اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
منگل

23 جولائی 2013

7:30:00 PM
444570

آیت اللہ خاتمی کی ابنا کے ساتھ خصوصی گفتگو

امام حسن مجتبیٰ(ع) زہد و محبت اور صبر و شجاعت کا پیکر/ صلح امام حسن(ع) کے اسباب+تصاویر

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے یوم ولادت کی مناسبت سے اہلبیت(ع) نیوز ایجنسی ۔ابنا۔ نے اہلبیت(ع) عالمی اسمبلی کی اعلی کونسل کے رکن آیت اللہ سید احمد خاتمی کےساتھ خصوصی گفتگو کی ہے۔

ابنا: سبط اکبر امام حسن مجتبیٰ(ع) کی ولادت با سعادت کا دن ہے۔ لہذا بہتر ہے ابتداً امام حسن مجتبیٰ (ع) کی مبارک زندگی اور آپ(ع) کے بعض معروف صفات مثلا کریم اہلبیت(ع) ہونا کی طرف اشارہ کیا جائے۔بسم اللہ الرحمن الرحیماہلبیت طہار(ع) کی زندگانی کے سلسلے میں دو طرح سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔ ایک یہ کہ ان کی بائیوگرافی پیش کی جائے یعنی انکی تاریخ ولادت، تاریخ وفات، ازواج کی تعداد، اولاد کی تعداد، خلفائے وقت وغیرہ وغیرہ بیان کئےجائیں۔دوسرے یہ کہ قرآنی  طرز سے گفتگو کی جائے۔ قرآنی طرز یہ ہے: «قَد کَانَ لَکُم اُسوَةٌ حَسَنَةٌ فِی اِبرَاهِیم وَ الَّذَینَ مَعَهُ» و «لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ‌اللهِ اُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن کَانَ یَرجُوا اللهَ وَ الیَومَ الآخِرَ» یعنی ہم انہیں نمونہ عمل کے عنوان  سے پیش کریں۔میری نظر میں اہلبیت (ع) کی زندگی کے بارے میں گفتگو کرتے وقت جس چیز کو پیش کرنےکی ضرورت ہے اور جو معرفت کا باعث ہے وہ ان کی بائیوگرافی پیش کرنا نہیں ہے، شاید کسی کو نہ معلوم ہو کہ امام حسن مجتبی (ع) کی تاریخ ولادت کیا ہے یا تاریخ شہادت کیا ہے؟ لیکن ان امورکو نہ جاننا عدم معرفت کی دلیل نہیں ہے۔ لیکن جو روایت میں آیا ہے: "من مات و لم یعرف امام زمانه مات میتة جاهلیة " جو شخص مر جائے اور اپنے زمانے کے امام کی معرفت نہ رکھتا ہو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ ( یہ معرفت بائیوگرافی کو جاننا نہیں ہے بلکہ ان کی عملی زندگی کی معرفت ہے)۔

