخ نویس اسلام کے ساتھ مغرب کے رویئے کے موجودہ مرحلے کو کم آزردگی اور زيادہ آسودہ خیالی کے ساتھ رشتۂ تحریر میں لائیں۔

 

سیّد علی خامنہ ای

21 جنوری 2015ع‍

*****

"آج دہشت گردی ہمارا اور آپ کا مشترکہ دکھ ہے"۔

 حضرت آیت اللہ العظمی امام سید علی خامنہ ای نے مغرب کے تمام نوجوانوں کے نام اپنے [دوسرے] خط کے ضمن میں فرانس کے ناخوشگوار واقعات کو ان کے ساتھ مشاورت کی بنیاد قرار دیا اور "عالم اسلام میں بعض بڑی طاقتوں کی حمایت یافتہ دہشت گردی، اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کی حمایت اور دنیائے اسلام پر حالیہ برسوں کے دوران تباہ کن لشکر کشیوں" کے اثرات کے دردناک نمونوں کو گنواتے ہوئے، نوجوانوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: میں آپ نوجوانوں سے چاہتا ہوں کہ صحیح شناخت و معرفت کی بنیاد پر اور دوراندیشی اور گہری بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے ناخوشگوار تجربات سے استفادہ کریں اور عالم اسلام کے ساتھ ایک صحیح اور شرافتمندانہ تعامل کی بنیاد رکھیں۔

 

رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای کے خط کا پورا متن:

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

مغربی ممالک میں تمام نوجوانوں کے نام

فرانس میں اندھی دہشت گردی کے پیدا کردہ تلخ اور ناخوشگوار واقعات نے ایک بار پھر مجھے آپ سے گفتگو کرنے پر آمادہ کیا۔

 میرے لئے باعث افسوس ہے کہ اس طرح کے واقعات ہمارے لئے بات چیت کا ماحول فراہم کریں؛ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ دکھ بھرے واقعات چارہ جوئی کے اسباب اور مشاورت کا امکان، پیدا نہ کریں تو نقصان دوچند ہوگا۔

 دنیا کے ہر حصے میں ہر انسان کو درپیش دکھ اور درد، خودبخود، اس کے ہم نوع انسانوں کے لئے باعث تکلیف ہے۔

 ایک بچے کا منظر جو اپنے عزیزوں کے سامنے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے؛

 وہ ماں جس کے کنبے کی خوشی غم میں بدل جاتی ہے؛

 وہ خاوند جو اپنی شریک حیات کی بےجان لاش لے کر تیزی سے کسی سمت بھاگتا ہے؛

 یا ایک تماشائی جس کو نہیں معلوم کہ اگلے لمحے اس کو زندگی کی نمائش کا کون سا پردہ دکھایا جائے گا؛

 یہ سب ایسے مناظر نہیں ہیں جو انسان کے انسانی جذبات و احساسات کو نہ ابھاریں۔

 ہر وہ شخص جو ذرہ بھر محبت و انسانیت رکھتا ہو، اس قسم کے مناظر دیکھ کر محزون و مغموم ہوجاتا ہے خواہ یہ واقعات فرانس میں رونما ہوں خواہ فلسطین، عراق، لبنان اور شام میں۔

 بےشک ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات بھی یہی ہیں؛ وہ اس قسم کے واقعات اور المیوں کے اسباب فراہم کرنے والوں سے بیزار ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں۔

 لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر آج کے دکھ بہتر اور محفوظ تر مستقبل کی بنیاد فراہم نہ کریں تو یہ صرف تلخ اور ناخوشگوار یادوں تک محدود ہوکر رہ جائیں گے۔

 مجھے یقین ہے کہ صرف آپ نوجوان ہی ہیں جو آج کی ناہمواریوں سے سبق لے کر مستقبل کی تعمیر کے لئے نئے راستے پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور آپ ان انحرافات کا راستہ روک سکتے ہیں جنہوں نے مغرب کو موجودہ صورت حال سے دوچار کیا ہے۔

