اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
منگل

10 جولائی 2018

7:03:33 AM
901161

یہودی ریاست کے سابق اہلکار کا مکالمہ:

میں ایران کے ساتھ جنگ کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہتا / یہودی ریاست تزویری گہرائی سے محروم ہے

یہودی ریاست کی قومی سلامتی کے سابق نائب سربراہ نے ہاآرتص کے ساتھ اپنے مکالمے میں ایران کے ساتھ جنگ سے خوف، ایران کو شام سے نکال باہر کرنے میں اس ریاست کی بےبسی، ریاست کی تزویری کمزوریوں، 70 سال گذرنے کے بعد بھی یہودی ریاستی ڈھانچے کے نقائص کی طرف اشارے ہوئے ہیں نیز کینیڈا کے حکام کے ساتھ ایک ایرانی سفارتکار کی پنجہ آزمائی کا قصہ بھی بیان ہوا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ "ایران کے ساتھ جنگ ایک ایسی چیز ہے جسے میں تصور ہی نہیں کرنا چاہتا"، یہ جملہ "ایرن اتزیون" (Eran Etzion) کا ہے جو برسوں تک یہودی ریاست کی سلامتی کونسل اور وزارت خارجہ میں کام کرتے رہے ہیں۔ یہاں صہیونی اخبار "ہاآرتص" (Haarrestz) کے ساتھ اتزیون کا تفصیلی مکالمہ پیش خدمت ہے جس میں ایران اور یہودی ریاست کے درمیان جنگ کے امکان پر روشنی ڈالتے ہیں اور اپنی پوزیشن واضح کردیتے ہیں۔
لگتا ہے کہ سبکدوشی یا برطرفی <<اور دنیاوی منفعتوں سے ناامیدی>> کے بعد یا پھر انتقامی کاروائی کرتے ہوئے یہودی و نصرانی ماہرین سچ بولنا شروع کردیتے ہیں اور حقائق بیان کرنے لگتے ہیں، یا شاید ان کے مقاصد کچھ اور ہیں!!
اتزیون 1992 میں صہیونی وزارت خارجہ میں پہنچے اور بعد کے برسوں میں قومی سلامتی کونسل کے نائب سربراہ کے عہدے تک بھی ترقی کرگئے؛ 2013 میں انہیں واشنگٹن میں یہودی سفارتخانے کا ناظم الامور مقرر کیا جانا تھا لیکن ان ہی برسوں میں ان سفارتکاروں کے زمرے میں قابل سزا قرار پائے جنہوں نے تل ابیب کی مرضی کے بغیر ذرائع ابلاغ کے ساتھ بات چیت کی تھی۔
ہاآرتص کے ساتھ ان کے اس مکالمے پر نیتن یاہو کا دفتر بھی سیخ پا ہے جس نے اتزیون کی باتوں کو "بکواس" اور "سچائی سے عاری" جیسے خطابات سے نوازا ہے۔

