اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : نیوز نور
ہفتہ

27 اگست 2016

5:28:09 PM
774863

تکفیریت کے بارے میں آیت اللہ گرامی کے ساتھ ایک گفتگو

آج تکفیری بھی اسی طرح کے جرائم کر رہے ہیں جیسے حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کرنا ،ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے ان کی کمسن بچی کا سر کاٹنا اور قتل کرنا اور طرح طرح کی ایذا رسانیوں کا ارتکاب کرنا کہ انسان جن کے بارے میں سن کر یا جن کی تصویروں کو دیکھ کر حیرت میں ڈوب جاتا ہے ۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ نیوزنور: حوزہ علمیہ قم کے ایک استاد حضرت آیت اللہ گرامی نے" تکفیریت شروع سے اب تک کے موضوع "کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے چند ایک سوالات کا کے جواب مندرجہ ذیل عبارت میں بیان فرمائے:

خوارج اور تکفیریوں کے وجود میں آنے کا اصلی سبب کیا ہے ؟

معمولا جھالت ہی خوارج کے وجود میں آنے کا اصلی ترین سبب ہے ،اور بنیادی طور اس گروہ کی بنیاد جہل پر پڑی ہے ۔

لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ خوارج کے سرداروں اور ان کے عام افراد کے درمیان فرق تھا ،اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عام افراد حقیقت سے جاہل ہوتے ہیں اور مسائل کی جانب متوجہ نہیں ہو پاتے  لیکن ان کے سردار نوعا نفسانی خواہشات اور میلانات ،اور دشمن کے کیے گئے مستقیم یا غیر مستقیم عہد کی بنا پر  جان بوجھ کر ایک مکتب و مسلک جیسے منصوبے پر کام کرتے ہیں ،تا کہ جاہل اور عام افراد جہالت کی بنا پر ان کی پیروی کریں ،اس لیے کہ حق و باطل کا مخلوط ہو جانا  اس فکر کی پیروی میں بہت موئثر ہے ۔

مخالفین کے ساتھ امیر المومنین علی علیہ السلام کی تین جنگیں ہوئی تھیں ان کے بارے میں مختصر طور پر بتائیے ؟

امیر المومنین علیہ السلام کے دور میں جمل صفین اور نھروان کی تین جنگیں ہوئیں ،جنگ جمل میں اگر چہ ایک طرف پیغمبر   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ  حضرت عائشہ تھی جس کی اپنی ایک اجتماعی پوزیشن تھی ،اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو اہم صحابی طلحہ و زبیر تھے ،مگر پھر بھی وہ حضرت امیر علیہ السلام کی کامیابی پر ختم ہوئی ؛ جنگ صفین میں ،عمرو بن عاص کی قرآن کو نیزوں پر بلند کرنے ،اور حق و باطل کو مشتبہ بنا دینے کی شیطانی چال کی بنا پر شامات کے علاقے امام علیہ السلام کی مرکزی حکومت سے الگ ہو گئے ؛ لیکن جنگ نھروان میں اس چیز کے پیش نظر کہ یہ لوگ پہلے والے دو جماعتوں سے مختلف تھے ،حضرت نے کچھ لوگوں کو بھیجا کہ خوارج کے ساتھ بات کریں ،لیکن اس بنا پر کہ یہ لوگ معاویہ کے ساتھ صلح کے بعد اپنے علاوہ سب کو کافر قرار دینے لگے تھے ،انہوں نے درندگی کا مظاہرہ کیا اور حضرت کے سفیر کو قتل کر دیا ۔

۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ تکفیری اپنے مقاصد کے لیے توحیدی نعروں سے استفادہ کرتے ہیں ،کیا وہ عملی طور پر بھی ان نعروں کے پابند ہیں ؟