 اس میں شک نہیں ہے کہ آج دہشت گردی ہمارا اور آپ کا مشترکہ درد ہے، تاہم جان لیجئے کہ آپ حالیہ سانحے میں جس بدامنی اور پریشانی سے گذرے ہیں، رنج و غم کی ان داستانوں سے دو حوالوں سے مختلف ہے جن سے عراق، یمن، شام اور افغانستان کے عوام کو برسہا برس سے گذرنا پڑا ہے:

 اول یہ کہ، عالم اسلام بہت طویل عرصے سے، بہت وسیع سطح پر، عظیم مصائب اور رنج و الم، وحشت اور خوف و ہراس کی بھینٹ چڑھتا آرہا ہے؛ اور

 دوئم یہ کہ باعث افسوس ہے کہ تشدد کے اس سلسلے کو تسلسل کے ساتھ ـ مختلف روشوں سے نہایت مؤثر انداز میں ـ کچھ بڑی طاقتوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔

 آج کم ہی کوئی ہوگا جو القاعدہ، طالبان اور اس سلسلے کے منحوس ذیلی ٹولوں کو معرض وجود میں لانے، تقویت پہنخانے اور مسلح کرنے میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے کردار سے لاعلم ہو۔

 براہ راست پشت پناہی کے ساتھ ساتھ، تکفیری دہشت گردی کے اعلانیہ اور جانے پہچانے حامی ـ پسماندہ ترین سیاسی نظامات رکھنے کے باوجود ـ ہمیشہ مغرب کے اتحادیوں کے زمرے میں شمار ہوتے آئے ہیں؛ حالانکہ [دوسری جانب سے] علاقے میں متحرک جمہوریت سے اٹھے ہوئے ترقی پسند ترین اور روشن ترین افکار کو نہایت بےدردی سے کچل دیا گیا ہے۔

 عالم اسلام میں بیداری کی تحریکوں کے حوالے سے مغرب کا دوہرا رویہ مغربی پالیسیوں میں تضادات کی زندہ مثال ہے۔

 اس تضاد کا دوسرا چہرہ، اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کی پشت پناہی کی صورت میں، نمایاں ہوجاتا ہے۔

 فلسطین کے ستم زدہ عوام ساٹھ سال سے بھی زیادہ عرصے سے بدترین دہشت گردی کو برداشت کرتے آرہے ہیں۔

 اگر یورپی عوام صرف چند دنوں سے اپنے گھروں میں پناہ لے کر بیٹھے ہیں اور ہرہجوم مقامات پر حاضری دینے سے پرہیز کرتے ہیں، تو ایک فلسطینی گھرانہ حتی دس سال کے عرصے سے اپنے گھر کے اندر بھی صہیونی ریاست کی کشت و خون اور انہدام و تخریب والی مشین سے محفوظ نہیں ہے۔

 آج کس قسم کے تشدد کو قسی القلبی کے لحاظ سے صہیونی ریاست کی کالونیوں کی تعمیر جیسے واقعات سے قیاس کیا جاسکتا ہے؟

 یہ ریاست ـ اپنے با اثر اتحادیوں یا کم از کم بظاہر خودمختار اور مستقل بین الاقوامی اداروں ـ کی جانب سے سنجیدگی سے سرزنش کا نشانہ بنے بغیر، ہر روز فلسطینیوں کے گھر تباہ کرتی ہے اور ان کے باغات اور کھیتیوں کو اجاڑ دیتی ہے، یہاں تک کہ انہیں اپنے گھر کا سامان اٹھانے یا فصل کاٹنے [اور پھیل چننے] کا موقع بھی نہیں دیا جاتا؛ اور یہ سب عام طور پر ان عورتوں اور بچوں کی اشک بار آنکھوں کے سامنے انجام پاتا ہے جو اپنے کنبے کے افراد کے زد و کوب ہونے یا پھر خوفناک عقوبت خانوں میں منتقل ہونے کے گواہ ہیں۔

 کیا آپ آج کی دنیا میں اس سطح پر اتنی عظیم اور حجیم اور اتنے طویل عرصے سے جاری قساوت قلبی کو [کہیں اور] دکھا سکتے ہیں؟

 کیل کانٹے سے لیس سپاہی پر [زبانی] اعتراض کی پاداش میں بیچ سڑک کے، ایک خاتون کو گولیوں سے چھلنی کرنا، اگر دہشت گردی نہیں تو پھر کیا ہے؟