یہودی ریاست کی کہانی، صہیونیوں کے ہاتھوں پٹے ہوئے سفارتکار کے زبانی

حزب اللہ کے ساتھ جنگ کا خطرناک انجام، ایران کے ساتھ جنگ کے ناقابل تصور نتائج
۔ اس وقت شام سب سے زیادہ مشتعل نقطہ ہے جہاں ہم نچلی سطح کی جنگ میں مصروف ہیں لیکن اس میں شدت آسکتی ہے کیونکہ اس وقت ہمہ جہت لڑائی اور ہمارے درمیان روس حائل ہے اور نیتن یاہو مسلسل کہے جارہے ہیں کہ "ہمارا مقصد ایران کو شام سے نکال باہر کرنا ہے"؛ اور دوسرے حکام بھی ان ہی کی بات کو دہراتے رہتے ہیں۔ جبکہ اس ہدف تک پہنچنا ہماری قوت سے خارج ہے اور اگر ہم اصرار کریں تو جنگ چھڑ سکتی ہے اور وہ ایک غیر مستحکم ماحول میں، اور وہ بھی ایسے ماحول میں جہاں ایرانی بھی موجود ہیں اور وہ حزب اللہ کے حامی ہیں؛ اور ترکی بھی اس جنگ میں شریک ہے۔ اس وقت روشوں کا تعین روسیوں کے ہاتھ میں ہیں؛ اس لئے کہ وہ اس میدان کے تمام کھلاڑیوں کے ساتھ بات چیت کرسکتے ہیں؛ لیکن وہ ایرانیوں سے کچھ کہتے ہیں اور اسرائیلیوں سے کچھ۔ صرف ایک بات یقینی ہے اور وہ یہ کہ امریکہ اپنے فوجی دستے شام سے نکال رہا ہے، ایک ہلا دینے والا واقعہ رونما ہونے والا ہے: پہلی بار ایرانیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان عسکری تصادم کا امکان پیدا ہوا ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ صورت حال ہمہ جہت لڑائی میں بدل جائے۔  
۔کیا مطلب؟
مطلب یہ ہے کہ اگر حزب اللہ اس میدان میں اترے اور تل ابیب اور دوسرے شہری مراکز میں تباہی اور بربادی کا آغاز ہوجائے تو اس کی سطح بہت وسیع ہوگی، جس کی مثال اس سے پہلے ہم نے نہیں دیکھی ہے۔ ہمارے پاس حزب اللہ کو روکنے کے لئے کچھ بھی نہ ہوگا۔ صرف جواب دینے کا راستہ ہوگا۔ لیکن اگر بیروت تل ابیب کی بربادی کے بدلے میں تباہ ہوجائے، تو کیا اس سے کسی کو چین حاصل ہوسکے گا؟ لیکن جب اسرائیل اور حزب اللہ کی جنگ کا انجام کچھ ایسا ہو جس کی مثال گذشتہ تاریخ میں نہیں پائی جاتی تو اس صورت میں یقینا ایران اور اسرائیل کی براہ راست لڑائی کا انجام کچھ ایسا ہوگا جس کے بارے میں، میں سوچنا ہی نہیں چاہتا۔ اگرچہ بدقسمتی سے میں ایسے عہدوں پر فائز رہا ہوں جہاں مجھے اس کے بارے میں سوچنا پڑتا رہا ہے۔ اس کی ایک قابل اعتماد مثال ایران اور عراق کی آٹھ سالہ جنگ ہے جس میں 10 لاکھ افراد کام آئے۔

تزویری گہرائی، ایران کی تاریخ اور کینیڈین حکام کو ایرانی سفارتکار کا طعنہ
۔کیا اسرائیل ایران سے زیادہ طاقتور نہیں ہے؟
اہم بات یہ ہے کہ آپ کس چیز کو طاقت کا معیار سمجھتے ہیں؟ ایک کلیدی جملہ ہے جس کو "تزویری گہرائی Strategic Depth" کہتے ہیں۔ ایرانیوں نے حال ہی میں موجودہ کشمکش کے دوران اس جملے کو استعمال کیا ہے۔ ایک اعلی ایرانی اہلکار نے کہا کہ "یہودی ریاست کو سوچنا چاہئے کہ اس کی کوئی تزویری گہرائی نہیں ہے"۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ابتدائی اصولوں کی طرف جانا چاہئے۔ اسرائیل کے پاس عسکری طاقت ہے لیکن ایران کے پاس ایک عظیم جغرافیہ، آٹھ کروڑ کی آبادی اور کئی ہزار سالہ تاریخ ہے۔ ایران ایک تہذیب ہے۔ تل ابیب میں مقیم ایک کینیڈین سفیر نے ایک دفعہ میرے ساتھ بات چیت کے دوران کہا: ایک مرتبہ کینیڈا کی وزارت خارجہ کے حکام اور وہاں مقیم ایرانی سفیر کے درمیان ملاقات ہوئی تو ایرانی سفیر نے کمرے میں پڑے ہوئے قالین کی طرف اشارہ کیا اور کہا: "ایران ایک پارسی قالین ہے جس کے بُننے میں 5000 سال کا طویل عرصے لگا ہے جبکہ کینیڈا اس قالین پر پڑی ہوئی دھول کی باریک سی تہہ کی مانند ہے"۔
ایرانی ایک غرور آمیز وہم میں مبتلا ہیں، وہ عظمت رفتہ کے بارے میں سوچتے ہیں اور اب جبکہ علاقہ کمزور پڑ گیا ہے تو وہ محسوس کررہے ہیں کہ عظمت رفتہ کے احیاء کا امکان حاصل ہوا ہے؛ وہ جب اپنی تزویری حکمت عملیوں کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں تو ان کی حد نظر جبل الطارق تک پہنچتی ہے؛ اور یہ جو ہم ابھی تک احتیاط کررہے تھے کہ ایران کے ساتھ براہ راست لڑائی سے بچے رہیں، یہ ایک حادثاتی موضوع نہیں تھا بلکہ ایک دانشمندانہ پالیسی تھی اور دانشمندی یہ ہے کہ ہم پھر بھی محتاط رہیں، میں فکرمند ہوں کیونکہ مجھے محسوس ہورہا ہے کہ احتیاط برتنے میں ماضی جیسی سختگیری کا فقدان ہے۔