خوارج کا "لا حکم الا للہ "کا نعرہ حق پسندانہ نعرہ تھا اور یہ نعرہ لوگوں کے  مذہبی ذوق کے ساتھ سازگار ہے لیکن یہ جماعت عملی طور پر قساوت کو اس حد تک پہنچاتا ہے کہ انسان اس کو سن کر حیران رہ جاتا ہے،مثلا ایک جگہ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک صحابی ان کےمحاصرے میں آگیا تو اس کی حاملہ بیوی کے شکم کو پارہ کیا اور اس کے فرزند کو باہر نکال کر اس کو مار دیا ۔دوسری جگہ ان کے اپنے ایک آدمی نے جب کسی کے باغ کے ایک درخت کا پھل توڑنا چاہا کہ جو دیوار سے باہر لٹکا ہوا تھا اور اس کا شمار راستہ چلنے والوں کے حق میں ہوتا تھا تو اس پر انہوں نے اعتراض کر دیا ۔

ایک جگہ بے گناہ لوگوں کا خون بہاتے ہیں اور دوسری جگہ اس درخت کا پھل کھانے سے روکتے ہیں جو راستے میں ہوتا ہے ۔

لہذا جب حضرت علی علیہ السلام نے اس گروہ کی جانب سے افراط و تفریط کو دیکھا تو پہلے ان کو حق کی جانب دعوت دی ،اور جب سب پر عیاں ہو گیا کہ حق کی دعوت کا خوارج پر کوئی اثر نہیں ہوتا تو آپ نے سب کو شمشیر کے گھاٹ اتار دیا ؛اس کے بعد فرمایا " «أیُّها الناسُ! فَإنّی فَقَأتُ عَینَ الفِتنَه ولَم یَکُن لِیَجَتَرئَ عَلَیها اَحَدٌ غَیْری بَعدَ أن ماجَ غَیْهَبُها وَاشْتَدَّ کَلَبُها» " اے لوگو !یہ میں تھا کہ جس نے فتنے کی آنکھ نکالی اور میرے علاوہ کوئی اس کام کی جراءت نہیں رکھتا تھا ،اس وقت کہ جب فتنے کی تاریک موجیں ہر جگہ پہنچ چکی تھیں اور شدت کی آخری حد کو چھو رہی تھیں ،۔

آج کے تکفیریوں کے بارے میں آپ کی کیا تحلیل ہے ؟

آج تکفیری بھی اسی طرح کے جرائم کر رہے ہیں جیسے حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کرنا ،ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے ان کی کمسن بچی کا سر کاٹنا اور قتل کرنا اور طرح طرح کی ایذا رسانیوں کا ارتکاب کرنا کہ انسان جن کے بارے میں سن کر یا جن کی تصویروں کو دیکھ کر حیرت میں ڈوب جاتا ہے ۔

اس کے باوجود اس تکفیری گروہ کے سعودی عرب  اور قطر کے سرغنے اپنی مالی حمایت کے ذریعے اور امریکہ کے حکم سے فتنہ ایجاد کرنے کے لیے ان کی رہنمائی کرتے ہیں ۔

تکفیری بظاہر حق پرستی پر مبنی توحیدی نعرے کے  ساتھ کہ ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کو یکتا پرستی کی دعوت دیں ،غیر انسانی جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور اپنے علاوہ سب کو کافر مانتے ہیں ،بعض تکفیریوں نے ہماری سائٹ پر پیغام چھوڑا تھا کہ تم آئمہء کفر میں سے ہو !توبہ کرو ! اور لوگوں کو اہل بیت پرستی سے خدا پرستی کی جانب موڑو !

بعینہ یہی جملہ تھا کہ جو انہوں نے ہماری سائٹ پر مجھے خطاب کرتے ہوئے لکھا تھا ،اس گروہ کے جواب میں میرا کہنا ہے : کوئی شیعہ بھی اہل بیت ع کی پرستش نہیں کرتا ،بلکہ اہل بیت ع کو واسطہ قرار دیتے ہیں چونکہ اہل بیت علیھم السلام واسطہء خیر ہیں اس باپ کی مانند کہ جو اپنے فرزند کے لیے واسطہء خیر ہوتا ہے ،البتہ اس مسئلے کی قرآنی دلیل بھی ہے ۔

