اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : تنا
جمعہ

19 اپریل 2013

7:30:00 PM
411064

انٹرویو:

مولانا عبد الحسین الحسینی،ایم ڈبلیو ایم خیبر پختونخوا میں عوامی توقعات پر پورا اترنے کیلئے کوشاں

مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کا انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ جب ایم ڈبلیو ایم وجود میں نہیں آئی تھی تو شیعہ کی کوئی شناخت نہیں تھی۔ یعنی ہمارے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر مارا جا رہا تھا، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ ہمارے بعض قائدین جنہیں جیلوں میں پڑے 14، 14 سال ہوگئے، ان کا کیس کوئی چلانے والا نہیں تھا۔مجلس وحدت مسلمین جب آئی تو اس نے حکومت کو بتا دیا کہ ہم نے پاکستان کو بنایا تھا اور ہم ہی پاکستان کو بچائیں گے۔ اس پاکستان پر سب سے زیادہ حق اہل تشیع کا ہے۔ کیونکہ جب 1947ء میں نواب صاحب نے پاکستان کے فوجیوں کو تنخواہیں نہ دی ہوتیں تو میں حکومت پاکستان کو واضح الفاظ میں کہتا ہوں کہ تمہارے فوجی بھاگ گئے ہوتے اور پاکستان پر بھارت دوبارہ قبضہ کرلیتا۔

ابنا:  مولانا سید عبدالحسین الحسینی کا بنیادی تعلق ضلع ہنگو کے علاقہ ابراہیم زئی سے ہے، آپ نے ابتدائی تعلیم کوہاٹ سکول نمبر ایک سے حاصل کی۔ جامعتہ المنتظر سے مذہبی تعلیم حاصل کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے عربی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ دو سال تک جامع مسجد محمد علی سوسائٹی کراچی میں خطیب کی حیثیت سے ذمہ داریاں بھی ادا کیں۔ اس کے بعد سعودی عرب چلے گئے اور وہاں سپریم کورٹ کے ترجمان کی حیثیت سے کام کیا۔ پاکستان واپسی پر وحدت کونسل ہنگو کے سینئر نائب صدر کے طور پر عہدہ سنبھالا، اور پھر مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے مولانا سید عبدالحسین الحسینی کیساتھ صوبہ خیبر پختونخوا کی صورتحال، تنظیمی فعالیت اور آئندہ الیکشن کے حوالے سے ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔

آپ سے پہلا سوال یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں مجلس وحدت مسلمین دیگر صوبوں کی نسبت اب تک اتنی فعال کیوں نہیں نظر آتی۔؟

بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ گزارش یہ ہے کہ ہمارے صوبہ خیبر پختونخوا کی جو صورتحال ہے یہاں بہت ساری مشکلات ہیں، باقی جو صوبے ہیں وہاں کے پی کے کی نسبت وہ مشکلات نہیں ہیں۔ خاص کر اوکرزئی اور بنگش کا جو علاقہ ہے وہاں کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ وہ ہمیں آگے چلنے ہی نہیں دیتے۔ مثلاً کچھ دن پہلے مسجد رئیسان کے مسئلہ پر ہماری کمشنر انیس صاحب، ڈی سی او عباسی صاحب اور ڈی پی او سعید صاحب کیساتھ میٹنگ ہوئی۔ اور ہماری اس حوالے سے بات ہوئی کہ ہم یہاں ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے شیعہ سنی کا مشترکہ جلسہ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن حکومت نے ہمیں اس وجہ سے اجازت نہیں دی کہ حالات اس قدر خراب ہیں کہ ہم آپ لوگوں کو سکیورٹی مہیا نہیں کرسکتے۔ سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ سکیورٹی کا مسئلہ درپیش ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے اہلسنت علماء سے مکمل رابطے ہیں، حتیٰ کہ جب عباس ٹاون کا واقعہ ہوا تو انہوں نے ایم ڈبلیو ایم کیساتھ ملکر احتجاج کیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مجلس وحدت مسلمین اتحاد بین المسلمین کیلئے بہت زبردست کام کر رہی ہے۔