۔ لگتا ہے کہ اسرائیل کی رائے عامہ آپ سے متفق نہیں ہے، یہاں بہت سوں کا خیال ہے کہ اسرائیل بہت طاقتور ہے اور کوئی غیر متوقعہ واقعہ رونما نہیں ہوگا۔
غلط بات ہے؛ اگر آپ کو یاد ہو ایک دن وزیر اعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ سیکورٹی کابینہ کی نشست منعقد ہونے کو ہے، تو اس کے بعد پریشانی اور ذہنی و فکری افراتفری اور افواہوں نے پورے معاشرے کو گھیر لیا یہاں تک کہ ایک بیانیہ جاری ہوا اور اعلان ہوا کہ "فکرمندی کی ضرورت نہیں ہے، کوئی ناگوار حادثہ رونما نہيں ہوا ہے"۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہماری رائے عامہ مکمل طور پر ہوشیار ہے، اور جانتی ہے کہ ہماری حالت اچھی ہے لیکن اس حقیقت کا ادراک بھی رکھتی ہے کہ برف کی جس تہہ پر ہم آگے بڑھ رہے ہیں کس قدر نازک اور زد پذیر ہے"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

ایران کے ساتھ جنگ کا تصور اور بےخوابی
مکالمے کے ایک حصے میں اتزیون نے 2009 سے 2013 تک کے عرصے میں تل ابیب اور تہران کے درمیان جنگ کے امکان کے حوالے سے نیتن یاہو پر ضمنی تنقید کرتے ہوئے کہا: "میں نے اس موضوع پر بہت کام کیا ہے، اس وقت بھی جب میں قومی سلامتی کونسل میں تھا اور اس وقت بھی جب وزارت خارجہ میں تھا؛ ایسی کئی باتیں ہیں جن کے بارے میں، میں کچھ نہیں کہہ سکتا، اگر میری بیوی یہاں ہوتی تو وہ آپ سے کہہ دیتیں کہ کتنی راتیں ایسی گذریں جب میں سو ہی نہ سکا، اس لئے نہیں کہ میں اپنے دفتر میں کام کررہا تھا، بلکہ اس لئے کہ میں بہت زیادہ فکرمند تھا"۔
٭ آپ اس وقت کس چیز سے خوفزدہ تھے؟
میں بالواسطہ وضاحت کرتا ہوں۔ ایران کا مسئلہ ایک کلاسک مسئلہ ہے جس میں سفارتی اور عسکری شعبوں کے درمیان ہمآہنگی کی ضرورت ہے۔ ایک شہری اور ایک پیشہ ور شخص کے طور پر میرا مطالبہ یہ ہے کہ ریاست ان دونوں عناصر کے موقف کو عیاں کرے؛ لیکن ہماری ریاست سفارتی پہلو کو نمایاں نہیں کیا کرتی؛ اور اگر کبھی سفارتی پہلو کو نمایاں کرنا بھی چاہے تو اس کو توڑ مروڑ کر اور غیر پیشہ ورانہ انداز سے نمایاں کرے گی۔ اس میں شک نہیں ہے کہ سیاسی اور سفارتی شعبے بالکل ملے جلے شعبے ہیں۔ جو لوگ اس شعبے سے منسلک ہیں، ان کا تصور یہ ہے کہ گویا سفارتکاری کو سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اسے نہیں سمجھتے جس کے نتیجے میں معاشرے کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ زندگی اور موت سے متعلق موضوعات ہیں۔ ہم ابتداء ہی میں وزارت خارجہ میں اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ممکن ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان کسی وقت مفاہمت ہوجائے اور اس سلسلے میں زیادہ بحث و تمحیص غیر مقید ہے۔ لیکن کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ آپ کسی بات کو سمجھ لیں لیکن سیاسی شعبے کی حمایت حاصل نہ کرسکیں؟

