اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعرات

18 جولائی 2013

7:30:00 PM
442601

استاد نجم الدین طبسی کی ابنا کے ساتھ گفتگو

تاریخ کے غداروں نے حضرت خدیجہ (س) کی شخصیت کو سنسر کرکے پیش کیا

حضرت خدیجہ(س) کی عمر پیغمبر اکرم (ص) سے شادی کے وقت ۳۰ سال سے کم تھی نہ ۴۰ سال/ حضرت خدیجہ اپنے ایمان اور عمل کے اعتبار سے حضرت زہرا(س) کے بعد کائنات کی افضل ترین خاتون ہیں/ محدثیں نے پیغمبر اکرم(ص) کی اس زوجہ سے ایک بھی حدیث نقل نہیں کی جس نے ۲۵ سال پیغمبر کے ساتھ گزارے جبکہ اس سے دو ہزار حدیثیں نقل کی ہیں جس نے دقیقا ایک سال بھی مکمل طور پر رسول کے ساتھ نہیں گزارا۔

اہلبیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔بعثت کے دسویں سال ماہ مبارک رمضان کا دسواں دن پیغمبر اکرم (ص) کے لیے سب سے زیادہ المناک دن تھا وہ دن جس دن آپ کے ۲۵ سالہ دوست حضرت خدیجہ کبریٰ(س) نے آپ کو اکیلا چھوڑ دیا۔ وہ خاتون جنہوں نے سب سے پہلے پیغمبر(ص) کی رسالت پر ایمان لایا اور پیغمبر اکرم (ص) کی غربت کے زمانے میں اپنا سارا مال و منال راہ دین میں قربان کر دیا وہ نہ صرف پیغمبر (ص) کی ایک زوجہ تھیں بلکہ آپ کی مونس اور غمخوار بھی تھیں آپ کی ناصر و مددگار بھی تھی۔ بعثت کا دسواں سال پیغمبر اسلام کے لیے شدید حزن واندوہ کا سال تھا اس لیے ابھی آپ کے بزرگترین حامی اور مددگار حضرت ابوطالب (ع) کی رحلت کو دو تین دن ہی گزرے تھے کہ آپ کی زندگی کے دوسرے حامی اور ناصر حضرت خدیجہ (س) نے بھی آپ کا ساتھ چھوڑ دیا اور اس دار فانی سے کوچ کر گئیں۔ اسی وجہ سےپ نے بعثت کے دسویں سال کو ’’ عام الحزن‘‘ کا نام دیا۔لیکن شاید اس سے زیادہ المناک مصیبت تاریخ کے غدار ہاتھوں کی طرف سے ڈھائی ہوئی مصیبت ہے جنہوں نے حدیثیں جعل کر کے اور تاریخ کو منحرف کر کے جناب ابوطالب کو مشرک اور جناب خدیجہ کو بوڑھی خاتون کے عنوان سے پیش کیا۔اسی سلسلے میں ابنا کے نمائندوں نے جناب حجۃ الاسلام و المسلمین نجم الدین طبسی سے گفتگو کی ہے جس میں جناب خدیجہ (س) کے فضائل کو چھپانے والے تاریخی پروپیگنڈوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:ابنا: آج ماہ مبارک کی دسویں شب ہے جو شب وفات جناب ام المومنین حضرت خدیجہ(س) ہے۔ ایسی رات میں پیغمبر اکرم(ص) اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی کیسی کیفیت رہی ہو گی؟بسم اللہ الرحمن الرحیممرحوم شیخ عباس قمی نقل کرتے ہیں کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے اپنی رحلت کی رات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے عرض کیا: یا رسول اللہ میں آپ سے کچھ باتیں عرض کرنا چاہتی ہوں۔ پہلی بات یہ کہ مجھے معاف کر دیجیے اس لیے کہ میں آپ کے مقام و منزلت کو نہیں سمجھ پائی اور جیسی مجھےآپ کی خدمت کرنا چاہیے تھی میں ویسی نہیں کر پائی۔ پیغمر اکرم (ص) نے آپ کو جواب دیا: آپ نے کوئی کمی نہیں چھوڑی آپ جتنا کر سکتی تھیں اتنا کیا۔