اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : خیبر صہیون
اتوار

18 اگست 2019

10:03:37 AM
969710

خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر کی مولانا ذاکر حسین جعفری کے ساتھ گفتگو

کشمیر میں بھارتی جارحیت کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ

امریکہ اور اسرائیل چاہتے ہیں صدی کی ڈیل سے دنیا کی توجہ ہٹا کر کشمیر کی طرف موڑ دیں۔ اور وہ اس اقدام میں کسی حد تک کامیاب ہو گئے ہیں اور آج عالمی میڈیا کی توجہ صرف کشمیر کی طرف ہے اور صدی کی ڈیل کی نسبت توجہ کم ہو چکی ہے۔ اب وہ آسانی سے وہاں اپنا کام انجام دے سکتے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ بھارتی سرکار کی جانب سے کشمیر سے متعلق دفعہ ۳۷۰ کے خاتمہ کا اعلان کئے جانے کے بعد ریاست جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہو گئی جس کی وجہ سے خطے میں ایک مرتبہ پھر کشیدگی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک قسم کا جنگی ماحول بنا ہوا ہے جبکہ جموں کشمیر میں کرفیو نافذ ہے اور ۱۰ دس سے تمام مواصلاتی نظام ٹھپ پڑا ہے۔ بھارتی حکومت کی اس جارحیت کے خلاف اگر کسی گلی کوچے سے صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے تو اسے وہی پر دبا دیا جاتا ہے عمائدین ریاست جیلوں میں قید ہیں اور عوام اپنے گھروں میں محصور۔ ایسے میں بھارتی سرکار کی خوش فہمی ہے کہ اس نے کشمیر کا تاریخی مسئلہ حل کر دیا ہے اور وہ کر کے دکھا دیا ہے جو ۷۰ سال سے کوئی دوسری سرکار نہیں کر پائی۔ لیکن یہ تو کرفیو ہٹانے کے بعد ہی پتا چلے گا کہ کشمیری عوام حکوت ہند کے فیصلے پر کتنا خوش ہیں اور بی جے پی سرکار کا یہ تاریخی فیصلہ کشمیر میں کتنا مقبول واقع ہوتا ہے؟
اسی صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر نے جموں کشمیر کے عالم دین اور مہرنیوز ایجنسی کی اردو سروس کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین ’’سید ذاکر حسین جعفری‘‘ سے اس موضوع پر کہ کیا بھارتی سرکار کے اس فیصلے کے پیچھے صہیونی ریاست کا ہاتھ بھی پوشیدہ ہے اور کیا امریکہ و اسرائیل کے مقاصد بھی اس قضیے کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں؟ گفتگو کی ہے:
خیبر: آپ کشمیر کی موجودہ صورتحال کا کیا تجزیہ کرتے ہیں؟ اور اس خطے میں مسلمانوں کا مستقبل آپ کی نظر میں کیا ہو سکتا ہے؟
۔ کشمیر کا مسئلہ، قضیہ فلسطین کی طرح ان بین الاقوامی مسائل میں سے ایک ہے جو اب تک حل نہیں ہو پائے ہیں اور ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اس مسئلے پر ہمیشہ سے جھگڑا رہا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں دعویٰ کرتے ہیں کہ کشمیر ان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے کہ آزادی ہند و پاک سے قبل یہ علاقہ خود مختار علاقہ تھا یہاں کا اپنا مہاراجہ تھا اور آزادی کے بعد یہ کہا جا رہا ہے کہ مہاراجہ ’’ہری سنگ‘‘ نے کشمیر کا کچھ شرائط کے تحت ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا ہے۔ اور حالیہ صورتحال اسی الحاق کے ایکٹ کو توڑنے سے وجود میں آئی ہے۔ دفعہ ۳۷۰ وہی آرٹیکل ہے جس کے تحت کشمیر کا بھارت سے الحاق کیا گیا تھا۔