۔۔۔۔۔۔۔

"بڑی ڈیل" سے ایٹمی معاہدے تک
اتزیون نے اس مکالمے میں ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے اور ایران کی طرف سے ایٹم بم کے حصول کی کوششوں اور تل ابیب پر ایٹمی حملے جیسے موضوعات کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ یہ سب محض ایک سیاسی نعرہ ہے، اور حتی اگر ایران کے پاس ایٹم بم ہو بھی، وہ اسے استعمال نہیں کرے گا۔
نیتن یاہو ایٹمی معاہدے کو ایک بری مفاہمت کا نام دیتے ہیں اور اتزیون اس بارے میں کہتے ہیں: میرے خیال میں بھی اور ماہرین کی اکثریت کے خیال میں بھی یہ بری مفاہمت نہیں ہے۔ نیتن یاہو نے اس کے اوپر برے معاہدے کا لیبل چسپاں کیا اور کہا کہ "عدم مفاہمت ایک بری مفاہمت سے بہتر ہے"، اور انھوں نے اس کے خلاف محاذ آرائی شروع کردی؛ اور ہاں! ایسا کوئی بھی "اچھا معاہدہ" جس کے تحت ایران نے اپنی پوری ایٹمی صلاحیت کو ایک طرف رکھ لے اور جوہری مطالعات کے تمام مراکز کو بند کرے، اصولی طور پر ممکن ہی نہیں ہے۔

۔ دوسرے مسائل بھی تو ہیں، علاقے میں ایران کی عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی حمایت وغیرہ!
ایران کے بارے میں کئی عناصر پر غور کیا جاسکتا ہے: جوہری عنصر، علاقے میں دہشت گردی اور تخریبی کاروائیوں کا عنصر، میزائل ٹیکنالوجی کا عنصر، ائیڈیالوجی ـ تھیالوجی ـ نظریاتی، عنصر؛ تصور یہ تھا کہ ایک وسیع محاذ میں ایران کا سامنا کیا جاسکتا ہے اور کرنا بھی چاہئے اور ایرانیوں کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کرنا چاہئے۔ اس روش کو ایک بڑی ڈیل (grand bargain) کا نام دیا گیا تھا۔ جس کے تحت ہم تمام موضوعات پر بحث کرتے اور مفاہمت تک پہنچتے اور اسی دائرے میں ایران کے نظام حکومت کی مشروعیت (Legitimacy) کو تسلیم کرتے۔ طویل عرصے سے ایرانیوں کی بڑی فکرمندی ـ جو ان کے خیال میں جائز بھی تھی ـ نظام کی تبدیلی کی کوششوں سے عبارت ہیں۔ ان کو اس سے قبل بھی ایسے تجربے سے گذرنا پڑا ہے چنانچہ وہ حق بجانب ہیں۔
۔ تو پھر اس معاہدے میں ایسی خصوصیت کیوں نہیں ہے؟
بڑی ڈیل کا تصور کئی برس پہلے، 2003 میں ایرانیوں اور یورپیوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے آغاز پر سامنے آیا لیکن اس حساس مرحلے میں، جب شاید اس کی سمت بڑھنا ممکن تھا، لیکن اسرائیلیوں نے بھی اور امریکیوں نے بھی اس کو مسترد کیا۔ انھوں نے کہا کہ ان تمام موضوعات کے درمیان ایک اہم اور حیاتی موضوع پایا جاتا ہے جو کہ جوہری مسئلہ ہے جبکہ باقی موضوعات کو ملتوی رکھا جاسکتا ہے۔