حضرت خدیجہ نے کہا: دوسری گزارش یہ ہے کہ میرے بعد میری یہ بیٹی یتیم ہو جائے گی۔ میں اس تین  سالہ بچی کو آپ کے حوالے کرتی ہوں اس کا خیال رکھنا۔اورتیسری بات جو میں کہنا چاہتی ہوں وہ آپ کو کہتے ہوئے شرم آ رہی ہے برائے مہربانی آپ حجرے سے باہر جائیں تاکہ میں بیٹی فاطمہ کو کہہ سکوں وہ آپ کو بتائیں گی۔اس گفتگو کےبعد حضرت فاطمہ (س) حجرے میں داخل ہوئیں اور حضرت خدیجہ (س) نے انہیں اپنی آغوش میں لیا اور ان سے کہا: بیٹا! اپنے بابا رسول خدا (ص) سے کہو میرے پاس جو کچھ تھا وہ راہ اسلام میں خرچ کر دیا اب میرے پاس کفن کے لیے بھی پیسے نہیں بچے ہیں، مجھے قبر سے بہت ڈر لگتا ہے اپنے بابا سے کہو اپنی عبا سے مجھے کفن دیں تاکہ عذاب قبر سے امان میں رہوں۔حضرت فاطمہ زہرا (س) نے یہ بات پیغمبر اکرم (ص) کو بتائی کہ اچانک جناب جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا: خداوند عالم نے فرمایا ہے:’’ خدیجہ نے سارا مال میری راہ میں خرچ کر دیا ہے وہ اس قابل ہے کہ ہم اس کے لیے کفن بھیجیں‘‘۔ اس طریقے سے خداوند عالم نے بہشت سے جناب  خدیجہ کے لیے کفن بھیجا۔پیغمبر اکرم (ص) نے بھی اپنی اس عبا سے جسے اوڑھ کر آپ نماز شب پڑھتے اور عبادت کرتے تھے جناب خدیجہ کو کفن دیا۔ لہذا در حقیقت جناب خدیجہ (س) کو دو کفن دئے گئے ایک جو بہشت سے آیا تھا اور دوسرا عبائے رسول(ص)۔ابنا: یہ الہی نوازش اور بخشش آپ کے عظیم مقام کی عکاسی کرتی ہے۔۔ جی ہاں حضرت خدیجہ (س) ایسی شخصیت ہیں اگر فاطمہ زہرا(س) نہ ہوتیں آپ کا کوئی مثل ونظیر نہ ہوتا۔ جب کوئی شخصیت دنیا سے رخصت ہوتی ہے تو ایک دن، ایک ہفتہ زیادہ سے زیادہ چالیس دن اس کی عزا منائی جاتی ہے لیکن پیغمبر اسلام (ص) نے جناب خدیجہ (س) کے غم میں ایک سال عزامیں گزارا اور اس پورے سال کو عام الحزن کا نام دے دیا۔آپ کے اس ایمان اور فداکاری و جانثاری کے ذریعے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زہراء مرضیہ (س) کے بعد آپ افضل ترین خاتون ہیں۔ابنا: شاید یہی وجہ رہی ہو کہ ائمہ معصومین (ع) جب دشمنوں کے مقابلے میں خود کو پہچنواتے تھے تو اپنے آپ کو فرزند خدیجہ (س) ہونے کے ذریعے پہچنواتے تھے؟۔ جی ہاں، ائمہ معصومین (س) حضرت فاطمہ (س) کی اولاد ہونے کے ساتھ ساتھ اولاد حضرت خدیجہ ہونے کے عنوان سے بھی خود پہچنواتے تھے۔ ائمہ طاہرین (ع) خود نور ہیں اور ان کے مقامات بہت بلند و بالا ہیں اور کوئی ان کے مقامات تک نہیں پہنچ سکتا اس کے باوجود ان کے لیے یہ باعث فخر ہے کہ وہ حضرت خدیجہ (ع) کی اولاد ہیں۔ ابنا: جناب خدیجہ(س) کی پیغمبر اکرم (ص) سے شادی کے وقت عمر کے سلسلے میں کافی شبہات پائے جاتے ہیں آپ کی تحقیقات کے مطابق جناب خدیجہ (س) کی پیغمبر (ص) سے شادی کے وقت کتنی عمر تھی؟۔ جناب خدیجہ (س) کی عمر اہم نہیں ہے بلکہ جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ آپ کا ایمان اور عمل ہے جو دونوں بے نظیر ہیں۔