سورہء توبہ میں خدا وند عالم فرماتا ہے : «وَ هَمُّوا بِما لَمْ ینالُوا وَ ما نَقَمُوا إِلاَّ أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ؛ توبه 74» خدا نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے نیاز کیا ہے ؛ یعنی بے نیازی  اور فقر اور مشکلات کی برطرفی کو خدا کی طرف نسبت دینے کے ساتھ پیغمبر کی طرف بھی نسبت دی ہے ،اور یہ چیز توحید سے منافات نہیں رکھتی ؛ خدا کی طرف نسبت ذات کی طرف نسبت ہے اور پیغمبر کی طرف نسبت واسطہء وجودی کے اعتبار سے ہے ۔

ان کی غرض پرستی اور جھالت قرآن کریم کے الفاظ میں ہے کہ ؛ «وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذینَ أُوتُوا الْکتابَ إِلاَّ مِنْ بَعْدِ ما جاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْیاً بَینَهُمْ وَ مَنْ یکفُرْ بِآیاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَریعُ الْحِسابِ؛ آل عمران 19» ۔

وہ اختلاف کہ جو اہل کتاب نے پیدا کیا وہ عالمانہ اور بغاوت اور ظلم کی بناپر تھا ،یعنی انہوں نے یہ فتنہ جان بوجھ کر بر پا کیا «أُوتُوا الْکتابَ» یعنی ان کے علماء جو سمجھتے ہیں ،یہ بھی سمجھتے ہیں لیکن جان بوجھ کر ایسا کام کرتے ہیں ۔

اس دعوے کا گواہ وہ جھوٹ کی نسبت ہے جو شیعوں پر لگائی جاتی ہے ؛کچھ ہی عرصہ پہلے تک وہ یہ کہتے تھے کہ شیعوں کا قرآن اہل سنت کے قرآن کے علاوہ ہے ۔حال ہی میں کسی نے مصر کے الازہر کے مفتی سے پوچھا تھا ؛ شیعوں کے قرآن اور ہمارے قرآن میں فرق ہے ،تو وہ جواب دیتا ہے کہ جس قدر میں نے دیکھا ہے ان کا قرآن بھی یہی ہے اور ہمارے قرآن سے الگ نہیں ہے ۔

مفتی الازہر آگے کہتا ہے : جس طرح فقہ مالکی ، حنبلی ،شافعی اور حنفی ،مذاہب کے فرقے شمار ہوتے ہیں اسی طرح فقہ جعفری پر عمل کرنا بھی کافی ہے ۔

ابن تیمیہ کی طرف سے جو تہمتیں شیعوں پر لگائی گئی ہیں وہ جھوٹ اور فریب تھیں اور شیعوں کو کچلنے اور نابود کرنے کے لیے تھیں ۔

کیوں تکفیری یہ چاہتے ہیں کہ شیعہ نابود ہو جائیں ؟ !

چونکہ اسلام کی حقیقت شیعیت ہے اور اگر اہل بیت علیھم السلام کو لوگوں سے لے لیا جائے ،تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رابطے کا کوئی راستہ نہیں بچے گا ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت اور انحراف  خلافت کے بعد وہ صحابہ جو باقی رہ گئے تھے ،وہ حکومتوں کے ڈرانے دھمکانے یا لالچ دلانے سے ،یا حدیث نقل کرنے کا حق نہیں رکھتے تھے ،یا حکومتوں کے حکم کے مطابق حدیثیں جعل کرتے تھے ؛ بہت کم لوگ جو حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ رہ گئے تھے وہ کچھ نہیں کر پاتے تھے ؛ وہ فقہ کہ دوسرے فرقے جس پر عمل کر رہے ہیں (جو دوسری صدی میں تشکیل پائی ہے ) انہیں چاہیے کہ وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کریں اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جوڑنے کا راستہ بھی رسول خدا کے معصوم فرزند ہیں ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی میری حکمت کا دروازہ ہیں ؛ کیا علی کو چھوڑ کر لوگوں کو ابو ہریرہ کے پیچھے جانا چاہیے تھا کہ خلیفہء دوم نے بھی جس پر اعتراض کیا اور کہا تھا : تم کتنی مدت تک پیغمبر( ص) کے ساتھ تھے کہ اس قدر حدیثیں نقل کرتے ہو ! ابو ہریرہ حدیثیں جعل کرنے میں معروف تھا ۔

