اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : نیوز نور
منگل

23 ستمبر 2014

2:47:37 PM
639721

کیوں ایران نے امریکہ کی داعش کے خلاف متحدہ محاذ میں شرکت کی دعوت کو قبول نہیں کیا؟

امریکہ نے ایک لمبی خاموشی اور بے اعتنائی کے بعد ،داعش کے خلاف جنگ کو اپنے فوجی منصوبوں میں سر فہرست رکھ لیا ہے اور اس ملک کے صدر نے فیصلہ کر لیا ہے کہ داعش کے افراد کو نابود کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی اتحاد قائم کرے ۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ داعش کے خلاف امریکا کی سربراہی میں تشکیل پانے والا یہ اتحاد ایک ناکارہ اور ظاہری اتحاد ہے ،اور یہ زیادہ پایدار نہیں رہے گا ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکی کوشش کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ سے اجازت لیے بغیر شام میں مداخلت کریں ۔ایران اس سازش کے پیش نظر کہ جو اس اتحاد کے پس پردہ ہے اس اتحاد میں شرکت نہیں کرے گا ۔ اگر چہ امریکی سعودی عرب اور قطر کے دباو میں کوشاں ہیں کہ وہ یہ ظاہر کریں کہ وہ ایران کو اتحاد میں شامل ہونے کے لیے نہیں کہیں گے ۔
 امریکہ نے ایک لمبی خاموشی اور بے اعتنائی کے بعد ،داعش کے خلاف جنگ کو اپنے فوجی منصوبوں میں سر فہرست رکھ لیا ہے اور اس ملک کے صدر نے فیصلہ کر لیا ہے کہ داعش کے افراد کو نابود کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی اتحاد قائم کرے ۔

اوباما نے این بی سی کو ایک ٹی وی انٹرویو میں 7ستمبر بروز ایتوار، اپنی پالیسی کو داعش کو نابود یا کمزور کرنے پر متمرکز کر دیا ۔یہ ایسی صورت میں ہے کہ عراق کا سیاسی بحران داعش کی فوجی پیشقدمی کے ساتھ سخت ہو گیا ہے اور ایک بار پھر قومی اور مذہبی خواہشات کے بھنور میں گرفتار ہو گیا ہے ۔

 ابو بکر بغدادی کے دہشت گرد گروہ داعش کا مقابلہ کرنے کی تیاری کی ایجاد ،خاص کر شام میں امریکہ اور عرب ملکوں کے اس نعرے کے ہمراہ ہے کہ جو انہوں نے شام کی حکومت کے میانہ رو مخالفین کی حمایت کے تحت دیا ہے ،اور بعید معلوم ہوتا ہے کہ داعش کے خطرات کو ٹالنے کے لیے شام کی حکومت اس اتحاد کے تحت کوئی ذمہ داری قبول کرے گی ۔

جان کیری اور امریکہ کے دیگر حکام کی طرف سے دہشت گردی کےمقابلے میں ایران کے رول کے رنگ کو پھیکا دکھانے کے لیے ،اور جمہوریء اسلامیء ایران پر ان کے بیہودہ الزامات ایک ایسا موضوع ہے کہ جس کے اشتباہ پر مبنی ہونے کے بارے میں وہ خود واقف ہیں ،اور امریکہ کے بعض ذی صلاحیت افراد نے، گذشتہ ایک سال  میں کئی بار ،واشنگٹن کے مشرق وسطی کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے تہران کے ساتھ تعاون اور مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا تھا ۔

اسی عالم میں حالیہ دنوں میں، اور امریکہ کی سر پرستی میں داعش کے دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بین الاقوامی متحدہ محاذ کی تشکیل کے اعلان کے بعد ،ایران کے اس اتحاد میں شریک ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بڑے پیمانے پر بحثوں کا دور چلا ہے ،جب کہ یہ طے ہے کہ اس اتحاد میں ایران کی شرکت یا عدم شرکت سے ایران کے کارساز ہونے کی اہمیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔

موثق اطلاعات کی بنا پر کہ جو امریکی حکام کے مختلف آگاہ افراد کے ذرائع سے حاصل ہوئی ہیں کہ امریکہ والے مدت سے اس کوشش میں ہیں کہ داعش کے خلاف اس اتحاد میں ایران شرکت کرے ۔ یہاں تک کہ داعش کے بحران کی ابتدا سے ہی امریکیوں نے ایران کی مدد حاصل کرنے کے لیے ،دوسرے ملکوں میں ایران کے سفیروں کے ساتھ رابطے قائم کرنے کی بڑے پیمانے پر کوششیں کی تھیں ،اور اس ارتباط گیری کی کوششوں کو انہوں  نےسفیروں کی سطح سے اونچے افراد تک بھی پہونچایا تھا ،لیکن آخر کار وہ ایران کو ایک ایسے اتحاد میں شامل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے کہ جس کی مشروعیت کے بارے میں بھی اور داعش کے مقابلے میں جس کے کار آمد ہونے کے بارے میں بھی بحث و گفتگو کی گنجائش موجود ہے ۔

