اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
ہفتہ

27 جولائی 2013

7:30:00 PM
446053

استاد طباطبائی کی ابنا کے ساتھ گفتگو

شب قدر خدا سے کیا مانگیں؟

ضیافت الہی میں حاضر ہونے کے لیے پہلے انسان کو چاہیے کہ خود کو اس مہمانی کے لیے آمادہ کرےاور اپنی روح کو پاکیزہ کرے تاکہ خدا کی مہمانی میں حاضر ہونے کے لیے آمادہ ہو۔ روح کی پاکیزگی گناہ نہ کرنے کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، توبہ کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔

ابنا: ماہ مبارک رمضان آدھے سے زیادہ گزر چکا ہے اور ممکن ہے ابھی بھی بہت سارے لوگ ان بابرکت ایام سے کما حقہ فائدہ نہ اٹھا پائے ہوں۔ آپ کی نظر میں ایسے افراد کو کیا کرنا چاہیے؟بسم اللہ الرحمن الرحیمپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے ماہ شعبان کے آخری دنوں میں خطبہ دیا اور لوگوں کو اس مہینہ میں کچھ کام کرنے کی تاکید کی آپ نے فرمایا: ’’تم لوگوں کو اللہ کی مہمانی پر دعوت دی گئی ہے‘‘ ۔ جب آپ کو کہیں مہمانی پر بلایا جاتا ہے تو آپ خود کو مہمانی کے لیے تیار کرتے ہیں اور جہاں آپ کو دعوت دئی گئی ہوتی ہے آپ تیار ہو کر وہاں پہنچتے ہیں۔ مثال کے طور پر اپنے آپ کو صاف سھترا کرتے ہیں، مناسب لباس پہنتے ہیں۔ یہ مہمانی کے آداب ہیں۔یہ آداب جسم کے لیے بھی ہیں اور روح کے لیے بھی۔ لہذا ضیافت الہی میں حاضر ہونے کے لیے پہلے انسان کو چاہیے کہ خود کو اس مہمانی کے لیے آمادہ کرے۔ اور اپنی روح کو پاکیزہ کرے تاکہ خدا کی مہمانی میں حاضر ہونے کے لیے آمادہ ہو۔ روح کی پاکیزگی گناہ نہ کرنے کے ذریعے حاصل ہوتی ہے توبہ کرنےسے حاصل ہوتی ہے۔لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ ماہ رمضان میں سب سے زیادہ جس چیز کی تاکید کی گئی ہے وہ ’’ گناہ نہ کرنے‘‘ کی تاکید ہے۔  ماہ رمضان کے علاوہ اگر کوئی گناہ نہیں کرتا ہے تو اس کا ثواب اس کو نہیں ملتا لیکن ماہ رمضان میں گناہ نہ کرنےکا بھی ثواب ملتا ہے۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ اس مہینے میں سانسیں لینا اور سونا بھی عبادت ہے۔لہذا جو لوگ اس مہینے سے بہتر فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ان کے لیے سب سے بہترین نصحیت یہ ہے کہ گناہ نہ کریں۔ابنا: آج کی رات شبہائے قدر میں سے ایک ہے، اس رات خدا ہم سے کیا چاہتا ہے اور ہمیں کس مرتبے پر پہنچنا چاہیے تاکہ خدا کی رضا حاصل ہو؟خداوند عالم سورہ قدر میں ارشاد فرماتا ہے: «لَيلَةُ الْقَدر خَيرٌ مِن أَلْفِ شَهر * تَنَزَّلُ الْمَلائكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بإذنِ رَبِّهِم مِن كُلِّ أَمر» انسان کو اسی ’’کل امر‘‘ تک پہنچنا چاہیے۔ ’’کل امر‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ کل امر یعنی تمام مراتب، یعنی اعلی مرتبہ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے تمام امور میں اعلی  مرتبے پر پہنچیں۔ مثلا خدا کی معرفت کے اعلی مرتبے پر پہنچیں۔ اس صورت میں خدا ہم سے راضی ہو گا۔ابنا: وہ اعلی مرتبہ جس تک شب قدر میں ہمیں پہنچنا چاہیے کیا ہے؟شب قدر میں جس اعلی درجے کو ہمیں حاصل کرنا چاہیے وہ ’’ دنیا اور آخرت کی سعادت‘‘ ہے قدر یعنی اندازہ لگانا۔ پہلے اندازہ لگایا جاتا ہے پھر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے’’ قضا و قدر‘‘۔ لہذا شب قدر میں امور کو ترتیب دیا جاتا ہے خداوند عالم حکم کرتا ہے کہ یہ کام ہونا چاہیے یہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں شب قدر میں دنیا اور آخرت کی ہر بھلائی کو خدا سے حاصل کرنا چاہیے۔ابنا: کیا یہ دنیا اور آخرت کی بھلائی وہ چیز ہے جسے ہم چاہتے ہیں یا جسے خدا چاہتا ہے؟