 کیا اس بربریت کو صرف اس لئے انتہاپسندی کے زمرے میں نہیں گننا چاہئے کہ یہ ایک قابض ریاست کے ہاتھوں انجام پارہی ہے؟ یا پھر

 ان تصاویر کو اس لئے ہمارے ضمیر کی بیداری کا سبب نہیں بننا چاہئے کہ یہ ساٹھ برسوں سے مسلسل ٹی وی اسکرین پر دکھائی دیتی رہی ہیں؟

 حالیہ برسوں میں عالم اسلام پر لشکر کشیاں ـ جو بجائے خود بہت سوں کے بھینٹ چڑھنے کا سبب ہوئیں ـ مغرب کی تضادات سے بھرپور منطق کی ایک اور مثال ہیں۔

 یلغار کا نشانہ بننے والے ممالک ایک طرف سے وسیع جانی نقصانات سے دوچار ہوئے تو دوسری طرف سے وہ معاشرتی اور صنعتی ڈھانچے سے بھی محروم ہوئے اور ترقی کی جانب اس کا سفر یا تو مکمل طور پر رک گیا یا پھر یہ سفر سست رفتاری کا شکار ہوا اور متعلقہ ممالک بعض شعبوں میں عشروں تک پیچھے چلے گئے؛

 بایں وجود، نہایت گستاخی کے ساتھ ان سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اپنے آپ کو ستم زدہ اور مظلوم نہ جانیں! یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک ملک کو ویرانے میں، اور اس کے شہر اور گاؤں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کیا جائے اور پھر اس ملک کے عوام سے کہا جائے کہ از راہ کرم اپنے آپ کو مظلوم نہ کہیں!؟

 کیا [اقوام کو] ناسمجھی یا المیوں کی فراموشی کی دعوت کے بجائے، سچی معذرت خواہی بہتر نہیں ہے؟

 جو دکھ اور درد عالم اسلام نے حملہ آوروں کی منافقت، ریاکاری اور چہرہ آرائی کی وجہ سے برداشت کیا ہے، وہ ان کو پہنچنے والے مادی نقصانات سے کسی طور بھی کم نہیں ہے۔

 عزیز نوجوانو! مجھے امید ہے کہ آپ حال اور مستقبل میں اس مکر و فریب سے آلودہ ذہنیت کو بدل دیں گے؛ ایسی ذہنیت جس کا زیادہ سے زیادہ ہنر صرف یہ ہے کہ طویل المدت مقاصد کو چھپا کر رکھا جائے اور عیارانہ اغراض کو نقاب پہنایا جائے۔

 میرے خیال میں امن و سلامتی اور سکون قائم کرنے کا پہلا مرحلہ تشدد پیدا کرنے والے اس تفکر کی اصلاح ہے۔

 جب تک کہ مغرب کی پالیسیوں پر دوہرے معیار سایہ فگن رہیں گے، جب تک کہ دہشت گردی اپنے طاقتور حامیوں کے نزدیک اچھی اور بری [دہشت گردی] میں تقسیم ہوتی رہے گی، اور جس دن تک کہ حکومتوں کے مفادات کو انسانی اور اخلاقی اقدار پر مقدم رکھا جائے گا، تشدد کی جڑیں کہیں اور تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

 افسوس کا مقام ہے کہ یہ جڑیں برسوں سے، رفتہ رفتہ، مغرب کی ثقافتی پالیسیوں میں رسوخ کرگئی ہیں اور مغرب نے اسی کی بنیاد پر ایک خاموش اور نرم یلغار کا انتظام کیا ہے۔

 دنیا کے بہت سے ممالک اپنی مقامی اور قومی تہذیب پر فخر کرتے ہیں، وہی تہذیبیں جو بالیدگی اور نشوونما کے ساتھ ساتھ صدیوں تک انسانی معاشروں کی ضرورتوں کو برلاتی رہی ہیں؛ عالم اسلام بھی اس قاعدے سے مستثنیٰ نہیں رہا ہے۔  لیکن دورِ معاصر میں، مغربی دنیا جدید اوزاروں کو بروئے کار لاتے ہوئے عالمی تہذیب کی  چربہ کاری اور پوری دنیا کی تہذیب کو ایک جیسا بنانے پر بضد ہے۔