سیوطی کی الدر المنثور میں تقریبا بیس ہزار حدیثیں ہیں کہ جن میں سے صرف چند حدیثیں ہیں کہ جو امام حسن ،اور امام حسین اور حضرت زہراء سلام اللہ علیھا سے ہیں ،کہا جاتا ہے کہ کل حدیثیں کہ جو سیوطی نے حسنین علیھم السلام سے نقل کی ہیں وہ پچاس بھی نہیں ہیں ،البتہ حضرت علی علیہ السلام سے اس نے زیادہ حدیثیں نقل کی ہیں لیکن دوسرے تمام صحابیوں سے نقل کی گئی حدیثوں کے مقابلے میں  انتہائی کم ہیں ۔

جب اہل سنت کی کتب رجالی کی جانب رجوع کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سارے صحابی کہ اہل سنت جن سے حدیث نقل کرتے ہیں وہ ضعیف ہیں ،اس سلسلے میں بہترین" «الافصاح عن احوال رواه الصحاح" ہے  کہ جس میں شیخ محمد رضا مظفر کے بھائی مرحوم شیخ محمد حسن مظفر نے ،اہل سنت کی رجال کی کتابوں میں صحاح ستہ کے راویوں کے حالات پر بحث کی ہے ،اور بعض راویوں کی عدم وثاقت یا عدم عدالت کو خود اہل سنت کے منابع کو سند قرار دیتے ہوئے ثابت کیا ہے ۔

انتہائی تعجب کا مقام ہے کہ کس طرح یہ لوگ نقل حدیث میں اہل بیت علیھم السلام کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔

جب بخاری سے پوچھا جاتا ہے کہ کیوں جعفر ابن محمد سے حدیث نقل نہیں کرتے ؟ وہ کہتا ہے کہ مجھے ان پر اطمئنان نہیں ہے !حالانکہ وہ بہت سارے ضعیف راویوں پر اعتماد کرتا ہے !

اب بھی یہ سوال باقی ہے کہ اہل سنت کے عبادات و معاملات کس شرع کی بنیاد پر ہیں ؛ خدا وند متعال فرماتا ہے : «وَ ما آتاکمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ؛ حشر آیه 7» اور پیغمبر نے بھی حدیث متواتر ثقلین میں لوگوں کو حکم دیا ہے کہ ان کے بعد قرآن اور ان کے اہل بیت کی جانب رجوع کریں : «إنّی تارک فیکم الثّقلین کتاب اللَّه و عترتی أهل بیتی ما إن تمسّکتم بهما لن تضلّوا أبدا فإنّهما لن یفترقا حتّی یردا علیّ الحوض؛ سنن دارمی، ج 2، ص 432- مسند احمد حنبل، ج 3، ص 14 و 17 و 59- الغدیر علّامه امینی مجلّدات 1 و 2 و 3.»

اس حکم کے مطابق ہم شرعی احکام میں پیغمبر اکرم کی عترت کے اقوال پر عمل کرتے ہیں ؛ شیعہ پیغمبر کے معصوم اہل بیت کو خدا نہیں مانتے ؛ شیعہ ان افراد کو کہ جو حلول کے معتقد ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا کی روح نے ان کے اندر حلول کیا ہے مسلمان نہیں مانتے ۔

حالانکہ بہت سارے علمائے اہل سنت اس مسئلے کو مانتے ہیں لیکن پھر بھی اہل بیت کی مخالفت کرتے ہیں ۔

کیا یہ ممکن ہے کہ مشہور گروہ داعش کے سردار لوگ کہ جو شیعوں کے عقیدے کا مقابلہ کرتے ہیں وہ ان باتوں کو نہ جانتے ہوں ، قطعا جانتے ہیں  مگر وہ عوام کی جہالت سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔

قرآن مجید سورہء نور کی آیت نمبر ۳۵ ؛ «اللَّهُ نُورُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ کمِشْکاةٍ فی‌ها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فی زُجاجَةٍ الزُّجاجَةُ کأَنَّها کوْکبٌ دُرِّی یوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبارَکةٍ زَیتُونَةٍ لا شَرْقِیةٍ وَ لا غَرْبِیةٍ یکادُ زَیتُها یضی‌ءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نارٌ نُورٌ عَلی نُورٍ یهْدِی اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ یشاءُ وَ یضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثالَ لِلنَّاسِ وَ اللَّهُ بِکلِّ شَی‌ءٍ عَلیمٌ» می‌فرماید: «فی بُیوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَ یذْکرَ فیها اسْمُهُ یسَبِّحُ لَهُ فیها بِالْغُدُوِّ وَ الْآصالِ؛ نور آیه 36»

 یہ روشن چراغ ان گھروں میں ہیں کہ خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کی دیواروں کو اونچا کریں ( تا کہ شیاطین اور ہوسبازوں کی دسترس سے محفوظ رہیں )وہ گھر کہ جن کے اندر خدا کا نام لیا جاتا ہے ،اور صبح و شام یہ ان گھروں میں اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ۔

اب سوال یہ ہے ؛ یہ گھر کون سے گھر ہیں ؟کیا یہ ابو حنیفہ کا گھر ہے ؟ جب قرآن نازل ہوا تو اس وقت ابو حنیفہ کا گھر تھا ہی نہیں ،یا احمد حنبل اور شافعی اور مالکی کا گھر ہے ؟ یا ابو ہریرہ جیسوں کا گھر ہے ؟

یہ کون سے گھر ہیں کہ خدا جن کے بارے میں صراحت کرتا ہے ،خدا نے چاہا ہے کہ یہ گھر محترم اور مہم رہیں ؟

یقینا یہ گھر اہل بیت کے گھر ہیں کہ خداوند عالم نے آیہء تطھیر کے بموجب ان کو پاک کیا ہے ،لیکن بد قسمتی سے یہ لوگ متوجہ نہیں ہیں اور اس کا اہم گواہ وہ مالی حمایت ہے کہ جو امریکہ کے حکم سے قطر اور سعودی عرب کی جانب سے ان کی ہو رہی ہے تا کہ یہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ایجاد کریں ۔

نفسانی خواہشات خوارج کی بنیاد ،

اس بنا پر خوارج کی بنیاد نفسانی خواہشات اور تمتعات ہیں کہ جو اپنے رئیسوں کے علم و عمد اور عوام کی جہالت کی بنا پر حق و باطل میں آمیزش کر کے وجود میں آئے ہیں ،جیسا کہ حضرت نے نھج البلاغہ میں فرمایا ہے : «وَ إِنَّمَا سُمِّیتِ الشُّبْهَةُ شُبْهَةً لِأَنَّهَا تُشْبِهُ الْحَقَّ فَأَمَّا أَوْلِیاءُ اللَّهِ فَضِیاؤُهُمْ فی‌ها الْیقِینُ وَ دَلِیلُهُمْ سَمْتُ الْهُدَی وَ أَمَّا أَعْدَاءُ اللَّهِ فَدُعَاؤُهُمْ فی‌ها الضَّلَالُ وَ دَلِیلُهُمُ الْعَمَی فَمَا ینْجُو مِنَ الْمَوْتِ مَنْ خَافَهُ وَ لَا یعْطَی الْبَقَاءَ مَنْ أَحَبَّه؛ خطبه 38 نهج‌البلاغه»

 اگر حق کو باطل سے الگ کر کے دکھایا جائے تو وہ ہر گز اکیلا نہیں پڑے گا اور اگر باطل کو واضح طور پر دکھایا جائے تو کوئی اس کی پیروی نہیں کرے گا ،لیکن جب حق اور باطل کو مخلوط کر دیتے ہیں تو کچھ لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں اور ان کی پیروی کرنے لگتے ہیں ۔

یہ کہنا پڑے گا کہ تارخ دہرائی جا رہی ہےاور حضرت علی علیہ السلام کے دور کے خوارج ابھی تک باقی ہیں امام حسن علیہ السلام کی صلح کو وجود میں لانے میں خوارج مقصر تھے ،اور واقعہء عاشوراء میں بھی اس تفکر کے حامل افراد نے امامت کی مرکزیت کے خلاف بغاوت کی تھی ؛اگر چہ تاریخ میں خوارج کا عقیدہ کمزور پڑ گیا لیکن بالکل ختم نہیں ہوا ۔