۔ کون سے اسرائیلی؟
نتین یاہو بھی اور ریاستی اداروں میں موجود دوسرے افراد بھی۔ یہ بجائے خود ایک معقول رویہ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ آپ چاہتے تھے وہ انجام پائے اور پھر آپ اٹھ کر موقف تبدیل کریں اور چیخیں چلائیں کہ تو میزائلوں کا مسئلہ کیا ہوا، دہشت گردی کا مسئلہ کیا ہوا، اور یہ کہ یہ ساری باتیں معاہدے میں کیوں نہیں ہیں؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔

نیتن یاہو کا ورثہ
اتزیون نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو (Mike Pompeo) کے ایران سے 12 نکاتی مطالبات پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: ایٹمی معاہدے کے خلاف زہر اگلنے سے سابق صدر بارک اوباما کی کارکردگی کو برباد کرنا مقصود تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو اپنی سیاسی زندگی میں ایک بھی بیرونی معاہدہ منعقد نہیں کرسکے ہیں۔ انھوں نے کہا: بنیامین نیتن یاہو اور دوسرے اسرائیلی سیاستدان کی حیثیت اتنی نہیں ہے کہ وہ امریکہ کو کسی مفاہمت کی خصوصیات کے تعین کے بارے میں نصیحت کرسکیں۔

۔ نیتن یاہو کیا چاہتے ہیں اور اس کا ورثہ کیا ہوگا؟
ان کی سب سے پہلی خواہش یہ ہے اوسلو معاہدوں کو سپرد خاک کیا جائے اور فلسطینی حکومت کے قیام کے تصور کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ وہ اس مقصد میں کافی حد تک کامیابی بھی ہوئے ہیں۔ ان کی دوسری اہم خواہش یہ ہے کہ ممتاز اور اہم افراد اور دانشوروں کو دیوار سے لگایا جائے، اور اس سلسلے میں کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں، اور تیسری چیز، ایران کا مسئلہ ہے، اور میرا خیال ہے کہ وہ اس سلسلے میں خوش قسمت ہیں کیونکہ امریکہ میں ٹرمپ صدر بنے، ان کا ورثہ ان کے اپنے خیال میں، ایک سنجیدہ شکست ہے۔

۔ یہودی ریاست میں کون سا وزیر ا‏عظم دوسروں کے ساتھ تعاون کے درپے تھا؟
صہیونی ریاست کا سیاسی نظام معیوب اور ناقص ہے اور اس کے اندر باہمی تعاون کا جذبہ ناپید ہے۔ اس ریاست کا کوئی بھی وزیر اعظم دوسروں کے ساتھ تعاون کا قائل نہيں تھا۔ یہ ہمارے مسائل میں ایک اہم عنصر ہے۔ ہمارا ریاستی نظام باہم تعاون اور دوسروں کی طرف توجہ دینے کے تصور کی حمایت نہیں کرتا۔ بہت سے مواقع پر بہت سے کام صرف دستاویزات مرتب کرنے کے لئے انجام پاتے ہیں اور عام طور پر سب آپس میں پیشہ ورانہ رشک و حسد میں مصروف ہیں؛ فوج اور سلامتی کونسل کے درمیان ایک قسم کا منفی مقابلہ پایا جاتا ہے، بیرونی جاسوسی ادارے موساد اور اندرونی جاسوسی ادارے شین بیت (یا شاباک) کے درمیان پیشہ ورانہ تنازعات پائے جاتے ہیں اور یہ سب مل کر کبھی بھی کسی تزویری حکمت عملی یا مشترکہ نقطہ نظر تک نہیں پہنچ پاتے۔