اور بھارت کی جانب سے اس دفعہ ۳۷۰ کو ختم کرنے کے بعد کشمیر میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوتا ہے یہ وقت ہی بتائے گا اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن ماضی کی صورتحال کے پیش نظر مسلمانوں کا مستقبل روشن نظر نہیں آتا۔
خیبر: آپ نے مسئلہ کشمیر کو قضیہ فلسطین کے مشابہ قرار دیا تو کیا بتا سکتے ہیں کہ ان کے درمیان کیا شباہتیں ہیں؟
۔ ہند و پاک کے درمیان متنازع مسئلہ جو مسئلہ کشمیر ہے وہ اس وقت قضیہ فلسطین کے مشابہ ہو چکا ہے اس اعتبار سے کہ جس طرح فلسطینیوں کی زمین ان کی اجازت کے بغیر ہتھیا لی گئی تھی اور دنیا ساری مانتی ہے کہ اسرائیل کا فلسطین پر قبضہ ایک غاصبانہ اور ناجائز قبضہ ہے اسی طرح اب دفعہ ۳۷۰ کو ہٹا کر کشمیر کی ریاستی حیثیت کو ختم کر کے، کشمیر کو تقسیم کر کے، کشمیریوں کی رائے لئے بغیر ان کی زمینوں میں غیروں کے نفوذ کے لیے راستہ ہموار کرنا تمام کشمیریوں کی نظر میں بھی اور دنیا والوں کی نظر میں بھی ایک ناجائز اور غیر قانونی اقدام ہے جو یقینا صہیونی ریاست کے اقدام کے مساوی اور مشابہ ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ کشمیر میں اپنے طور پر آزادی پائی جاتی رہی ہے، کشمیر کے لوگوں کو اسمبلی اور پارلیمنٹ کے لیے اپنے نمائندے انتخاب کرنے کا حق حاصل رہا ہے۔ جو اب خطہ لیہ لداخ سے چھین لیا گیا ہے۔ گزشتہ ستر سالوں میں اس حوالے سے کوئی جبر و استبداد حاکم نہیں تھا۔ میری نظر میں فلسطین کے برخلاف کشمیری عوام طول تاریخ میں خود مختار رہے ہیں لیکن حالیہ دنوں ان سے یہ خود مختاری بطور کلی سلب کر لی گئی ہے۔
خیبر: کیا آپ موجودہ صورتحال پر مزید گفتگو کر سکتے ہیں اور بتا سکتے ہیں کہ اب وہاں کیا ہو رہا ہے؟
۔ بھارتی سرکار نے جو دفعہ ۳۷۰ ہٹایا ہے جس کے تحت کشمیر ہندوستان سے الحاق کیا گیا تھا اس کے دو نتائج نکل سکتے ہیں: ایک یہ کہ کشمیر بالکل ہندوستان سے الگ ہو جائے اور اپنی پہلی حالت یعنی ۱۹۴۷ سے قبل کی طرف پلٹ جائے، دوسرا یہ کہ کشمیر بالکل ہندوستان کے تسلط میں چلا جائے مرکزی حکومت براہ راست اس پر اپنے قوانین نافذ کرے۔
کشمیریوں کے درمیان بھی اس حوالے سے تین نظریے پائے جاتے ہیں؛ ایک گروہ ہندوستان کا حامی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کشمیر ہمیشہ کے لیے ہندوستان کا ہی ہو جائے، ایک گروہ پاکستان کا حامی ہے اور تیسرا گروہ آزادی چاہتا ہے۔ لیکن اب اس کے بعد کشمیری عوام کس نظریہ کی طرف زیادہ رجحان دکھاتے ہیں وہ وقت ہی فیصلہ کرے گا۔
خیبر: کشمیری عوام کی اکثریت کیا چاہتی ہے؟