 آج تکفیری عقیدہ دوبارہ زندہ ہو گیا ہے اور وہ پوری شدت کے ساتھ مشاہد مشرفہ پر حملہ کرنے کے در پے ہیں ؛ کبھی اس گروہ کے حوالے سے نقل کیا جاتا ہے کہ کہتے ہیں کہ ہم بنی امیہ میں سے ہیں جو شیعی عقائد اور مشاہد مشرفہ کے خلاف ہیں اور ان مقامات خاص کر کربلا اور نجف پر ہم حملہ کریں گے ۔

تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس عقیدے کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں ۔

داعش کے کام کی بنیاد مکتب وھابیت ہے ،

داعش جیسوں کے کام کی بنیاد مکتب وھابیت ہے اور وھابیت نے بھی اپنی پوری زندگی میں وحشیانہ جرائم کیے ہیں اور انہوں نجف میں شیعوں کے مقامات اور کربلا میں حرم امام حسین علیہ السلام پر حملے کیے اور حرم کے خزانے کو لوٹ لیا ،نجد اور تھامہ میں حکومت کی تشکیل کے بعد وھابیت نے مکہ اور مدینے پر حملہ کیااور ان دو مقدس شہروں کا محاصرہ کر کے لوگوں کو تسلیم ہونے پر مجبور کیا ۔

ہم خدا وند متعال سے دعا کرتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کو حق اور باطل کی شناخت کی توفیق عنایت کرے تا کہ اس شناخت کے سائے میں یہ گروہ زیادہ سے زیادہ اکیلا پڑ جائے ۔

اس بحران کے مقابلے میں امت اسلامی کی ذمہ داری کیا ہے ؟

پہلے مرحل میں امت اسلامی ہمہ جانبہ ذرائع ابلاغ کی تبلیغ ،جیسے سیٹیلائٹ ،  ٹی وی اینٹرنیٹ ، اور پرینٹ میڈیا کے ذریعے حقائق کو اجاگر کرے ،اور اگر یہ گروہ اپنی جلادیت اور جرائم کے سلسلے کو جاری رکھے تو پوری طاقت کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا جائے ،اور یہ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ان مجرموں کے مقابلے پر اٹھ کھڑے ہوں ،چونکہ اس گروہ نے اصل اسلام کو نشانہ بنا رکھا ہے ۔

 میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی یہ کہے کہ میں پیغمبر کو مانتا ہوں لیکن پیغمبر کے تمام آثار مٹا دوں گا !؛ وھابیت کا اصلی مقصد پیغمبر کے آثار کے ساتھ مقابلہ ہے ۔

یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ کوئی یہ کہے کہ میں پیغمبر کو مانتا ہوں لیکن ان کے فرزندوں کو نہیں مانتا ؛ یہ باتیں خلفاء کے زمانے سے کہی جا رہی تھیں کہ جو ،کفانا کتاب اللہ کہتے تھے ۔

میں نے مدینے میں دانشکدہء الھیات کے طلاب کے مجمع میں کہا تھا : آپ کا جو یہ عقیدہ ہے کہ ان قبروں کو مسمار کر دیا جائے تو پیغمبر کی قبر پر آپ نے گنبد خضراء کو کیسے باقی رکھا ہے ؟جواب میں انہوں نے کہا : یہ گنبد مسجد سے متعلق ہے ! حالانکہ پیغمبر اکرم کا گنبد بالکل قبر کے اوپر ہے ۔ اگر چہ شروع میں وھابیت کا ارادہ تھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گنبد کو مسمار کریں لیکن اسلامی ملکوں کے دباو کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر سکے ۔

لہذا سب کی ذمہ داری ہے کہ جس وسیلے سے بھی ممکن ہو اس تکفیری گروہ کے مقابلے میں قیام کریں اور جتنی جلدی ہو سکے اس کو نابود کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