تمام اہلبیت اطہار(ع) فضائل کی کلیات میں یکساں ہیں۔ مثلاً عبادت میں سب کےسب پہلی صف میں نظر آتے ہیں تمام اماموں کے حالات میں وارد ہوا کہ جب وہ نماز کے لیے وضو کرتے تھے تو پورے نشاط کے ساتھ کرتےتھے لقاء الی اللہ اور زیارت اللہ کے لیے کرتے تھے۔ اہلبیت(ع) کی نماز حقیقت میں ’’قربان کل تقی‘‘ اور ’’معراج‘‘ ہوتی تھی۔ امیر المومنین (ع) کے سلسلے میں نقل ہوا ہے کہ نماز کی حالت میں انکے پاوں سے تیر نکال لیا گیا اور انہیں خبر تک نہیں ہوئی ۔ دوسرے ائمہ(ع) کے سلسلے میں بھی یہ خصوصیت پائی جاتی ہے۔ قرآن کریم سے انکا انس اور دعا و مناجات سے عشق انکی واضح صفات ہیں۔ اہلبیت اطہار(ع) جب لبیک کہتے تھے تو خود کو بارگاہ خداوندی میں پاتے تھے۔ امام حسن (ع) کئی بار پاپیادہ سفرِ حج پر گئے جبکہ آپ کی سواری آپ کے ساتھ ہوتی تھی اور اگر چاہتے تو سوار بھی ہو سکتے تھے لیکن چونکہ اپنے معبود سے اسقدر عشق ومحبت رکھتے تھے کہ نہیں چاہتے تھے سوار ہو کر اس کے گھر کی زیارت کرنے جائیں۔ لوگوں کے ساتھ برتاو کی منزل میں تمام ائمہ(ع) نمونہ عمل ہیں۔ اس دعوے کی دلیل امام حسن (ع) کا وہ ماجرہ ہےجو ہر اس شخص نے اپنی کتاب میں  نقل کیا ہے جس نے امام حسن (ع) کے بارے لکھنے کے لیے قلم اٹھایا کہ ایک شامی امام حسن (ع) کو گالیاں دینا شروع کر دیتا ہے جب گالیاں دے کر تھکتا ہے اور خاموش ہو جاتا ہے تو امام علیہ السلام اس سے فرماتے ہیں: مجھے لگ رہا ہےکہ تم سفر سے آئےہو شاید تمہارے پاس رہنے کے لیے جگہ نہیں ہو گی کھانےکے لیے آذوقہ نہیں ہو گا، تو آو میرے گھر چلو میں رہنے کے لیے جگہ دوں گا کھانا دوں گا۔ شامی نے گالیاں دیں لیکن امام نے اس کے ساتھ کیسا برتاو کیا۔ امام کی اس رفتار نے اس قدر اسے متاثر کیا کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گیا: "اللهُ یَعلَمُ حَیثُ یَجعَلُ رِسَالَتَهُ". اگر کوئی عبادت، زہد، دوسروں سے محبت اور دوستی، صبر اور شجاعت کو یکجا دیکھنا چاہتا ہے تو اہلبیت اطہار(ع) کے در پر جائے۔