 میں دنیا کی دوسری اقوام پر مغربی تہذیب کی مسلط سازی اور مستقل تہذیبوں کی تحقیر و تخفیف کو ایک خاموش تشدد اور بہت زیادہ نقصان دہ سمجھتا ہوں۔

 بالیدہ تہذیبوں کی تحقیر و تذلیل اور ان کے محترم ترین شعبوں کی اہانت ایسے حال میں انجام پاتی ہے کہ متبادل [مغربی] تہذیب کسی صورت میں بھی ان کی جانشینی کی اہلیت نہیں رکھتی۔

 بطور مثال، باعث افسوس ہے کہ دو عناصر ـ یعنی جارحانہ رویہ اور اخلاقی بے راہ روی ـ  مغربی تہذیب کے بنیادی عناصر میں بدل چکے ہیں، حتی کہ یہ عناصر [مغربی تہذیب] کی جنم بومی میں بھی، اس کی مقبولیت اور منزلت کو گھٹا چکے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم ایک جھگڑالو، بیہودہ اور معنویت سے گریزاں تہذیب کا خیر مقدم نہ کریں، تو کیا ہم گنہگار ہیں؟

 اگر ہم ایک تباہ کن سیلاب کا انسداد کریں جو فن نما [سمعی  و بصری] مصنوعات کی شکل میں ہمارے نوجوانوں کی طرف رواں ہے، تو کیا ہم مقصّر ہیں؟

 میں تہذیبی و ثقافتی رشتوں کی اہمیت اور قدر و قیمت کا منکر نہیں ہو۔ [تاہم] یہ رشتے ہرگاہ فطری حالات میں، وصول کرنے کے لئے آمادہ معاشرے کے احترام کی رعایت کے ساتھ، استوار ہوئے ہیں، نشوونما، بالیدگی اور [ثقافتی] تونگری کا تحفہ لے کر آئے ہیں۔ اس کے برعکس، غیر متوازن، ناہمآہنگ اور مسلط کردہ رشتے، ناکام اور نقصان دہ رہے ہیں۔

 مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ داعش جیسے پست ٹولے، درآمد شدہ تہذیبوں کے ساتھ اسی طرح کے ناکام رشتوں کا نتیجہ ہیں۔

 اگر واقعی اس مسئلے کا تعلق عقائد سے ہوتا، تو استعماری دور سے پہلے بھی اس قسم کے نادرالظہور تفکرات کو عالم اسلام میں نمودار ہونا چاہئے تھا، حالانکہ تاریخ کی گواہی اس کے برعکس ہے۔

 تاریخ کے مسلّمہ مُستَنَدات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح ایک بدو قبیلے کے اندر کے ایک انتہا پسندانہ اور مسترد شدہ تفکر کے ساتھ استعمار کے پیوند نے اس خطے میں انتہا پسندی کا بیج بویا؛ ورنہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ دنیا کے اخلاقی ترین اور انسانی ترین مکتب سے ـ جو اپنے بنیادی متن میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل سمجھتا ہے ـ داعش جیسی غلاظت برآمد ہوجائے؟

 دوسری طرف سے پوچھنا چاہئے کہ یورپ میں پیدا ہونے والے اور اسی ماحول میں فکری اور روحی [و نفسیاتی] تربیت پانے والے افراد اس قسم کے ٹولوں کی طرف مائل کیوں ہوجاتے ہیں؟

 کیا یہ باور کرنا ممکن ہے کہ کچھ افراد ایک یا دو بار جنگی علاقوں کا سفر کرکے اچانک اس قدر انتہا پسند ہوجائیں کہ اپنے ہم وطنوں کو گولیوں کا نشانہ بنائیں؟ قطعی طور پر ایک آلودہ اور تشدد کو جنم دینے والے ماحول میں پوری عمر گذارنے اورغیر صحتمند تہذیبی و ثقافتی غذا پانے، کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔

 اس سلسلے میں ایک جامع تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے، ایسا تجزیہ جو معاشرے کی آشکار و نہاں آلودگیوں کا سراغ لگائے۔

