اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
پیر

13 جنوری 2014

8:30:00 PM
496878

اسلامی اتحاد ولی امر مسلمین کی نظر میں

رسول اسلام(ص) کی ذات، شیعہ و سنی کے درمیان اتحاد کا مرکز

ہم یہ نہیں کہتے کہ دنیا کے اہل سنت حضرات آکر شیعہ ہو جائیں، یا دنیا کے شیعہ اپنے عقیدے سے دست بردار ہو جائیں۔ البتہ کوئی سنی یا کوئی دوسرا شخص تحقیق اور مطالعہ کرے اور پھر اس کے نتیجے میں وہ جو کوئی بھی عقیدہ اپنائے وہ اپنے عقیدے اور اپنی تحقیق کے مطابق عمل کر سکتا ہے۔ یہ اس کے اپنے اور اللہ تعالی کے بیچ کا معاملہ ہے۔ ہفتہ وحدت میں اور اتحاد کے پیغام کے طور پر ہمارا یہ کہنا ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب آکر اتحاد قائم کرنا چاہئے۔

اہلبیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی(رہ) نے بارہ سے سترہ ربیع الاول کے درمیانی ایام کو ہفتہ وحدت سے موسوم کیا اس کے بعد پورے عالم اسلام میں یہ ہفتہ، ’’ہفتہ وحدت‘‘ کے عنوان سے منایا جاتا ہے اور تمام عالم اسلام کو اس ہفتے میں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور پر عصر حاضر میں جب نہ صرف چاروں طرف سے مسلمانوں پر بوچھاڑ ہو رہی بلکہ اندورنی طور پر بھی مسلمانوں کو پاش پاش کر کے رکھ دیا گیا ہے خود مسلمانوں کے درمیان دشمنوں نے ایسے فرقے ایجاد کر دیے ہیں جو اسلام کے نام پر مسلمانوں کا گلہ کاٹ رہے ہیں جو شہادتین پڑھ کر شہادتین پڑھے والے کے گلے پر چھوری چلاتے ہیں ایسے میں آپسی اتحاد کی کتنی ضرورت ہے؟ آپسی بھائی چارگی کی کتنی ضرورت ہے؟ اس کو اسلام اور انسانیت کا درد رکھنے والا ہر مسلمان سمجھ سکتا ہے۔ مسلمانوں کے تمام فرقے اگر مرسل اعظم(ص) کی ذات مبارک کو مرکز اتحاد قرار دے کر تفرقہ کے عوامل سے مقابلہ کریں گے تو کامیابی بہت جلدی نصیب ہو گی لیکن اگر ایک دوسرے سے  دور دور رہ کر  دشمنان اسلام کا مقابلہ کرنے کی سوچیں گے تو کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے یہ بالکل واضح سی بات ہے۔تمام اسلامی رہنماوں کو چاہیے کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کریں بلکہ لوگوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے سے پہلے خود رہنماوں اور رہبروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونےکی ضرورت ہے اگر تمام رہنما ایک جگہ جمع ہو جائیں گے تو عوام خودبخود اکھٹا ہو جائیں گے اس کے بعد سب مل کر دشمنان اسلام کا مقابلہ باآسانی کر پائیں گے۔رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای دام ظلہ العالی کے بیانات میں اسلامی اتحاد کی اہمیت اور اس کا طریقہ کار بخوبی واضح ہے کہ آپ نے بھی امام راحل کے بعد ان کی سیرت کو اپنا نصب العین سمجھ کر تمام مسلمانوں کو ہمیشہ اتحاد اور یکجہتی کی دعوت دی اور نہ صرف زبانی دعوت دی بلکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے عملی طور پر بھی تمام مسلمانوں کے ساتھ دوستی اور اتحاد کا ہاتھ بڑھایا بلکہ تمام عدل پسند ممالک کے ساتھ دوستانہ روابط قائم کئے اور دنیا کے گوشے گوشے میں پائےجانے والے مظلوم کی حمایت کا اعلان کیا اور اس کی حمایت کی۔