لیکن چونکہ آپ نے سوال کیا ہے تو عرض کروں کہ بعض دشمنان اہلبیت(ع) نے اس اعتبار سے کہ ایک عورت کی جوانی اس کے لیے نقطہ امتیاز ہوتی ہے کوشش کی ہے کہ آپ کو سن رسیدہ پیش کریں لہذا انہوں نے اپنی کتابوں میں ’’ عجوزہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا اور انہیں ایک بوڑھی عورت کے عنوان سے پیش کر کے ان کی شخصیت کو گرانے کی ناکام کوشش کی اور اس کام سے وہ کچھ مقاصد تک پہچنا چاہتے تھے حالانہ حقیقت کچھ اور ہے۔ابنا: تو حقیقت کیا ہے؟۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت خدیجہ پیغمبر اکرم (ص) سے شادی کے وقت ۳۰ سال سے کم عمر کی تھیں نہ کہ چالیس کی۔ ذہبی جو اہلسنت کے محدثین میں سے ہیں کہتے ہیں: جناب خدیجہ پیغمبر اکرم(ص) سے شادی کے وقت ۲۸ سال کی تھیں۔ میں نے ابن عباس سے بھی منقول ایک روایت میں پڑھا ہے کہ آپ کی عمر ۳۰ سال سے کم تھی۔ بعض نے ۲۵ سال بھی بیان کی ہے۔ لیکن دشمنوں نے آپ کی شخصیت کو کم کرنے کے لیے آپ کو بوڑھی عورت کے عنوان سے تاریخ میں پیش کیا ہے۔ابنا: دشمنوں کو اس کام سے کیا فائدہ پہنچنے والا تھا؟اصل میں اسی مقصد کے پیش نظر جس کے تحت طول تاریخ میں فضائل اہلبیت(ع) کو چھپایا گیا یہ کام بھی انجام پایا ہے تاکہ وہ حضرت خدیجہ کو ترازو کے ایک پلے اور عائشہ کو دوسرے پلے پر رکھ کر وزن کریں اور حضرت خدیجہ کی شخصیت کو ہلکا ظاہر کریں۔لہذا ان افراد نے حضرت خدیجہ کی عمر کو ۴۰ سال گھڑ کران کے سن رسیدہ ہونے کو نقص شمار کریں اور اس کے بعد جناب عائشہ کی عمر کو پیغمبر (ص) سے شادی کے وقت ۹ سال یا بعض کے بقول ۷ سال قرار دے کر ان کی اہمیت کو بڑھائیں۔ابنا: لیکن جناب عائشہ کا شادی کے وقت کم عمر کا ہونا تو اس دور میں خاص کر مغربی سماج میں اسلام کا ایک ضعیف پوینٹ کہا جاتا ہے۔۔ جی ہاں، اگرتاریخ پر دقیق نگاہ دوڑائی جائے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ جناب عائشہ کی عمر جیسا کہ کم دکھلائی جاتی ہے تھی نہیں، ذہبی لکھتےہیں: جناب عائشہ کی بہن اسماء شب ہجرت کو ۲۷ سال کی تھی۔ اور جناب اسماء اور جناب عائشہ کے درمیان ۱۰ سال کا فاصلہ تھا۔ لہذا عائشہ ہجرت کے وقت ۱۷ سال کی تھیں۔ پیغمبر اکرم(ص) نے ہجرت کے سال تو شادی نہیں کی بلکہ ہجرت سے دوسال بعد عائشہ سے شادی کی۔ یعنی جب حضرت رسول خدا(ص) نے جناب عائشہ سے شادی کی تو وہ ۱۹ سال کی تھیں۔ لیکن کچھ لوگوں نے کوشش کی کہ ان کی عمر کو کم ظاہر کریں اور حضرت خدیجہ کی عمر کو زیادہ پیش کریں۔ابنا: اس ماجرے کی وجہ کیا ہے؟ یعنی کیوں ان دو خواتین کو ترازو کے دو پلوں میں رکھ کر ان کا آپس میں تقابل کیا جاتا ہےَ؟۔ اس امر کے مختلف دلائل اور وجوہات ہیں۔ اس کی اہم ترین وجہ بنی امیہ کا پروپیگنڈہ تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ بنی امیہ ابتدا سے ہی اسلام کے دشمن تھے۔ اور آخری دم تک وہ حقیقی اسلام کے ساتھ بر سر پیکار رہے ہیں۔ فتح مکہ کے بعد جو لوگ منافقت سے مسلمان ہوئے انہوں نے اسلام کو مٹانے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ لہذا فطری بات ہے کہ جو کوئی بھی اسلام ناب کے مقابلے میں کھڑا ہو گا وہ اس کی حمایت کریں گے۔  پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد انہیں دو طرح کے اسلام کا سامنا ہوا ایک جناب خدیجہ(س) اور امیر المومنین علی (ع) کا اسلام جس میں سراپا فداکاری اور جانثاری پائی جاتی تھی جس میں جان و مال سب کچھ پیغمبر اسلام (س) پر قربان کر دیا گیا تھا اور دوسرا خلفاء کا اسلام جس میں سنت رسول کے بجائے اپنے طور طریقے کو اسلام کا جزء بنایا جا رہا تھا جس میں معاویہ اور مروان جیسے میدان عمل میں اتر آئے تھے۔ اور جنگ جمل میں امام وقت کے مدمقابل تلوار چلا دی گئی تھی اور حقیقی اسلام کا چہرہ مٹانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہاں پر بنی امیہ کس کا ساتھ دیں گے؟ یقینا انہوں نے فرصت کو غنیمت سمجھا اور دوسرے قسم کے اسلام کی حمایت کی۔اس گروہ نے نہ صرف حضرت خدیجہ(س) کی اہمیت کو کم کیا بلکہ باقی ازواج رسول (ص) کے ساتھ بھی ویسا سلوک کیا۔ جبکہ ہمارے نزدیک جناب خدیجہ (س ) کے بعد جناب ام سلمہ کا دوسرا مقام ہے۔ لیکن انہوں نے پیغمبر اکرم (ص) کے علم و فقاہت و ان کی ساری محبت کو صرف جناب عائشہ سے مخصوص کر دیا۔ گویا کہ اگر دنیا میں کوئی فقیہ ہے تو وہ جناب عائشہ ہیں۔ کوئی پیغمبر کا محبوب ہے تووہ صرف عائشہ ہیں۔ یہ لوگ کبھی کبھی اس قدر اس سلسلے میں مبالغہ آرائی کرتے ہیں کہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ پیغمبر اکرم (ص) جو دنیا کے عادل ترین انسان ہیں انہیں بھی نعوذ باللہ عدالت سے خارج کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر بخاری جناب عائشہ سے ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ اس روایت کو جو بھی پڑھتا ہے اسکے اندر پیغمبر اکرم(ص) کی نسبت بدگمانی پیدا ہو جاتی ہے (نعوذ باللہ)۔ اس کا کلی مفہوم یہ ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) کو جناب عائشہ سے اتنی محبت تھی کہ وہ عدالت کی رعایت بھی نہیں کرتے تھے یعنی جو عدالت تمام بیویوں کے درمیان برقرار کرنا چاہیے آپ اس کی رعایت نہیں کرتے تھے جبکہ خود آپ نے اس عدالت کی رعایت کا حکم دیا ہے۔ کیا بخاری اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہوئے کہ جو شخص نعوذ باللہ اپنی بیویوں کے درمیان عدالت نہیں قائم کر سکتا وہ دنیا میں کیسے عدل و انصاف قائم کر سکتا ہے؟لہذا ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بنی امیہ اور ان کے پیروکار امیر المومنین علی (ع)، حضرت خدیجہ(س) اور حضرت زہرا(ع) کے فضائل گھٹانے کے لیے حاضر ہیں کہ رسول اسلام (ص) کے حقیقی چہرے کو بھی مسخ کر دیں!ابنا: اس پروپیگنڈے کی دیگر وجوہات کیا تھیں؟۔ ایک مسئلہ یہ تھا کہ پیغمبر اکرم(ص) ہمیشہ جناب خدیجہ (س) کو یاد کرتے تھے اور فرماتے تھے: خدیجہ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں جب تم اور تمہارے باپ مجھ سے جنگیں کر رہےتھے، اس نے اس وقت میری مدد کی جب کوئی میرا سہارا نہیں تھا‘‘۔ ابن ابی الح