۔ کشمیری عوام کی اکثریت ریفرینڈم چاہتی ہے کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں کشمیر میں ریفرینڈم ہونا چاہیے اور کشمیری عوام خود اپنی تقدیر معین کریں اور میری نظر بھی بہترین حل یہی ہے مسئلہ کشمیر ہو یا مسئلہ فلسطین ہو دونوں کا راہ حل یہی ہے کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرینڈم کرایا جائے اور عوام کو یہ حق دیا جائے کہ وہ بتا سکیں کہ کیا چاہتے ہیں ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں پاکستان کے ساتھ یا آزاد ریاست بنانا چاہتے ہیں۔
کشمیر کے بہت سارے مسلمان ہندوستان کے حامی بھی ہیں لیکن وہ بھی اس جھگڑے کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اس تنازعے نے سب سے زیادہ نقصان کشمیری عوام کو پہنچایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی کشمیریوں کو پاکستانی سمجھتے ہیں انہیں دھشتگرد سمجھتے ہیں اور اسی بنا پر انہیں تشدد کا نشانا بناتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستانی کشمیریوں کو ہندوستانی سمجھتے ہیں لہذا اس تنازعے اور جھگڑے کی چکی میں سب سے زیادہ جو پسے ہیں وہ کشمیر کے عوام ہیں۔ اسی وجہ سے اکثریت عوام کی اس جھگڑے کا خاتمہ چاہتی ہے۔
خیبر: ہندوستان کی موجودہ سرکار کے اس اقدام کا آپ کیا تجزیہ کرتے ہیں؟
۔ ہم تو بھارتی حکومت سے امن، شانتی اور ہندوستان کے اتحاد کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ موجودہ سرکار انتہا پسندی کا شکار ہو رہی ہے۔ یعنی ہندوستان جو ایک سیکولر ملک تھا اس کو ہندو راشٹ میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ یہ اقدام پورے ہندوستان کے لیے خطرناک ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ نہ صرف کشمیر میں بلکہ پنجاب میں بھی تحریک آزادی جاری رہی، سیکھوں نے ہندوستان کے خلاف بغاوت کی تھی، آسام، منیپور، نیپال اور بنگال میں یہ بغاوت ابھی بھی جاری ہیں۔
اگر بھارتی حکومت ان بغاوتوں اور تحریکوں کو فوجی طاقت اور ظلم و تشدد سے کنٹرول کرنا چاہے گی تو میری نظر میں کامیاب نہیں ہو پائے گی اس لیے کہ ہندوستان بہت بڑا ملک ہے کنٹرول کرنا بہت سخت ہے۔
ہندوستان گاندھی کا ملک ہے گاندھی کے ملک سے رعایا کے ساتھ ہمدردی اور نرمی کی توقع ہے نہ فوجی جارحیت اور ظلم و تشدد کی۔
ہم ظلم برداشت نہیں کر سکتے، ظلم چاہے کشمیر میں ہو، چاہے دہلی میں ہو، چاہے فلسطین اور دنیا کے کسی خطے میں ہو ظلم ظلم ہے اور ہم ظلم کی مذمت کرتے ہیں۔
یہ ظلم جو دفعہ ۳۷۰ کو ہٹانے کے بعد کشمیر میں شروع ہوا ہے اور اس بات کا باعث بنا ہے کہ کشمیری عوام خوف و وحشت میں مبتلا ہوں۔ جو شاذ و نادر خبریں وہاں سے موصول ہو رہی ہیں وہ اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ بازار بالکل بند ہیں، آمد و شد ممنوع ہے چپے چپے پر فوج تعینات ہے، خرید و فروخت پر قدغن ہے، مواصلاتی نظام بند ہے، یہ صورتحال ہندوستان کے شایان شان نہیں ہے ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور ڈیموکریسی کا علمبردار ہے۔