ہم شیعہ اور سنی بالکل متحد ہیں۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو میں یہ کہوں گا کہ اس وقت جو فعالیت دیگر صوبے کر رہے ہیں وہ ہم نہیں کر پا رہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت جو ہمیں حالات درپیش ہیں وہ انتہائی خراب ہیں۔ ہم چاروں طرف سے حصار میں ہیں۔ قدم قدم پر طالبان ہیں، دہشتگرد ہیں۔ اگر یہ مسائل ہمیں درپیش نہ ہوتے تو یقیناً ہم اپنے صوبے میں بہت کام کرتے۔ اس کے علاوہ ہم نے کافی کام کیا بھی ہے۔ آپ کسی سے بھی پوچھ لیں تو وہ ایم ڈبلیو ایم کی کارکردگی کو سراہتے ہیں۔ ہمارے تمام شیعہ تنظیموں سے بھی بہت اچھے روابط اور تعاون ہے، چاہے وہ شیعہ علماء کونسل ہو، امامیہ علماء کونسل ہو۔ مجلس وحدت مسلمین کا مقصد اولین یہی ہے کہ اتحاد و اتفاق ہو۔ افتراق سے ہم بچیں۔ ہدف ہمارا ایک ہے۔ تمام مسلمانوں کے مابین اتحاد بھی ہمارا ہدف ہے۔ مسلمانوں کے تمام فرقوں کے درمیان کوئی مسئلہ نہیں، محض ایک تکفیری فرقہ ہے جو مسائل پیدا کر رہا ہے۔

اس وقت ہمارے ہنگو میں مختلف اشتہارات آویزاں کئے جا رہے ہیں کہ مفتی کفایت اللہ شیر سرحد صاحب کی قیادت میں بغض صحابہ لعنت اللہ۔ حب صحابہ رحمت اللہ۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ہم نے کب صحابہ سے بغض کیا ہے۔ ہم تو صحابہ کے نام پر جان قربان کرنے والے ہیں، لیکن جو رسول (ص) کے صحابہ ہیں۔ میں سید عبدالحسین الحسینی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کی حیثیت سے واضح طور پر کہتا ہوں کہ ہماری یہ کوشش ہے کہ اتحاد و اتفاق ہو اور شیعہ سنی ملکر ایک زبردست محاذ بنائیں، جو کفار کے مقابلہ میں ہو۔ کیونکہ کفار کی جانب سے جب ایک میزائل آتا ہے تو اس پر یہ نہیں لکھا ہوتا کہ یہ شیعہ کے گھر میں جاکر گرے یا سنی کے گھر میں جاکر گرے۔ امریکہ کی جانب سے کوئی میزائل آتا ہے تو وہ مسلمان کے گھر پر آکر گرتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دشمن کو نہیں پہچانا۔ خداوند تعالٰی نے قرآن میں واضح اعلان فرمایا کہ ‘‘اے بنی آدم تم سے یہ وعدہ نہیں کیا گیا کہ تم اپنے دشمن کو پہچانو اور وہ دشمن تمہارا شیطان ہے۔’’ اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن امریکہ اور اسرائیل ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے دشمن کو پہچانیں، شیطان اکبر کو پہچانیں۔

اب چونکہ مجلس وحدت مسلمین کے رسمی طور پر دوسری مرتبہ نئے مرکزی سیکرٹری جنرل کا انتخاب ہوچکا ہے۔ وہ اہداف کس حد تک حاصل کئے گئے ہیں، جس کی بنیاد پر مجلس وحدت مسلمین کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔؟

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ دنیا کو معلوم ہے اور میڈیا باخبر ہے کہ جب ایم ڈبلیو ایم وجود میں نہیں آئی تھی تو شیعہ کی کوئی شناخت نہیں تھی۔ یعنی ہمارے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر مارا جا رہا تھا، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ ہمارے بعض قائدین جنہیں جیلوں میں پڑے 14، 14 سال ہوگئے، ان کا کیس کوئی چلانے والا نہیں تھا۔ مجلس وحدت مسلمین جب آئی تو اس نے حکومت کو بتا دیا کہ ہم نے پاکستان کو بنایا تھا اور ہم ہی پاکستان کو بچائیں گے۔ اس پاکستان پر سب سے زیادہ حق اہل تشیع کا ہے کیونکہ جب 1947ء میں نواب صاحب نے پاکستان کے فوجیوں کو تنخواہیں نہ دی ہوتیں تو میں حکومت پاکستان کو واضح الفاظ میں کہتا ہوں کہ تمہارے فوجی بھاگ گئے ہوتے اور پاکستان پر بھارت دوبارہ قبضہ کرلیتا۔ رہی بات ایم ڈبلیو ایم کی، تو جب ایم ڈبلیو ایم وجود میں نہیں آئی تھی تو ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ ہمارے جوانوں کو شہید کیا جا رہا تھا، کوئی آواز اٹھانے والا نہیں تھا۔

میں اپنے آبائی علاقہ کے حوالے سے آپ کو بتاوں کہ کلایہ میں خادم حسین کو ذبح کر دیا گیا۔ سرفراز حسین کو ذبح کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ لوگوں کو اغواء کرنا اور تاوان طلب کرنا معمول بن گیا تھا۔ ایم ڈبلیو ایم نے اس اغواء برائے تاوان کے سلسلے پر بہت حد تک قابو پا لیا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا بھر میں جو کام کر رہی ہے، اگر امن و امان کے حوالے سے ہمیں مشکلات نہ ہوتیں تو ہم بہت حد تک کامیابیاں سمیٹ چکے ہوتے۔ میں آپ کو ایک بات بتاوں کہ متنی ایک علاقہ ہے، جو دہشتگردوں کا گڑھ ہے۔ مجھے فون آیا، اور کہا گیا کہ آپ عبدالحسین الحسینی ہیں؟ میں نے کہا جی بالکل۔ مجھے کہا کہ جب آپ گاڑی میں بیٹھے ہیں تو کلمہ پڑھتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہم صبح سے شام تک کلمہ میں ہی رہتے ہیں۔ اس نے کہا آپ کے پاس ایک ڈرائیور ہے، ایک گارڈ ہے، فلاں گاڑی نمبر ہے، آپ کو کبھی بھی دھماکہ سے اڑایا جاسکتا ہے۔

میں نے ان سے کہا کہ ہماری پوری قوم حسینی ہے۔ ہم اولاد حسین (ع) ہیں۔ وہ بارود ابھی بنا نہیں جس سے ہم اڑ جائیں، ہمارا ایمان ہے کہ جس دن ہم نے اس دنیا سے جانا ہے اس روز ہمیں جانے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی، چاہے آپ لوہے کی دیواروں میں بھی خود کو بند نہ کرلیں۔ اس حد تک ان کی ڈائریکٹ ہم سے باتیں ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود ہم ان علاقوں میں جاتے ہیں، جہاں ہمیں بہت خطرہ ہے۔ کیونکہ ہمارے امام (ع) نے، ہمارے آقا و رہبر نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ موت تو ایک عادت ہے لیکن شہادت کرامت ہے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ شہادت کی موت مریں۔ لہذا ہم خیبر پختونخوا میں ان تمام تر نامساعد حالات کے باوجود بہت کام کر رہے ہیں، اور انشاءاللہ آئندہ اس سے بڑھ کر کریں گے۔ میں چونکہ تین ماہ سے خیبر پختونخوا سے باہر تھا، اب میں آگیا ہوں، ہماری پوری ٹیم بھرپور کام کرے گی اور قوم کی توقعات پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔

آئندہ الیکشن کے حوالے سے مجلس وحدت مسلمین صوبائی سطح پر کہاں کھڑی ہے، اور ملک بھر کے حوالے سے اگر میں بات کروں تو آپ کس حد تک پاکستان کے مروجہ سیاسی نظام میں تبدیلی آتی دیکھتے ہیں۔؟