 شاید معاشی اور صنعتی بالیدگی کے زمانے میں، نا انصافیوں اور ممکنہ قانونی و ساختیاتی امتیازی رویوں نے بعض مغربی سماجی طبقات میں گہری نفرتوں کا جو بیج بویا ہے، اس نے ایسی [نفسیاتی] الجھنوں کو جنم دیا ہے جو وقفے وقفے سے مریضانہ انداز سے منہ کھول دیتی ہیں۔

 بہر حال یہ آپ ہی ہیں جنہیں اپنے معاشرے کی ظاہری تہہوں کو کھولنا [اور اس کے رازوں کو کریدنا] ہے، گرہوں اور کینوں کا سراغ لگانا اور ختم کرنا ہے۔ [بےشک] دراڑوں کو مزید گہرا کرنے کے بجائے، ان کی مرمت کرنے کی ضرورت ہے۔

 دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بڑی خطا، عجلت زدہ رد عمل ہے، جو موجودہ دراڑوں میں اضافہ کر دیتا ہے۔

 ہر ہیجانی اور جذباتی اور عجلت زدہ اقدام ـ جو یورپ اور امریکہ میں بسنے والے کروڑوں فعال اور ذمہ دار انسانوں پر مشتمل مسلم معاشروں کو تنہا کردے یا انہیں ہراساں اور پریشان کردے، اور پہلے سے کہیں زیادہ بنیادی حقوق سے محروم کر دے اور معاشرے کے منظر سے ہٹا دے ـ نہ صرف مسائل کو حل نہیں کرتا بلکہ فاصلوں کو گہرا اور منافرتوں کو وسیع تر کرے گا۔

 سطحی اور عارضی رد عمل پر مبنی اقدامات ـ خاص طور پر اگر قانونی جواز بھی پا لیں ـ موجودہ دھڑے بندیوں کو وسعت دینے، اور اگلے بحرانوں کے لئے ماحول فراہم کرنے کے سوا، کسی نتیجے پر منتج نہ ہونگے۔

 موصولہ اطلاعات کے مطابق بعض یورپی ممالک میں ایسے قوانین و ضوابط وضع کئے گئے ہیں جن کی روشنی میں ان ممالک کے باشندوں کو مسلمانوں کی جاسوسی کرنے پر آمادہ کیا جاتا ہے؛ یہ طرز سلوک ظالمانہ ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ ظلم ـ چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے ـ رد عمل کا سبب بنتا ہے۔ اور پھر مسلمان، اس قدر ناشکریوں کے مستحق بھی تو نہیں ہیں۔

 مغربی دنیا صدیوں سے مسلمانوں کو بخوبی جانتی ہے؛ اس دن بھی انہیں جانتی تھی جب مغربی باشندے اسلام کی سرزمین کے مہمان بنے اور انھوں نے میزبان کی ثروت پر نظریں جما لیں اور اس دن بھی جب وہ مسلمانوں کے میزبان بنے اور مسلمانوں کی محنت اور ان کی فکری صلاحیتوں سے بہرہ ور ہوئے، انہیں عام طور پر مسلمانوں سے مہربانی اور صبر و تحمل کے سوا کچھ بھی دیکھنے کو نہ ملا۔

 چنانچہ میں آپ نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ صحیح شناخت و معرفت کی بنیاد پر، دوراندیشی اور گہری بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے، ناخوشگوار تجربات سے استفادہ کریں اور عالم اسلام کے ساتھ ایک صحیح اور شرافتمندانہ تعامل کی بنیاد رکھیں۔ 

 اس صورت میں آپ مستقبل قریب میں اس عمارت کو دیکھ لیں گے جس کو آپ نے ان بنیادوں پر تعمیر کیا ہوگا، اور وہ اپنے معماروں کے سرپر اطمینان اور اعتماد کا سایہ پر پھیلا دے گی، سکون و سلامتی کی گرماہٹ کو انہیں بطور پیشکش عطا کرے گی، اور روشن مستقبل کی امید کی کرنیں دنیا کے صفحے پر بکھیر دے گی۔

 سیّد علی خامنہ ‌ای

 29 نومبر 2015

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مترجم: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110