درج ذیل گفتگو رہبر انقلاب کے خطبات سے ماخوذ چند ایک بیانات ہیں جو انہوں نے تاہم مختلف مواقع پر اپنی تقاریر میں بیان فرمائے ہیں:ہفتہ وحدتاسلامی جمہوریہ نے عالم اسلام کو دعوت دی ہے کہ آئیے بارہ ربیع الاول سے سترہ ربیع الاول تک اتحاد کا تجربہ کریں۔ ایک روایت کے مطابق جسے اہل سنت کی اکثریت مانتی ہے اور بعض شیعہ بھی اسے قبول کرتے ہیں بارہ ربیع الاول پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یوم ولادت با سعادت ہے۔ دوسری روایت سترہ ربیع الاول کی ہے جسے شیعوں کی اکثریت اور سنیوں میں بعض لوگ مانتے ہیں۔ بہرحال بارہ سے سترہ ربیع الاول تک جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے ایام ہیں عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی پر زیادہ توجہ دی جانی چاہئے۔ یہ مستحکم حصار اور مضبوط قلعہ اگر تعمیر کر لیا جائے تو کوئی بھی طاقت اسلامی ملکوں اور قوموں کی حدود میں قدم رکھنے کی جرئت نہیں کر سکے گی۔ہم یہ نہیں کہتے کہ دنیا کے اہل سنت حضرات آکر شیعہ ہو جائیں، یا دنیا کے شیعہ اپنے عقیدے سے دست بردار ہو جائیں۔ البتہ کوئی سنی یا کوئی دوسرا شخص تحقیق اور مطالعہ کرے اور پھر اس کے نتیجے میں وہ جو کوئی بھی عقیدہ اپنائے وہ اپنے عقیدے اور اپنی تحقیق کے مطابق عمل کر سکتا ہے۔ یہ اس کے اپنے اور اللہ تعالی کے بیچ کا معاملہ ہے۔ ہفتہ اتحاد میں اور اتحاد کے پیغام کے طور پر ہمارا یہ کہنا ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب آکر اتحاد قائم کرنا چاہئے، ایک دوسرے سے دشمنی نہیں برتنا چاہئے۔ اس کے لئے محور کتاب خدا، سنت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور شریعت اسلامیہ کو قرار دیا جائے۔ اس بات میں کوئی برائی نہیں ہے۔ یہ تو ایسی بات ہے جسے ہر منصف مزاج اور عاقل انسان قبول کرے گا۔جو لوگ شیعوں کو اہل سنت اور اہل سنت کو شیعہ کے خلاف مشتعل کر رہے ہیں وہ نہ تو شیعوں کے ہمدرد ہیں اور نہ ہی اہل سنت سے انہیں کوئی دلچسپی ہے۔ وہ سرے سے اسلام ہی کے دشمن ہیں۔"رحماء بینھم" یعنی مسلمان بھائي آپس میں ایک دوسرے کے ہمدرد بنیں۔ دشمن دونوں طرف سے حملے کر رہا ہے۔ ایک طرف تو غلو اور دشمنی اہلبیت کی ترویج کر رہا اور شیعوں کو اہل سنت کی نگاہ میں سب سے بڑا دشمن بنا کر پیش کر رہا ہے اور بد قسمتی سے مذاہبی انتہا پسندی کے شکار بعض افراد اس کا یقین بھی کربیٹھے ہیں، دوسری طرف شیعہ کو اہل سنت کے عقائد کی بے حرمتی اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے پر اکساتا ہے۔ دشمن کی سازش یہ ہے کہ یہ دونوں فرقے ہمیشہ لڑتے مرتے رہیں۔ دشمن ایسے زاوئے سے اقدام کرتا ہے کہ ممکن ہے آپ متوجہ نہ ہوسکیں اور اس کی جانب سے غافل رہ جائیں۔ لہذا ہوشیار رہئے اور دشمن کو ہر روپ میں پہچاننے کی کوشش کیجئے " ولتعرفنھم فی لحن القول " اس کی باتوں سے بھی اسے پہچانا جا سکتا ہے۔ہمارے عوام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جن علاقوں میں مختلف مذاہب اور فرقوں کے افراد آباد ہیں اور اختلافات پیدا ہونے کا امکان ہے وہاں مذہبی اور نسلی ٹکراؤ سے خاص طور پر پرہیز کرتے ہیں۔ دشمن کو یہی نہیں پسند ہے۔ شیعہ، سنی جنگ دشمن کے لئے بہت قیمتی اور اہم ہے۔ امت مسلمہ اختلافات کی شکار رہے تو اس سے معنویت و روحانیت، شادابی و تازگی، قدرت و طاقت، اور قومی شکوہ و عظمت سب کچھ مٹ جائے گا جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے " وتذھب ریحکم"اس سلسلے میں جو عوامل اتحاد کا مرکز قرار پا سکتے ہیں ان میں ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات والا صفات ہے۔ مسلم دانشوروں کو چاہئے کہ اسلام کے سلسلے میں وسیع النظری کا ثبوت دیتے ہوئے اس عظیم شخصیت، اس کی تعلیمات اور اس کی محبت و عقیدت کے سلسلے میں محنت کریں۔اتحاد کا مسئلہ مسلمانوں کے لیے موت و حیات کا مسئلہ ہےاتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو شیعہ ہوں یا سنی اسی طرح ان سے نکلنے والے دیگر فرقے، بہت سنجیدگی سے لیں۔ تمام مسلمان اتحاد پر خاص توجہ دیں۔ اتحاد بین المسلمین کا مطلب پوری طرح واضح ہے۔ یہ مسلمالوں کے لئے موت و حیات کا مسئلہ ہے۔ یہ کوئي نعرہ نہیں، یہ کوئي معمولی بات نہیں ہے۔ مسلم معاشروں کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے۔ البتہ اتحاد ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، اتحاد قائم کرنا ایک دشوار کام ہے لیکن مسلم اقوام کا اتحاد ان کے مکاتب فکر میں تنوع کے ساتھ ممکن ہے، ان کا طرز زندگی الگ الگ ہے ان کے آداب و رسومات مختلف ہیں، ان کی فقہ الگ الگ ہے لیکن ان میں اتحاد ہو سکتا ہے۔ مسلم اقوام کے درمیان اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ عالم اسلام سے متعلق مسائل کے سلسلے میں ایک دوسرے سےہم آہنگی بنائے رکھیں، ایک ہی سمت میں بڑھیں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور قوموں کے اندرونی وسائل کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ کریںاتّحادِ اسلامی، ائمّہ طاہرین علیہم السّلام کی سیرت کے آئینہ میںامیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے فرزندوں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام کو جو وصیت فرمائی اس کے دوسرے حصے میں تیسرا اہم نکتہ ہے "صلاح ذات بین" یعنی ایک دوسرے کے ساتھ محبت آمیز برتاؤ رکھیں، ایک دوسرے کی طرف سے دل صاف رکھیں، اتحاد قائم رکھیں اور آپ دونوں کے درمیان اختلاف اور دوری پیدا نہ ہونے پائے۔ آپ نے اس جملے کو بیان کرنے کے ساتھ ہی اسی مناسبت سے ایک حدیث نبوی بھی نقل کی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس مسئلے پر آپ خصوصی تاکید کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں آپ فکر مند ہیں۔ " صلاح ذات بین" کی اہمیت تمام امور کو منظم رکھنے سے ( جس پر حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے خاص تاکید فرمائي ہے) کم نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ " صلاح ذات بین" کے لئے خطرات زیادہ ہیں۔ چنانچہ ایک حدیث نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے تمہارے نانا کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " صلاح ذات البین افضل من عامۃ الصلاۃ و الصیام"( کافی ج4 ص51 باب صدقات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) آپس میں بھائي چارہ اور میل محبت اور لوگوں کے درمیان انسیت و الفت ہر نماز و روزے سے بہتر ہے۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ " تمام روزوں اور نمازوں سے بہتر ہے" بلکہ ارشاد فرمایا کہ " ہر نماز اور روزے سے بہتر ہے" یعنی تم اپنے نماز اور روزے کی فکر میں رہنا چاہتے ہو لیکن ایک کام ایسا ہے جو ان دونوں سے افضل ہے۔ وہ کیا ہے؟ وہ " صلاح ذات البین" ہے۔ اگر آپ نے دیکھا کہ امت مسلمہ میں کہیں اختلاف اور شگاف پیدا ہو رہا ہے تو فور آگے بڑھ کر اس خلیج کو ختم کیجئے۔ اس کی فضیلت نماز روزے سے زیادہ ہے۔برادر دینی اور شریک انسانیتاسلام کا پیغام اتحاد، تحفظ اور اخوت کا پیغام ہے۔ امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کا ایک یادگار جملہ ہے جو تمام انسانوں کے سلسلے میں آپ نے ارشاد فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ انسان جو تمہارے سامنے ہے یا تمہارا دینی بھائی ہے یا پھر خلقت میں تمہارا شریک ہے، بہرحال وہ بھی ایک انسان ہے۔ تمام انسانوں کو آپس میں متحد اور مہربان رہنا چاہئے۔ یہ چیز کسی ایک گروہ اور ایک دستے سے مخصوص نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جو افراد دین و عقیدے کے لحاظ سے تم سے مختلف ہیں ان کے ساتھ بھی اچھا سلوک رکھا جائے۔ " ولا ینھاکم اللہ عن اللذین لم یقاتلوکم فی الدین و لم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم و تقسطوا الیھم ان اللہ یحب المقسطین" (اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے قتال نہیں کیا اور تمہیں تمہارے گھروں سے باہر نہیں نکالا، نیکی اور بھلائی اور ان کے ساتھ انصاف کرنے سے نہیں روکتا، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، ممتحنہ 8) یہ ہے اسلامی روش۔ یعنی جو شخص فکری لحاظ سے تم سے الگ ہے اور ایک الگ عقیدہ رکھتا ہے وہ اپنے اس عقیدے کی وجہ سے یہاں ( اس دنیا میں) سزا پانے کا مستحق نہیں ہے اور نہ اس کی ذمہ داری تم پر ہے۔ "والحکم اللہ و المعود الیہ القیامۃ" (داور و قاضی خدا ہے اور قیامت اس کی وعدہ گاہ ہے، بحار الانوار ج29 ص485) یہ بھی امیر المومنین علیہ السلام کا کلام ہے۔ آپ کا واسطہ ایسے انسان سے ہے جو تمہارا ہم عقیدہ اور تمہارا بھائی ہے اور اگر ہم عقیدہ نہیں تو خلقت میں تمہارا شریک ہے۔اسلامی جمہوریہ ایراندشمن نے اسلامی معاشرے میں شگاف و اختلاف پیدا کرنے کے لئے متعدد حربے آزمائے لیکن آج اسے ایک ایسی بے مثال حقیقت کا سامنا ہے جو تمام مسلمانوں کے اتحاد کا مرکز بن گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے "اسلامی جمہوریہ" یہ بلند پرچم اور یہ ہمہ گیر آواز ایک نئی شئ ہے، اس کا آئین، اس کے نعرے اور اس کا عمل اسلام کے مطابق ہے اور فطری طور پر دنیا بھر میں مسلمانوں کے دل اس کے لئے دھڑکتے ہیں۔ آج دنیا میں کوئی بھی خطہ اس سنجیدگی اور دلجمعی کے ساتھ احکام اسلامی ک