شاید دنیا اور آخرت کی بھلائی ہماری نظر میں کبھی وہ چیز ہو جسے ہم بھلائی سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت وہ ہمارے حق میں برائی ہو جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے: «عَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيئاً وَهُوَ خَيرٌ لَكُم» ( چہ بسا تم ایک چیز کو ناپسند کرتے ہو جبکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہو)۔ اور کبھی انسان سوچتا ہے کہ یہ چیز اس کے لیے بہتر ہے جبکہ وہ اس کے لیے شر اور نقصان دہ ہوتی ہے: «عَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيئاً وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ»؛ ( چہ بسا تم کسی چیز کو پسند کرتے ہو حالانکہ وہ تمہارے لیے شر اور نقصان دہ ہو)۔ مثلا اس شخص کی طرح جو شگر کا مریض ہے لیکن میٹھی چیزیں کھانے سے لذت اٹھاتا ہے اور سوچتا ہے کہ میٹھائی اس کے لیے بہتر اور اچھی چیز ہے لیکن حقیقت میں وہ اس کے لیے ضرر رکھتی ہے اور شر ہے۔بعض اوقات میں ایک واقعے اور حادثے کو ناپسند کرتا ہوں لیکن جب اس میں میرے لیے خیر اور بھلائی ہے تو مجھے راضی ہونا چاہیے۔ لہذا بہتر ہے کہ انسان ہمیشہ مقدرات الہی کے سامنے تسلیم رہے۔ اس بنا پر دنیا اور آخرت کی بھلائی وہ چیز ہے جو خدا ہماری دنیا اور آخرت کے لیے معین اور مقدر کرے۔ابنا: آپ اس بات کو مانتے ہیں کہ یہ اللہ کے فیصلوں پر راضی رہنا، کہنا تو بہت آسان ہے لیکن اس پر عمل کرنا بہت مشکل ہے؟ ہمیں کیا کرنا چاہیے تاکہ ہم اس کی رضا پر راضی ہو جائیں؟یہ چیز زیادہ انسان کے علم و معرفت سے تعلق رکھتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ سمجھے اور باور کرے۔ اس سمجھنے اور باور کرنے کو ’’یقین‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ کچھ ایسے افراد کو پیش نظر رکھیں جو گھنٹوں کلاس اٹینڈ کرتے ہوں، سبق پڑھتے ہوں، صبح سویرے اٹھتے ہوں، سکول جاتے ہوں، امتحانات پاس کرتے ہوں۔ مگر یہ کام سخت نہیں ہے؟ پھر کیوں یہ زحمت اٹھاتے ہیں؟ اس لیے کہ ان کا مقصد علم کے بلند درجات کو حاصل کرنا ہے۔ اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ ان درجات تک پہنچنے کے لیے  انہیں یہ زحمتیں اٹھانا ہوں گی۔ہمیں یقین پیدا کرنا چاہیے کہ ہماری موت کے بعد اس دنیا کے علاوہ بھی ہماری لیے ایک بہتر زندگی ہو گی کہ جس کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ اگر یہ یقین ہمارے اندر پایا جاتا ہو توہم کوشش کریں گے کہ اپنی اِس زندگی کو بدلیں اور اُس زندگی کی آسائش کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کریں گے۔لہذا قضائے الہی پر راضی ہونے کے لیے جو چیز اہم ہے وہ ’’معرفت‘‘ ہے۔ خدا کی معرفت اور زندگی کی معرفت۔ دوسری بات یہ کہ سعادت مند ہونےکے لیے خدا کے طریقہ کار کو آسانی سے قبول کریں۔ ہمیں یہ یقین کرلینا چاہیے کہ جو کچھ خدا ہمارے لیے مقرر کرتا ہے وہی ہمارے لیے بہتر ہے ہمیں اسی پر راضی ہونا چاہیے۔البتہ جیسا کہ آپ نے کہا اس مقام پر پہنچنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ پیغمبراکرم(ص) اسی خطبہ شعبانیہ میں فرماتے ہیں: « إنّ أنفسكم مرهونةٌ بأعمالكم فَفُكُّوها باستغفاركم». یعنی تمہاری جانیں تہمارے اعمال کی مرہون منت ہیں ۔ پس یہ ہمارے اعمال ہیں جو ہمیں اس درجے تک پہنچنے میں ہماری مدد کریں گے۔ابنا: مثلا کیا اعمال؟استغفار،تلاوت قرآن، دعا کرنا، گناہ نہ کرنا وغیرہ وہ اعمال ہیں جو اس راہ میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ اور ایک اہم عمل جو روایات میں وارد ہوا ہے وہ ’’ خدمت خلق‘‘ ہے۔