۔ تو پھر فیصلہ سازی کا کام کہاں ہوتا ہے؟
وزير اعظم اور ان کے قابل اعتماد ایک یا دو افراد مل کر فیصلہ سازی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آریل شیرون کا مشیر اپنے دور کا اٹارنی ڈاؤ ویسگلاس (Dov Weissglass) تھا؛ ایہود اولمرٹ کا دایاں ہاتھ اور ان کے دور کا اٹارنی یورام ٹربو ویکز (Yuram Turbowics) تھا۔ نیتن یاہو کے سلسلے میں یہ سوال اور بھی دلچسپ ہے، کیونکہ میں نہیں سمجھتا کہ آج ان کے ساتھ کوئی خاص آدمی ہو۔ ہمارے وزیر ا‏عظم سیکورٹی کیبنٹ کے اجلاس اس وقت منعقد کرتے ہیں جب تمام شرکاء ان اجلاسوں کے نتائج سے آگاہ ہوتے ہیں اور فیصلہ پہلے سے ہوچکا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں مختلف قسموں کی نشستیں وزرائے اعظم کی طرف سے منعقد ہوتی ہیں جن میں وہ خود فیصلہ کرتے ہیں کہ کون ان نشستوں میں شرکت کرے اور کون شرکت نہ کرے۔ وہ ان نشستوں کو "سلامتی کے سلسلے میں مشاورت" کا نام دیتے ہیں؛ لیکن درحقیقت یہ ایک خفیہ کوڈ ہے اس کے لئے کہ "آیئے سفارتکاری اور پالیسی سازی کے بارے میں بات چیت کریں، جبکہ ان نشستوں میں وزارت خارجہ کو بلایا ہی نہیں جاتا"۔

۔ایسا کیوں ہے؟
کیونکہ وہ وزارت خارجہ کو نہیں چاہتے۔ وہ ہم پر اعتماد نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں وزارت خارجہ ایسے ادارے کا نام ہے جس کے پاس بحث میں کچھ بولنے کے لئے نہیں ہوتا۔ وزارت خارجہ کے شعبے کو دوسروں کے حق میں ضبط کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم روزافزوں طور پر، وزارت دفاع کے "سیاسی ـ عسکری ونگ" ـ جو کہ اردن ـ اسرائیل تعلقات کی نگرانی بھی کرتا ہے ـ کے ذریعے ریاست کی سفارتی سرگرمیوں کو بھی اپنے ہاتھ میں لے چکی ہے۔ موساد (Mossad) بھی ـ جو اس سے پہلے بھورے حصے (Gray zone) میں رہتی تھی ـ اب محسوس کرتی ہے کہ اسے زیادہ آزادیاں ملی ہیں۔ وزارت خارجہ پر نہ صرف معلومات فاش نہ کرنے کے حوالے سے کسی قسم کا اعتماد نہیں پایا جاتا، بلکہ اس وزارت خانے کو افشائے راز کا مرکز اور بائیں بازو سے وابستہ افراد کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔

۔ کیا یہ تصور درست ہے؟
ہر تصور اور تاثر کی طرح، یہاں بھی کسی حد تک سچائی پائی جاتی ہے لیکن آخر کار پیشہ ورانہ اخلاق کا رجحان وزارت خارجہ میں ہر دوسرے رجحان سے زیادہ طاقتور ہے۔ اعتدال پسندی اور تدبیر کو بائیں بازو سے وابستگی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ میں خود شاہد ہوں کہ ایک ثابت رجحان جاری و ساری ہے۔ جب ایک طرف سے جنگ کی طرف جانے کی کوشش ہورہی ہو اور دوسری طرف سے بڑے اخراجات برداشت کرکے، سفارتی روشوں اور مفاہمتوں کے ذریعے جنگ کے سد باب کی کوششیں ہورہی ہوں،  یہودی ریاست کے تمام وزرائے اعظم اور ان کے وزراء نے جنگ کو ترجیح دی ہے کیونکہ جنگ کے سیاسی اخراجات کم ہیں۔ بہت سے مواقع پر ہم جنگ کا آغاز کرتے ہیں، اس کے لئے اخراجات برداشت کرتے ہیں اور جانی اور مالی نقصان اٹھاتے ہیں، لیکن آخرکار ایسے نتیجے تک پہنچتے ہیں جس کو خونریزی کے بغیر بھی حاصل کیا جاسکتا تھا۔ اس طرح کی کاروائیاں ہم غزہ میں کرتے ہیں اور آخرکار حماس کے ساتھ مفاہمت پر آمادہ ہوجاتے ہیں، اگرچہ ہم اس طرح کی کسی مفاہمت کو جھٹلا دیتے ہیں۔ یہ مسئلہ لبنان اور حزب اللہ کے بارے میں بھی صادق ہے، ایران کی حدود پر یلغار کے سلسلے میں بھی صادق ہے، اگرچہ میں مانتا ہوں کہ یہ مؤخرالذکر مسئلہ بہت زیادہ پیچیدہ اور زیادہ دشوار ہے۔ ہم ان مفاہمتوں کو جنگ سے پہلے قبول کرسکتے تھے لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔
۔۔۔۔۔۔