مجلس وحدت مسلمین نے صوبہ خیبر پختونخوا میں براہ راست کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔ تاہم معتدل اور ہم خیال افراد کو سپورٹ کیا جائے گا اور دہشتگردوں اور منفی سوچ رکھنے والے عناصر کو کسی صورت بھی ایوانوں میں نہیں پہنچنے دیا جائے گا۔ جس طرح پی کے 42 اور این اے 16 سے سید ابن علی الحسینی کو اسلامی تحریک نے اپنا امیدوار نامزد کیا، ہم ان کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔ اس طرح ڈیرہ اسماعیل خان سے مجلس وحدت مسلمین کے حمایت یافتہ امیدوار خادم حسین صاحب ہیں، اب اسلامی تحریک نے بھی ان کی حمایت کر دی ہے۔ میں نے خود رمضان توقیر صاحب سے بات کی، میں نے عارف واحدی صاحب سے بات کی ہے۔ اس کے علاوہ میں نے اپنے محترم امین شہیدی صاحب سے جب بات کی تو انہوں نے کہا کہ ضابطہ اخلاق دستخط ہونے کے بعد ہم رسمی طور پر ان کے امیدوار کی حمایت کریں گے۔ اسی طرح صوبہ میں جہاں بھی شیعہ امیدوار کھڑے ہوں گے، مجلس وحدت مسلمین اپنی سیاسی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان شیعہ اور معتدل اہلسنت امیدواروں کی حمایت کرے گی۔ پاکستان بھر کے حوالے سے بات کی جائے تو ہم نے 137 کے قریب امیدوار نامزد کئے ہیں، اور انشاءاللہ قوم بہترین نتائج دیکھے گی۔

آپ نے ضابطہ اخلاق کا ذکر کیا، جس پر بعض علمائے کرام نے دستخط کر دیئے ہیں، آپ کے خیال میں یہ ضابطہ اخلاق ملت کی وحدت اور سربلندی کیلئے کس حد تک معاون ثابت ہوسکتا ہے۔؟

اقوال زریں میں سے ہے کہ ‘‘اتحاد میں زندگی ہے اور اتفاق میں برکت ہے۔’’ اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں ہے کہ ہمیں اس وقت سب سے زیادہ اتحاد و وحدت کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنی اناں کو چھوڑیں، اگر ہم اپنے شخصی مفادات کو چھوڑ دیں، قوم، ملت اور مذہب کیلئے کام کریں تو کوئی بعید نہیں کہ ہم کامیابی سے ہمکنار نہ ہوں۔ لیکن یاد رکھیں کہ آدمی کے اندر جب یہ بات ضم ہو جائے کہ جو ہوں وہ میں ہی ہوں، اور دوسرا آدمی کوئی آدمی ہی نہیں ہے، تو وہ اس دنیا میں بھی ذلیل ہے اور اس دنیا میں بھی خوار ہوگا۔ گیارہ گناہ کبیرہ ہیں، میں یہ دعوے سے کہتا ہوں کہ آپ نے کبھی بھی اسٹیج سے یہ بات نہیں سنی ہوگی کہ گناہ کبیرہ میں ایک گناہ قطع رحمی ہے۔ یعنی تعلقات کو منقطع کرنا۔

اگر ہم قطع رحمی کو چھوڑ کر صلح رحمی کو اپنائیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم اس دنیا میں بھی کامیاب ہیں اور اس دنیا میں بھی کامیاب رہیں گے۔ تو لہذا اتحاد ہونا چاہئے، اتفاق ہونا چاہے، ہم تو خاکسار ذہن کے مالک ہیں۔ علامہ عارف حسین الحسینی نے ہمیں یہ درس دیا ہے کہ جو اپنے آپ کو خاک سمجھے خداوند تعالٰی اس کا نام آسمانوں پر لکھتا ہے، اور جو اپنے آپ کو آسمان سمجھے، اس کو زمین بوس کرتا ہے۔ ضابطہ اخلاق خوش آئند اقدام اور ملت تشیع کی وحدت کی طرف سفر کا آغاز ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے علامہ ناصر عباس جعفری نے ضابطہ اخلاق پر دستخط کر دیئے ہیں۔ اس کی تکمیل سے پاک