اس سلسلے میں ،مشرق وسطی کے مسائل کے کارشناس حسن ھانی زادہ نے تابناک کے ساتھ ایک گفتگو میں داعش کے خلاف بین الاقوامی متحدہ محاذ کی تشکیل کے اغراض و اسباب ،اور اسی طرح اس اتحاد میں ایران کے عدم حضور کی وجوہات کو بیان کیا ہے ۔

  کیوں ایران نے امریکہ کی داعش کے خلاف متحدہ محاذ میں شرکت کی دعوت کو قبول نہیں کیا ؟

ڈاکٹر صاحب ! دہشت گردی کا ایک نام کہ آج کل جس کا ذکر زباں زد ہر خاص و عام ہے ،دہشت گرد گروہ داعش ہے ۔آپ کی نظر میں کون سے اسباب داعش کی تشکیل اور اس کے پھیلاو کا باعث بنے ہیں ؟

 ۱۵مارچ ۲۰۱۱میں جب شام کا بحران شروع ہوا تو بعض دہشت گرد گروہ امریکہ ، برطانیہ ،اسرائیل اور سعودی عرب کے ذریعے وجود میں آئے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ شام کہ جو مقاومت کے محاذ پر سب سے آگے  ہے اور تہرا ن دمشق اور بیروت کی مثلث کا ایک حصہ ہے وہ ہمیشہ بڑی طاقتوں کے خشم کا نشانہ رہا ہے  ۔ مغربیوں کا احساس یہ تھا کہ وہ شام کی حکومت کو ایک مختصر سی مدت یعنی ۶ ماہ میں ختم کر دیں گے ۔بشار اسد کی سرنگونی کی مدت کا طولانی ہو نا باعث بنا کہ امریکی اور مغربیوں نے  داعش ، جبہۃ النصرہ اور آزاد فوج کی کاروائیوں کا دائرہ وسیع کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے داعش اور جبہۃ النصرہ اور شام کے مخالفین کی بڑے پیمانے پر مدد کی ۔

رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب اور قطر نے گذشتہ چالیس ماہ میں ،تقریبا ۳ کروڑ ۶۰ لاکھ ڈالر کی مالی امداد شام کے مخالف دہشت گردوں کو فراہم کی ہے ،اس مسئلے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی اور مغربی علاقے میں اپنے حلیف ملکوں کے ساتھ مل کر اس کوشش میں ہیں کہ شام کو مفلوج اور شام کی حکومت کو سرنگوں کر دیں ۔

بشار کی حکومت کو سر نگوں کرنے کے پیچھے امریکیوں کا کیا مقصد ہے ؟

مغربی یہ چاہتے ہیں کہ بشار کی حکومت کو سرنگوں کر کے ایک کٹھ پتلی نوعیت کی حکومت  بنائیں اور شام میں اپنا ایک دائمی مرکز بنا لیں ۔تہران ،دمشق اور بیروت کے حوالے سے شام کی اہمیت اور اسی طرح مقاومت اسلامی سے نزدیکی اور ان سب کے دریائی ٹھکانے کا وجود ،یہ سب ایسے مسائل تھے کہ جنہوں نے مغربیوں کو شام کے مقابلے میں لا کھڑا کیا !اس بنا پر انہوں نے داعش کی تقویت کی اور دنیا کے ۸۰ ملکوں سے تقریبا ۲۵ ہزار افراد داعش کے ساتھ جڑ گئے، اسی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بشار اسد کی سرنگونی کے لیے امریکیوں اور مغربیوں نے بہت سارا سیاسی ،قانونی اور مالی سرمایہ لگایا ہے ۔

کچھ ماہرین کا یہ عقیدہ ہے کہ عرب ممالک منجملہ سعودی عرب اور قطر نے ان گروہوں کی بھاری مقدار میں مدد کی ہے لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہی عرب ممالک داعش کے خلاف اتحاد میں شامل ہو گئے ہیں ۔آپ کی نظر میں اس کی وجہ کیا ہے ؟

اس وقت داعش ایک بد ترین دہشت گرد گروہ ہے کہ جس کے پاس نہایت پیچیدہ اور بڑی مقدار میں ہتھیار موجود ہیں اسی طرح اس کی نقل و حرکت کی طاقت بھی غیر معمولی ہے ۔

داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد ایک انتہائی گھناونا کھیل ہےکہ جو امریکیوں اور مغربیوں نے مقاومت کےخلاف شروع کیا ہے۔حقیقت میں داعش کی نقل و حرکت کی طاقت اتنی ہے کہ وہ سرعت کے ساتھ شام سے عراق منتقل ہو گئے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ شام کی حکومت اور فوج نے داعش کے خلاف جنگ کی ایسی حکمت عملی تیار کی تھی کہ جس کے بعد انہوں نے کوشش کی کہ داعش کو نابود کر دیا جائے ۔لہذا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس شکست کے پیش نظر جو داعش کو ہوئی ہے وہ عراق چلے گئے ۔داعش کا بڑا مقصد یہ ہے کہ عراق میں ایک اندرونی جنگ چھیڑ دے ۔اس مقصد کے لیے انہوں نے اسلامی چھوٹے مراکز پر حملے کیے اور اسی طرح مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا تا کہ عراق کے ٹکڑے کر سکے ۔

اس بین الاقوامی اتحاد کے پیچھے امریکہ کی حکمت عملی کیا ہے ؟

امریکہ کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ عراق  میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائے ۔لہذا داعش کا مذہبی اقلیتوں اور اسی طرح ایزدیوں  وغیرہ پر حملہ باعث بنا کہ امریکہ عراق میں اپنے نئے منصوبے کو شروع کرے ۔اس چیز نے عراق میں نئے حالات پیدا کر دیے ۔یعنی داعش کے مذہبی اقلیتوں پر حملے نے ایسے حالات پیدا کیے کہ پہلے تو اقلیم کردستان نے مستقیما کاروائی شروع کر دی ،اور امریکیوں اور مغرب والوں سے داعش کے مقابلے کے بہانے بھاری تعداد میں ہتھیار دریافت کیے ۔ یہ سب مسائل باعث بنے کہ امریکیوں اور مغربیوں نے سعودی عرب کی مدد سے ،اپنے چہرے کو سدھارنے اور اپنی حکمت عملی کے دوسرے حصے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک نئے اتحاد کو جنم دیا ۔

آپ کی نظر میں اس اتحاد کا اصلی مقصد کیا ہے ؟

مقصد یہ ہے کہ مغرب والے امریکہ کی رہبری میں  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اجازت لیے بغیر  شام میں داخل ہوں اور داعش پر ظاہری اور دکھاوے کے حملے کے ضمن میں شام کی حکومت کو سرنگوں کریں اور امریکہ کی کٹھ پتلی ایک حکومت شام میں قائم کریں ۔یہ امریکہ ہے کہ جو اس راستے سے ایک طرح سے کوشش کر رہا ہے کہ شام کی حکومت پر دباو ڈالے اور چند شہروں پر قبضہ کر کے اپنی کٹھ پتلی ایک حکومت شام میں قائم کرے ،اور بعد کے مرحلے میں عراق کو تین حصوں ،کرد نشین ،شیعہ نشین اور سنی نشین میں تقسیم کرے ۔

اس امر کے پیش نظر کہ  قائد انقلاب اسلامی حضرت امام خامنہ ای  نے کھل کر امریکہ کی رہبری میں اس بین الاقوامی اتحاد میں ایران کی شرکت کی نفی کی ہے ،آپ کی نظر میں ایران نے کن دلایل کی بنا پر ایسا کیا ہے ؟

یہ اتحاد ایک ناکارہ اور ظاہری اتحاد ہے ،اور یہ زیادہ پایدار نہیں رہے گا ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکی کوشش کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ سے اجازت لیے بغیر شام میں مداخلت کریں ۔ایران اس سازش کے پیش نظر کہ جو اس اتحاد کے پس پردہ ہے اس اتحاد میں شرکت نہیں کرے گا ۔ اگر چہ امریکی سعودی عرب اور قطر کے دباو میں کوشاں ہیں کہ وہ یہ ظاہر کریں کہ وہ ایران کو اتحاد میں شامل ہونے کے لیے نہیں کہیں گے ۔لیکن وہ اتحاد کہ جو عراق اور شام کی حکومت کی اجازت کے بغیر وجود میں آئے وہ ایک طرح سے امریکہ اور مغربی طاقتوں کا غاصبانہ قبضہ کہلائے گا اور ایران نہیں چاہتا کہ ان حکومتوں کے ہاتھوں کا کھلونہ بنے ،اسی لیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آیندہ چھ ماہ میں وہ شام کی حکومت پر زیادہ دباو ڈالیں گے اور بعد میں عراق کی تقسیم کے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنائیں گے ۔یہ بات قطعی ہے کہ امریکہ کی حکومت ،یا امریکی ڈیموکریٹ پارٹی والے آیندہ دو سال تک کہ جب او با ما کی حکومت ختم ہونے والی ہے  یہ چاہیں گے کہ اپنے کارنامے میں مشرق وسطی کو تبدیل کرنے کا ایک اور کارنامہ اضافہ کریں ۔اس وقت موضوع علاقے میں امریکی ڈھانچے کے مطابق مشرق وسطی کو ڈھالنا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