ابنا: پس ائمہ اطہار (ع) کو ’’یک بعدی‘‘ نگاہ سے دیکھنا اور ان کی کسی ایک جہت کو نمایاں کر کے دیگر جہات کو نظر انداز کر دینا صحیح نہیں ہے؟دیکھے امام حسن (ع) کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے لوگ آپ کی شجاعت کے پہلو کو کم رنگ کر دیتے ہیں جبکہ وہی خون جو امام حسین (ع) کی رگوں میں تھا وہی خون امام حسن(ع) کی رگوں میں بھی تھا، وہی خون امیر المومنین (ع) کی رگوں میں بھی دوڑ رہا تھا۔ یہ سب شیر مرداں ہیں۔ مثال کے طور پر جنگ صفین میں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام دونوں نے فرنٹ لائن پر جنگ لڑی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جتنی شجاعت امام حسین (ع) میں تھی اتنی ہی امام حسن(ع) میں تھی۔ لہذا کوئی ایسی فضیلت نہیں ہے جو ایک امام میں پائی جاتی ہو اور دوسرے میں نہ پائی جاتی ہو۔مرحوم خواجہ نصیر الدین طوسی کتاب تجرید الاعتقاد میں لکھتے ہیں کہ ہم معتقد ہیں اہلبیت(ع) تمام فضائل میں یکساں ہیں۔ اس کی دلیل یہ آیتِ قرآن ہے: «أَفَمَن يَهْدِي إِلَي الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لاَّ يَهِدِّي إِلاَّ أَن يُهْدَي فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ» کیا جو شخص حق کی طرف ہدایت کرتا ہے اس کی اطاعت کرنا زیادہ سزاوار ہے یا جو خود ہدایت سے بہرہ مند نہیں ہے مگر یہ کہ اس کی ہدایت کی جائے پس تم کیسا فیصلہ کرنے والے ہو؟ (سورہ یونس،۳۵) جو شخص امام ہو اسے تمام فضائل میں پیش پیش ہونا چاہیے۔ ائمہ معصومین (ع) کے سلسلے میں بعض خاص القاب خود پیغمبر اکرم (ص) نے انہیں دئے بعض لوگوں کے درمیان معروف ہو گئے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ امام حسن (ع) کریم تھے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باقی ائمہ(ع) کریم نہیں تھے۔ بلکہ یہ امام حسن (ع) کی ایک علامت ہے۔ یا مثلا اگر امام نہم کو جواد کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باقی ائمہ(ع) جود و بخشش نہیں کرتے تھے۔ بلکہ ائمہ(ع) میں سے ہر کوئی کسی ایک صفت سے معروف ہو گئے اور اس کی وجہ یا وہ عناوین ہیں جو خود پیغمبر اکرم (ص) نے دئے یا ائمہ نے ایک دوسرے کو دئے یا کبھی کبھی لوگوں کے درمیان کسی ایک صفت سے معروف ہو گئے ورنہ تمام ائمہ (ع) تمام فضائل میں یکساں ہیں۔ابنا: شاید یہی یک بعدی نگاہ کرنا اور صرف ایک جہت سے کسی کو مدنظر رکھنا اس بات کا باعث بنا ہے کہ آج دوسرے ادیان مثلا عیسائیت او بدھ مت کو محبت والے دین اور دین اسلام کو تشدد والا دین کہا جاتا ہے؟اسلام اعتدال پسند دین ہے ہرگز جو چیز حضرت عیسی(ع) کی طرف نسبت دی جاتی کہ ’’اگر تمہارے ایک رخسار پر کوئی طمانچہ مارے تو تم دوسرا رخسار بھی اس کے سامنے رکھو‘‘ کو دین اسلام قبول نہیں کرتا۔  اور یہ بات قرآنی تعلیمات سے بھی ہم آہنگی نہیں رکھتی۔ بلکہ اسے ذلت کہا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امام راحل (رہ) کہا کرتے تھے میں معتقد ہوں کہ یہ بات جھوٹ ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف نسبت دی گئی ہے یہ بات حضرت عیسی علیہ السلام کی نہیں ہو سکتی ہے۔ لہذا ہم محبت کو اسلام سے نہیں نکال سکتے اور نہ ہی اسلام کو فقط تشدد والا دین کہہ سکتے ہیں۔اس لیے کہ اسلام کا بھیجنے والا بھی خدا ہے لہذا اسلام اعتدال پسند دین ہے جیسا کہ دعائے افتتاح میں وارد ہوا ہے: "و ایقنت انک انت ارحم الراحمین فی موضع العفو و الرحمة و اشد المعاقبین فی موضع النکال و النقمة"  خدایا مجھے یقین ہے کہ تو مقام عفو و رحمت میں ارحم الراحمین ہے لیکن مقام عقاب و عذاب میں اشد المعاقبین ہے۔ دعائے افتتاح ماہ رمضان کی معتبر دعاوں میں سے ہے کہ جو دعاوں کے تمام منابع میں وارد ہوئی ہے۔ اور امام زمانہ(ع) کے نائب خاص سے منسوب ہے درحقیت خود امام زمانہ(ع) سے نقل ہوئی ہے۔اس بات کی طرف توجہ رہے کہ جس طرح صرف تشدد کی بات کرنا افراط ہے اسی طرح فقط محبت کی بات کرنا بھی افراط ہے۔ دونوں کے بارے میں برابر گفتگو ہونا چاہیے۔ ہمیں اس جال میں نہیں پھنسنا چاہیے جو مغربیوں نے ہمارے لیے پھیلا رکھا ہے وہ چاہتے ہیں دوسرے ادیان کو مہر و محبت سے پہچنوائیں جبکہ دین فطرت(اسلام) سے لوگوں کو دور کریں۔امام خمینی(ع) کے دوستوں سے نقل ہوا ہے کہ آپ بارہا کہا کرتے تھے: سب سے زیادہ ان لوگوں نے اسلام پر کاری ضربتیں لگائی ہیں جنہوں نے اسلام کی یک بعدی تفسیر کی ہے مثلا اسلام کے زہد کو دیکھا لیکن اس کے نظریہ آبادانی کو نہیں دیکھا۔ لہذا ہمیں اسلام کے دونوں پہلو کو بیان کرنا چاہیے مثال کے طور پر واقعہ عاشورا میں سید الشہداء (ع) حضرت علی اکبر(ع) اور حضرت عباس(ع) کی شجاعت کو بیان کرتے وقت کبھی مغرب سے خوفزدہ ہو کر یہ فراموش نہیں کر دینا چاہیے کہ حضرت علی اکبر (ع) نے ایک سو بیس دشمنوں کو قتل کیا حضرت عباس نے ۸۰ یزیدیوں کو واصل جہنم کیا اور اس کے بعد خود شہید ہوئے۔ ہمیں ہر گز یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اگر ہم نے ان حقائق کو بیان کیا تو مغرب اسلام کو تشدد والا دین کہے گا۔ وہ جو خود تشدد میں غرق ہیں اگر حقیقت میں کوئی مغرب کی ڈیموکریٹک پالیسی کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ امریکہ کی اس دور کی پالسی کو آنکھیں کھول کر دیکھے۔ جہاں بھی انسان کشی ہو رہی ہے وہاں امریکہ کا ہاتھ ہے۔ لہذا ان کی باتوں میں واضح تناقض ہے محض جھوٹ ہے۔بنابرایں اگر ہم صرف رحم اور محبت کی بات کریں صرف اس وجہ سے تاکہ وہ اسلام کو دین تشدد نہ کہیں تو یہ صحیح نہیں ہے۔ ہمیں اسلام کی یک بعدی تفسیر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسلام جیسا ہے اسے ویسا دنیا کے سامنے پیش کریں جب امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کی مہر و محبت کی بات ہو رہی ہو تو ٹھوس طریقے سے بات کرنا چاہیے اور جب ان کی شجاعت اور بہادری کی بات ہو تو بھی اسی طرح مضبوط طریقے سے بیان کرنا چاہیے۔ لہذا جہاں محبت کی بات ہو وہاں محبت سے اور جہاں تشدد کی بات ہو وہاں تشدد سے بات کریں۔ابنا: یہی یک بعدی نگاہ مجالس عزا میں بھی پائی جاتی ہے۔ مثال کےطور پر ماہ مبارک رمضان یا ماہ محرم کی مجالس میں جتنا زیادہ شفاعت اور توسل کو بیان کیا جاتا ہے اتنی معرفت کے پہلو کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس نکتے کی طرف توجہ نہیں دی جاتی کہ اگر آپ امام کی معرفت نہیں رکھتے تو ان کی شفاعت بھی نصیب نہیں ہو گی۔  لیکن ہمارے ذاکرین شفاعت کے مسئلہ کو زیادہ بڑھا چڑھا دیتے ہیں کہ جو ہمارے جوانوں کے ذہنوں میں نقش کر جاتا ہے کہ ہم عزاداری منا کر ائمہ کی شفاعت کے مستحق ہو جائیں گے اور اسلام کے دیگر مسائل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کا اس سلسلے میں کیا نظریہ ہے؟شفاعت ان مسائل میں سے ہے جن کا بیان کرنا بہت ضروری ہے۔ اس لیے کہ وہابیت کی طرف سے اس مسئلہ پر بہت حملے ہوتے ہیں۔ ہمیں وہابیت کی خطرناک سازشوں کا سامنا ہے۔ لہذا شفاعت اور توسل کو زیادہ اہمیت دینا چاہیے۔ لیکن توجہ اس بات پر کرنا چاہیے کہ اس سلسلے میں گفتگو کے طریقے مختلف ہیں۔ کبھی کبھی ہم شفاعت اور توسل کے سلسلے میں عقیدتی گفتگو کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پیغمبر اکرم (ص) کن لوگوں کی شفاعت کریں گے اور کن لوگوں کی نہیں کریں گے۔ ابوبصیر کہتے ہیں: امام صادق علیہ السلام کی شہادت کے بعد ان کے گھر تسلیت عرض کرنے  کے لیے گیا تو آپ کے اہلبیت نے کہا: ابوبصیر تم نہیں تھے جب امام دنیا سےجا رہے تھے، انہوں نے تمام اہل خانہ اور رشتہ داروں کو جمع کیا اور ایک جملہ فرمایا:  "لات