ابنا: شبہائے قدر میں مخصوصا ان جوانوں کے لیے جو ان راتوں مساجد میں شرکت کرتے ہیں کیا نصیحت کرتے ہیں؟شبہائے قدر میں جو مراسم ہمارے یہاں مرسوم ہو گئے ہیں مجھے پہلے تو ان پر اشکال ہے۔ میری نظر میں ہر کسی کو اپنی مرضی اور چاہت سے اعمال انجام دینا چاہیے۔ شب قدر کے مراسم کو قرآن، نماز اور دعا میں منحصر نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ یہ کوشش کرنا چاہیے کہ کسی کو اذیت و آزار نہ پہنچے اور ہر کوئی حدود الہی میں رہ کر اپنی مرضی کے مطابق اعمال انجام دے۔ ان شبوں میں کوشش کرنا چاہیے کہ نیازمندوں کی مدد کریں۔ حتیٰ ہنسی مذاق بھی ان راتوں کی عبادت سے کوئی منافات نہیں رکھتا۔ابنا: یعنی آپ کے کہنے کا مطلب یہ کہ سب کو ایک مشخص عمل انجام نہیں دینا چاہیے؟ دوسرےالفاظ میں ہر کوئی اپنی معرفت اور طاقت کے مطابق عبادت کرے؟کچھ اعمال ہیں جو معین ہیں اور سب پر ان کا انجام دینا واجب ہے۔ جیسے ماہ مبارک کے روزے۔ لہذا کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ میں ایسے روزہ نہیں رکھوں گا ویسے رکھوں گا۔ یہ کلی اعمال سب کے لیے مساوی ہیں۔لیکن بعض کچھ ایسے اعمال ہیں جو خود انسان سے مربوط ہیں، مثال کےطور پر ہمارے اندر کچھ غرائز پائے جاتے ہیں جن کی تربیت کرنا خود ہمارے اوپر منحصر ہے اور ان کی تربیت کا طریقہ کار بھی مختلف ہے۔ توجہ رہنا چاہیے کہ انسان کے لیے کمال تک پہنچنے کا ایک راستہ قرآن ہے اس کے بعد احادیث اور روایات۔ اس راستے میں قدم اٹھانا بھی ہر کسی کے لیے اپنے اعتبار سے مناسب ہے۔ کچھ ایسی دعائیں ہیں جو سب کے لیے یکساں ہیں جیسے دعائے حضرت ابوحمزہ ثمالی۔ مثال کے طور پر پانی اور سبزی ایسی غذائیں ہیں جنہیں ہر کوئی استعمال کر سکتا ہے لیکن بعض ایسی غذائیں ہیں جنہیں سب استعمال نہیں کر سکتے۔ بعض کو نقصان دیتی ہیں اور بعض ہضم نہیں کر سکتے، لہذا دعاوں میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔ ہر کوئی اپنے حالات کے پیش نظر دعا کا انتخاب کرے۔ لہذا ان شبوں میں بعض اعمال جیسے قرآن سر پر رکھنا، دعائے جوشن کبیر پڑھنا، وغیرہ سب کے لیے یکساں ہیں لیکن کہاں بیٹھ کر دعا کرے یہ خود انسان سے وابستہ ہے۔ابنا: پس بعض نئے پروگراموں کے چکروں میں اصلِ عبادت کو صدمہ نہیں پہنچنا چاہیے؟واضح ہے کہ خزانے اور ذر تک پہنچنے کے لیے انسان کو ایک مشخص جگہ کھودنا پڑتی ہے اور اگر کسی دوسری جگہ کو کھودتا رہے گا تو خزانہ اور ذر حاصل نہیں ہو گا۔ابنا: کیا اس طرح کی عبادات صرف مسلمانوں سے مخصوص ہیں؟نہیں، مسلمانوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اس طرح اجتماعی طور پر عبادتیں انجام دیتے ہیں۔ ٹھیک ہے وہ ہماری طرح نماز نہیں پڑھتے لیکن کچھ مخصوص اعمال انجام دیتے ہیں۔ میں یونان میں تھا، حضرت عیسیٰ (ع) کی شب ولادت پر سب لوگ مرد و عورت ہماری شب قدر کی طرح جمع ہوتے تھے اور سب خاموش کھڑے رہتے تھے ان کا راہب ان کے سامنے راستہ چلتا تھا اور ان کے لیے خدا کی باتیں بیان کرتا تھا۔ابنا: کیا پیغمبر اکرم(ص) سے پہلے بھی شب قدر تھی؟۔ تھی لیکن اس طرح سے نہیں تھی۔ گزشتہ سالوں میں لوگ ہزار ہزار سال زندگی کرتے تھے اس دور میں کبھی کبھی ہر مہینہ شب قدر ہوتی تھی۔ایک روایت میں ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) سے کہا: کوئی ہے  جس نے ہزار سال عبادت کی ہو؟ خدا نے پیغمبر (ص) سے فرمایا: میں نے آپ کو شب قدر دی ہے کہ جو ہزار سال کے برابر ہے۔ابنا: ہزار مہینوں سے کیا مراد ہے جو سورہ قدر میں بھی بیان ہوا ہوئے ہیں؟اس کے بارے میں مختلف تفسیریں بیان ہوئی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان سے مراد دنیا کے مہینے نہیں ہیں۔ابنا: شب قدر اور امام کے درمیان کیا رابطہ ہے؟قرآن کریم شب قدر کو پیغمبر(ص) پر نازل ہوا، اور ہر زمانے میں یہ قرآن شب قدر کو ہر امام پر ظہور کرتا ہے۔ البتہ یہی قرآن نہ کوئی اور۔ ابنا: اس میں کیا راز ہے کہ حضرت علی (ع) شبہائے قدر میں شہید ہوئے؟جب خداوند عالم کسی کی توفیقات میں اضافہ کرتا ہے تو اسے سب کچھ دے دیتا ہے اس کی موت بھی مخصوص اوقات میں قرار دیتا ہے۔ یہ خصوصیت حضرت امیر(ع) سے مخصوص ہے۔ا