اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : خیبر صہیون
بدھ

10 جولائی 2019

2:21:37 PM
959854

مجتبیٰ رحمان دوست کے ساتھ خیبر کی خصوصی گفتگو؛

صدی کی ڈیل سیاسی نہیں شیطانی منصوبہ ہے: رحمان دوست

امریکہ اور صہیونی ریاست کو چاہیے کہ پہلے اس کے مضمون کا اعلان کریں اور اس کے بعد دنیا کے اہل نظر اس پر نقد و تنقید کریں اس کے حوالے سے اپنی آراء کا اظہار کریں۔ لیکن وہ ایسا نہیں کر رہے ہیں اور اس کے مضمون کو خفیہ رکھے ہوئے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر کے نامہ نگار نے “دفاعی کمیٹی برائے ملت فلسطین” کے سیکرٹری جنرل اور محقق استاد “مجتبیٰ رحمان دوست” سے صدی کی ڈیل کے موضوع پر ایک خصوصی گفتگو کی ہے جس کا ترجمہ قارئین کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
خیبر: صدی کی ڈیل کے منصوبے اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے پیش کئے گئے دیگر منصوبوں میں اہم ترین فرق کیا ہے؟
۔ سب سے پہلے اس بات پر توجہ کرنا چاہیے کہ ‘صدی کی ڈیل’ کا نام بہت ہی چالاکی اور ہوشیاری سے انتخاب کیا گیا ہے۔ در حقیقت یہ منصوبہ ایسا منصوبہ ہے جو ممکن ہے موجودہ صدی کا سب سے بڑا منصوبہ ہو۔ چنانچہ اگر یہ منصوبہ من و عن نافذ ہو جاتا ہے تو یقینا تمام مذاکرات، تمام قراردادوں اور دیگر سیاسی واقعات کو متاثر کر دے گا۔
دوسرا اہم نکتہ صدی کی ڈیل کے بارے میں یہ ہے کہ یہ منصوبہ اس شخص کی شخصیت کے ساتھ بھی گہرا رابطہ رکھتا ہے جس نے یہ منصوبہ پیش کیا ہے یعنی ٹرمپ کی شخصیت سیاسی مسائل سے زیادہ ایک تجارتی شخصیت ہے اور صدی کی ڈیل کا زیادہ تر تعلق سیاست کے بجائے اقتصاد اور معیشت سے ہے۔
اہم ترین چیز اس منصوبے میں یہ ہے کہ اگر یہ عملی جامہ پہن لیتا ہے تو فلسطینیوں کا حق واپسی بطور کلی منتفی ہو جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی نسبت نگاہ کچھ یوں ہے کہ وہ افراد جو اصالتا فلسطینی ہیں لیکن فلسطینی سرزمین سے باہر دنیا میں آئے ہیں وہ فلسطینی پناہ گزیں شمار نہیں ہوتے۔ اس نظریے کے تحت اس بات کے پیش نظر کہ فلسطین ۷۰ سال قبل صہیونیوں کے زیر قبضہ واقع ہوا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کی نظر میں فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد بہت کم اور انگشت شمار ہے۔
کلی طور پر فلسطینی پناہ گزینوں کا مسئلہ صہیونی ریاست اور امریکہ کے نزدیک بہت اہم مسئلہ ہے۔ اور اسرائیل و امریکہ ہمیشہ اس کوشش میں رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طریقے سے پناہ گزینوں کے مسئلہ کا حل نکال کر حق واپسی پر خط بطلان کھینج دیں۔ “اسلو” معاہدے کے بعد تمام مذاکرات میں اسرائیل کبھی بھی حاضر نہیں ہوا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے حوالے سے کسی ایک شق کو قبول کرے۔
خیبر: صدی کی ڈیل کے مضمون کو چھپائے رکھنے میں امریکہ کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟
۔ اس معاملے اور منصوبے کے شیطانی ہونے کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ ابھی تک امریکہ اور اسرائیل نے اس منصوبے کے مضمون کو مکمل طور پر شائع نہیں کیا۔ اور ابھی تک جو چیزیں اس کے حوالے سے سامنے آئیں ہیں وہ ظن و گمان پر مبنی ہیں۔
امریکہ اور صہیونی ریاست کو چاہیے کہ پہلے اس کے مضمون کا اعلان کریں اور اس کے بعد دنیا کے اہل نظر اس پر نقد و تنقید کریں اس کے حوالے سے اپنی آراء کا اظہار کریں۔ لیکن وہ ایسا نہیں کر رہے ہیں اور اس کے مضمون کو خفیہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران اور تحریک مزاحمت کی پالیسی بالکل اس معاملے کے خلاف ہے اور وہ اس بات کا انتظار نہیں کریں گے کہ امریکہ اس کے جزئیات سے ہمیں آگاہ کرے تو ہم کوئی اقدام کریں اور اپنا موقف اختیار کریں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کا صدی کی ڈیل کے حوالے سے موقع بہت دقیق اور اصول پسند ہے۔ اس لیے کہ کوئی بھی منصوبہ جو مسئلہ فلسطین کے حوالے سے امریکہ اور صہیونیوں کے ذریعے تیار کیا جائے گا وہ فطرتا اسرائیل کے فائدے میں ہو گا اور اس میں فلسطین کے مظلوم عوام کے لئے کسی حق کو پیش نظر نہیں رکھا ہو گا۔ لہذا ایران اور مزاحمتی تحریک نے اس کے اعلان سے قبل ہی رسمی طور پر اس کی مخالفت کا اظہار کیا ہے اور اس کے خلاف موقف اپنایا ہے۔
خیبر: کچھ جزئیات جو سامنے آئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس منصوبے کے بانی فلسطینی عوام کو اردن منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ کیا اردن کی حکومت اس کام کے لیے رضامند ہو گی؟
۔ بہت سارے اردنی اصل میں فلسطینی ہیں اور اگر غزہ اور فلسطین کے عوام کو اردن میں منتقل کر دیا جائے تو بظاہر عوام کی جانب سے کوئی مخالفت سامنے نہیں آئے گی۔ اردن کی حکومت اس بات کے مخالف ہے۔ اس لیے کہ اگر فلسطینیوں کو اردن منتقل کر دیا جائے گا تو اردن میں اکثریت فلسطینیوں کی ہو جائے گی اور فطرتا آبادی کے اعتبار سے اردن فلسطین بن جائے گا۔
خیبر: صدی کی ڈیل کے انجام کو آپ کس نظر سے دیکھ رہے ہیں؟
۔ صدی کی ڈیل کے حوالے سے تاحال شائع ہونے والی جزئیات قطعی طور پر اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے خلاف ہیں اور انسانی فطرت اور حب وطن جیسے مفاہیم سے منافات رکھتی ہیں اس کے علاوہ اس منصوبہ کے ذریعے فلسطینی ہویت کو مٹایا جا رہا ہے۔
لہذا ان تمام باتوں کے پیش نظر صدی کی ڈیل قابل نفاذ منصوبہ نہیں ہے البتہ دشمنان فلسطین اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی پوری توانائی صرف کر رہے ہیں۔ لیکن انشاء اللہ تحریک مزاحمت کی جد و جہد اس شیطانی منصوبے کو ناکام بنا کر رکھ دے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