لہذا میری نظر میں ہندوستان کی موجودہ حکومت پہلی حکومتوں کی طرح نہیں ہے، یہ حکومت لاٹھی کے زور سے لوگوں پر حکومت کرنا چاہتی ہے اور ہندوستان جو ایک سیکولر ملک ہے اسے ہندوراشٹ بنانا چاہتی ہے۔ یہ اقدام اس ملک کے شایان شان نہیں ہے جس کا رہنما گاندھی جی تھے۔ لہذا میری نظر میں ہندوستان کو کم سے کم کشمیر میں اپنے حامیوں مثلا فاروق عبد اللہ، عمر عبد اللہ یا محبوبہ مفتی جن کی پارلیمنٹ میں نمائندگی رہی ہے، سے گفتگو کرنا چاہیے تھی اور۴ ان کی رائے لینا چاہیے تھی۔
خیبر: اس درمیان چین کا دعویٰ کیا ہے؟
۔ چین بھی اس قضیہ میں دعویدار ہے کہ لداخ کا علاقہ جو ہندوستان کے زیر انتظام ہے اس کا ہے اوروہ کہتا ہے کہ ہندوستان کو اس پر حکومت کا حق حاصل نہیں ہے۔
خیبر: کیا اس وقت ممکن نہیں ہے کہ چین بھی کشمیر کی نسبت اپنا کوئی رد عمل دکھائے؟
۔ ایسا لگتا نہیں ہے کہ فی الحال چین کوئی ٹھوس اقدام کرے اس لیے کہ تینوں ممالک انڈیا، پاکستان اورچین ایٹمی طاقتیں ہیں اور اگر کوئی جنگ کا ماحول بنتا ہے تو تینوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا اور عام لوگ اس میں مارے جائیں گے۔
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کوئی عسکری مسئلہ نہیں ہے یہ ایسا مسئلہ ہے جسے انگریزوں نے جنم دیا ہے اور انگریز نہ ہندوستان کے حامی ہیں نہ پاکستان کے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ یہ تو انسانیت کے حامی بھی نہیں ہیں۔ وہ صرف اپنے مفاد کی فکر کرتے ہیں۔ لہذا میری نظر میں جنگ اس مسئلے کا مناسب حل نہیں ہے دونوں ممالک کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے اور عقل و منطق کی بنا پر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
خیبر: کشمیر جغرافیائی اعتبار سے یا مذہبی اعتبارسے کیا کسی خاص اہمیت کا حامل ہے کہ ہند و پاک میں سے کوئی ایک بھی اسے چھوڑنے کو تیار نہیں؟ آخر اس تنازعے کی اصلی وجہ کیا ہے؟
۔ میری نظر میں کشمیر کا علاقہ عسکری اسٹراٹجیک کے اعتبار سے بھی خاص اہمیت کا حامل ہے اور سیاحتی و تفریحی اعتبار سے بھی بے انتہا حائز اہمیت ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ کشمیر روئے زمین پر بہشت کا ٹکڑا کہلاتا ہے اور سب چاہتے ہیں کہ جنت کے اس ٹکرے کو دیکھیں۔ اس وجہ سے سیاحت یہاں ایک اہم مسئلہ ہے۔ اور عسکری اعتبار سے بھی اس کی پہاڑیاں ہمالیہ کی چوٹیوں سے ملتی ہیں لہذا ان پہاڑیوں کے ذریعے ہندوستان چین پر نظر رکھ سکتا ہے۔
خیبر: کشمیر میں سیاحت کے مواقع کیسے ہیں؟
۔ اس علاقے میں سیاحت کے بہت زیادہ مواقع ہیں۔ لیکن حالیہ واقعات کی وجہ سے کشمیر کی سیاحت بہت متاثر ہوئی ہے ابھی اسی اقدام سے پہلے حکومت ہند نے کشمیر میں گئے ہوئے سیاحوں کو فورا کشمیر چھوڑنے کا اعلان کر دیا حتیٰ وہ ہندو جو یاترا کے لیے امرناتھ گئے ہوئے تھے انہیں بھی فورا واپسی کا حکم دیا تھا ان سب چیزوں کی وجہ سے اس علاقے کی سیاحت بہت متاثر ہو چکی ہے۔
خیبر: مغربی ممالک کا کشمیر کے حوالے سے کیا موقف ہے؟
۔ ان کا موقف واضح ہے انہوں نے خود ہی یہ فتنہ اور جھگڑا پیدا کیا ہوا ہے۔
خیبر: یعنی وہ اس اقدام کے حامی ہیں؟