ایرانی صابر اور حلیم ہیں
۔ امریکہ کے لئے ٹرمپ کی صدارت کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ درست نہیں ہے۔ وہ سفارتکاری اور سلامتی سے متعلق امریکی اداروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں وہ ان اداروں کو تباہ کررہے ہیں۔ میں آج بھی امریکی وزارت خارجہ، ایف بی آئی اور سی آئی اے کے کارکنوں کے ساتھ بات چیت کرتا ہوں۔ ٹرمپ نہایت منظم طریقے اور بےرحمی کے ساتھ ان اداروں کو نابود کر رہے ہیں۔ کچھ افراد کو برخاست کرتے ہیں، کچھ کو جانے پر مجبور کرتے ہیں، سفارت کی سطح کے متعدد عہدے، نیز وزارت خارجہ کے اعلی عہدوں کو ٹرمپ نے خالی چھوڑ کردیا ہے۔

۔ بہت سے اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ ہمارے لئے اچھے صدر ہیں۔
لگتا ہے کہ اسرائیل واحد ریاست ہے جہاں ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ منتخب ہوسکتے ہیں۔ یہ مسئلہ ہمارے لئے ایک پیغام کا حامل ہے اور افسوس ہے کہ ہماری حکومت کس حد تک ریاست پر مسلط تفکرات کو اپنے قابو میں لائے ہوئے ہے۔ جس قدر کہ اس ریاست میں اوباما کی بدنامی کے لئے کوششیں ہوتی تھیں، آج ٹرمپ کا چہرہ سجا کر اور مثبت کرکے دکھانے پر مرکوز کی گئی ہیں۔ ٹرمپ پر بنیامین نیتن یاہو اور صہیونی سرمایہ دار اور لیکوڈ پارٹی کا مالی سرپرست شیلڈن گرے ایڈلسن (Sheldon Gray Adelson) جیسے لوگوں کے گہرے اثرات ہیں اور یہ موضوع امریکی صدارتی انتخابات میں بھی واضح و آشکار تھا۔

۔ اوباما کے بارے میں آپ کی رائے؟
اوباما تل ابیب کی سیکورٹی ترجیحات کا بہتر ادراک رکھتے تھے۔ جبکہ ٹرمپ کے پاس کوئی خاص پروگرام نہیں ہے اور ایک اچھی مفاہمت تک پہنچنے سے عاجز ہیں۔ اور نتین یاہو کو توقع ہے کہ وہ بڑا کام ٹرمپ ہمارے لئے انجام دیں!

۔ یعنی ایران پر حملہ؟
جی ہاں، نیز وہ  امریکہ ہی سے شام اور فلسطینیوں کے مسئلے کے حل کی توقع بھی رکھتے ہیں۔

۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟
نہیں، کیونکہ ایرانی طویل عرصے کو مد نظر رکھ کر سوچتے ہیں اور اقدام کرتے ہیں۔ میری رائے کے مطابق، ایرانی سمجھتے ہیں کہ امریکی حکومت ایرانی حکومت سے بہت پہلے بدل جائے گی۔ اور ٹرمپ کے جانے کے ساتھ ہی ایک نئے کھیل کا آغاز ہوگا۔ وہ بہت صابر اور بردبار ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آخر کار ایک توازن برقرار ہوگا جس میں نہ تو ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ شام ہوگا اور نہ ہی ایرانی ایٹم بم بنائیں گے، ایرانی بہت ذہین ہیں اور ایسی بےوقوفی نہیں کرسکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔آپ کی قبل از وقت سبکدوشی کی وجہ کیا تھی؟
میں وزارت خارجہ میں تھا اور طے یہ تھا کہ مجھے واشنگٹن میں ریاست کے سفارتخانے کے دوسرے درجے کے اہلکار کی حیثیت سے متعین کیا جائے، میرے بچے بھی واشنگٹن کے اسکولوں میں داخل ہوئے تھے۔ لیکن میرے اور اس وقت کے وزیر خارجہ اور موجودہ وزیر جنگ آویگدور لیبرمین (Avigdor Lieberman) کے درمیان کچھ اختلافات کی بنا پر حالات بدل گئے۔ میں آپ کو ایک داستان سنا سکتا ہوں۔ درحقیقت دو واقعات مجھے یاد آرہے ہیں۔ پہلے واقعے میں اس وقت کے وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل آرون آبراموویچ (Aaron Abramovich) نے مجھے ہدایت کی کہ نئے وزیر خارجہ کو بریف کرنے کے لئے تیاری کروں۔ میں نے ایران کے بارے میں وزیر خارجہ کو بریف کرنے کی تیاری کرلی۔ میں ایک خفیہ لیپ ٹاپ لے کر پہنچا جس میں ایران کے سلسلے مین بریفنگ مرتب کی گئی تھی۔ اور ہر وہ بات اس میں موجود تھی جو کوئی بھی ایران کے بارے میں جاننا چاہتا تھا لیکن کوئی بھی ان کے بارے میں پوچھنے سے کتراتا تھا۔ ہم ایک کمرے میں بیٹھ گئے، جہاں چند ہی افراد موجود تھے۔ آرون نے کہا: ایرن اتزیون بریف کرتے ہیں۔ لیبرمین نے کہا: تمہارے پاس کہنے کو کچھ ہے؟ میں نے کہا: ایران کے سلسلے میں ایک مکمل منظرنامہ؛ لیبرمین نے کہا: مجھے اس کا کوئی شوق نہیں ہے اور ہماری یہ نشست یہیں ختم ہوئی، یہ ایک پیغام ہے، ایک نشانی ہے۔
کئی ہفتے بعد، وزارت خارجہ کے اعلی اہلکاروں کا مختصر سا اجتماع قدس شہر کے قدیمی حصے کے پاس بنے ہوئے شہر مامیلا کے ایک ہوٹل میں منعقد ہوا۔ لیبرمین نے ہماری طرف رخ کرکے کہا: مصر کے سلسلے میں اسرائیل کے کیا مفادات ہیں؟ اور میں نے ـ جو ممتاز رتبے کا حامل تعلیم یافتہ شخص تھا اور سلامتی کونسل سے آیا تھا، ـ ہاتھ اٹھایا اور کہا: "امن معاہدے کی پاسداری اور ۔۔۔" اور لیبرمین نے قہقہہ لگایا اور ہنستے ہنستے کہنے لگے: "اے لڑکے، کس قدر وابستہ ہو بائیں بازو سے تم!"، اور پھر میرے تمام دوست بھی ان کے ساتھ ہنسنے لگے۔ یہاں انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ وہ ایک ہی انتخاب کرسکتا ہے: یا تو ان کے ساتھ گھل مل جاؤ، یا پھر وہ تمہیں کھڈے لائن لگایا جائے گا۔ میں نے اس کے بعد کئی ممالک میں سفارت کا عہدہ سنبھالنے کی کوششیں کیں لیکن یہ لوگ رکاوٹ بنے، جس کے بعد مجھے واشنگٹن میں ناظم الامور کے عہدے کی پیشکش کی گئی۔ انھوں نے حتی واشنگٹن میں میری موجودگی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں بھی کیں۔

https://www.farsnews.com/news/13970417000449

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۱۰