۔ میری نظر میں یہ کام اسرائیل اور ٹرامپ کے کہنے پر ہوا ہے۔
خیبر: ٹرامپ کو اس اقدام سے کیا فائدہ حاصل ہو گا؟
۔ ٹرامپ ایک قانون شکن انسان ہے اس نے حکومت کی لگام سنبھالنے کے بعد چند اقدام انجام دئے: ایران کے ساتھ ہوا عالمی جوہری معاہدہ ختم کروایا، فرانس کے ساتھ ہوا معاہدہ توڑا، روس اور چین کے ساتھ تجارتی معاہدے توڑے اور کئی اس طرح کے معاہدوں سے علیحدگی اختیار کی۔ لہذا ٹرامپ ایک قانون شکن انسان ہے اس سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ مودی کی قانون شکنی کی مذمت کرے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستانی حکومت نے اس اقدام سے پہلے اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ ہم آہنگی کر رکھی تھی۔
خیبر: آپ کی نظر میں امریکہ اور صہیونی ریاست کے کشمیر میں آشوب بپا کرنے کے پیچھے کون سے مقاصد پوشیدہ ہو سکتے ہیں؟
۔ امریکہ اور اسرائیل چاہتے ہیں صدی کی ڈیل سے دنیا کی توجہ ہٹا کر کشمیر کی طرف موڑ دیں۔ اور وہ اس اقدام میں کسی حد تک کامیاب ہو گئے ہیں اور آج عالمی میڈیا کی توجہ صرف کشمیر کی طرف ہے اور صدی کی ڈیل کی نسبت توجہ کم ہو چکی ہے۔ اب وہ آسانی سے وہاں اپنا کام انجام دے سکتے ہیں۔
لہذا امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ پشت پردہ اس حالیہ اقدام میں اپنا کردار پیش کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کشمیر پر اپنا دباو بڑھائے تاکہ دنیا کی توجہ کشمیر کی طرف مڑ جائے اور وہ صدی کی ڈیل کو سرانجام تک پہنچا سکیں۔
خیبر: کیا ہندوستان کے تمام ہندو حکومت کے اس اقدام کے حامی ہیں؟
۔ نہیں، ممکن ہے بعض ہندو انتہا پسند ہوں لیکن ہندوستان میں بہت سارے ایسے انسانیت پسند اور حقیقت پسند ہندو بھی ہیں جو انسانیت کا قتل نہیں چاہتے جو اس مسئلہ کا راہ حل یہ نہیں سمجھتے جو حکومت نے فیصلہ لیا ہے۔ لہذا تمام ہندو برابر نہیں ہیں۔ جیسا کہ تمام مسلمان بھی برابر نہیں ہیں۔ لہذا انتہا پسند ہندو جیسے RSS داعش، طالبان اور دیگر دھشتگردوں کے مشابہ ہیں۔ ہم انہیں ہندوستانی دھشتگرد سمجھتے ہیں اس لیے کہ وہ پورے ہندوستان کو ہندو راشٹ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
خیبر: کیا ان کے پاس سیاسی طاقت بھی ہے؟
۔ جی ہاں، موجودہ سرکار میں اکثریت انہیں کی ہے۔ اور اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ ’آر ایس ایس‘ اسرائیل کی سخت حامی ہے۔ کشمیر میں ہندوستان اسرائیل کے تجربات کا استعمال کرنا چاہ رہا ہے۔ عسکری امور میں موساد سے مدد لیتا ہے۔ اور انہیں طریقوں کو اپناتا ہے جو اسرائیلی فوج فلسطینیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اپناتی ہے۔ یہ عسکری ہم آہنگی اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان کافی عرصے سے پائی جاتی ہے۔ اور حالیہ سالوں کافی شدت اختیار کر چکی ہے۔
خیبر: بہت بہت شکریہ جو آپ نے ہمیں وقت دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242