اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
اتوار

14 اپریل 2013

7:30:00 PM
409257

آیت اللہ العظمی علوی گرگانی کے ساتھ ابنا کا خصوصی انٹرویو

فاطمہ زہرا (س) کمپاس تخلیق کا مرکزی نقطہ/ کچھ شبہات اور ان کے جوابات/ مکہ کے وہابی علماء کے ساتھ ایک مناظرے کا واقعہ

اہلبیت (ع) نیوز ایجنسی ۔ابنا۔ حضرت فاطمہ زہرا(س) کے یوم شہادت کی مناسبت سے مرجع تقلید حضرت آیت اللہ علوی گرگانی کے ساتھ ابنا کے سربراہان نے گفتگو کی۔

ابنا: ہم آپ کے شکر گزار ہیں جو آپ نے اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا ہے، پہلا سوال ہمارا یہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شخصیت کی ایک جامع تعریف کیجئے۔آیت الله علوی گرگانی: بسم الله الرحمن الرحيم. الحمدلله، والصلاة و السلام علي رسول الله وعلي آله آل الله، و اللعن الدائم علي اعدائهم اعداء الله.کسی شخصیت یا کسی چیز کو پہچنوانے کے لیے ضروری ہے کہ خود انسان اس شخص یا چیز سے بالاتر منزل میں ہو یا دوسرے الفاظ میں یوں کہوں کہ معرِّف کو چاہیے کہ معرَّف سے اعلی اور اعرف ہو۔ یہ قاعدہ علم منطق و فلسفہ کے مسلمہ اصول میں سے ہے۔ اس کہ وجہ بھی یہ ہے کہ اگر تعریف کرنے والا اس چیز سے بالاتر منزل  میں نہ ہو جس کی تعریف کر رہا ہے، اس کی تمام خصوصیات اور صفات سے آشنا نہ ہو تو کما حقہ اس کی تعریف نہیں کر پائے گا اس کو صحیح معنی میں نہیں پہچنوا پائے گا۔ اسی وجہ سے پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:  "تَفَكَّرُوا فِي آلاءِ اللَّه وَ لا تَتَفَكَّرُوا فِي ذاتِ اللَّه"(1)؛ ( اللہ کی نشانیوں میں غور و فکر کرو لیکن اس کی ذات کے بارے میں غور و فکر نہ کرنا) یا امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:  "إِيَّاكُمْ وَ التَّفَكُّرَ فِي اللَّهِ فَإِنَّ التَّفَكُّرَ فِي اللَّهِ لا يَزِيدُ إِلا تَيْهاً إِنَّ اللَّهَ لا تُدْرِكُهُ الابصَارُ وَ لا يُوصَفُ بِمِقدار۔(۳) ( خبردار اللہ کی ذات میں تفکر نہ کرنا چونکہ اللہ کی ذات میں غور و فکر کرنے سے سوائے حیرت اور سرگردانی کے کچھ ہاتھ نہیں لگے گا۔اس لیے کہ نگاہیں اسے درک نہیں کر سکتیں اور کسی مقدار اور اندازے سے اس کی توصیف نہیں ہو سکتی یعنی اس کی توصیف کی کوئی مقدار معین نہیں ہے۔) "ان الله قد احاط بکل شیء علماً"(3).( بیشک خدا علم کے اعتبار سے ہر چیز پر مکمل احاطہ رکھتا ہے)۔اس مقدمہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ، حضرت فاطمہ زہرا (س) اور ائمہ معصومین (ع) کی نسبت ہماری معرفت کا یہی حال ہے۔ یعنی یہ شخصیات ہماری نسبت مکمل علم رکھتی ہیں لیکن ہماری شناخت ان کی نسبت کچھ بھی نہیں۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «يا علي! لايعرف اللّه تعالي الا انا و انت و لايعرفني الا اللّه و انت و لا يعرفک الا اللّه و انا(۵) اے علی میرے اور آپ کے علاوہ اللہ کو کسی نہیں پہچانا۔ آپ کے اور خدا کے علاوہ مجھے کسی نے نہیں پہنچانا اور آپ کو اللہ اور میرے علاوہ کسی نے نہیں پہچانا۔ پیغمبر اکرم (ص) کی یہ تعبیر تکلف نہیں ہے مذاق نہیں ہے۔ حقیقت اور واقعیت ہے یعنی اگر ان شخصیات کی تعریف کرنا مقصود ہو تو خود انہیں سے ایسا سوال کیا جائے۔ وہی یہ کام کر سکتے ہیں۔لہذا ہم خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ فاطمہ زہرا (س) کی شخصیت کو ہمیں پہنچنوا دیجیے۔ نہ مجھ سے یہ سوال کریں جس کے پاس اس دریائے علم کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے۔ پس اگر حضرت فاطمہ زہرا (س) کی تعریف مقصود ہو تو آپ کے والد بزرگوار پیغمبر اکرم (ص) یا آپ کے شوہر نامدار حضرت علی مرتضیٰ (ع) سے یا خود خدوند عالم سے یہ سوال کرنا پڑے گا۔ ہمیں ان کی بارگاہ میں جانا چاہیے اور ان سے آپ (س) کی شخصیت کی تعریف معلوم کرنا چاہیے۔ابنا: خدا اور رسول (ص) نے حضرت زہراء مرضیہ (س) کی کیا تعریف کی ہے؟آیت الله علوی گرگانی: جب ہم خدا اور رسول (ص) کی جانب سے کی ہوئی حضرت زہرا(س) کی تعریف پر نگاہ ڈالتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت زہرا (س) کو کمپاس تخلیق کا مرکزی نقطہ قرار دیا ہے۔ خداوند عالم نے تمام عالمین کی خلقت کو ایک دائرہ میں بند کیا ہے کہ جس کا مرکز حضرت زہرا ہیں۔مثال کے طور پر حدیث کساء میں جناب جبرئیل پوچھتے ہیں: خدایا کساء کے نیچے کون ہیں؟ خداوند عالم نہیں فرماتا پیغمبر ہیں اور ان کی اولاد ہے۔ بلکہ خدا کہتا ہے: "هم فاطمة و ابوها و بعلها و بنوها". یعنی کمپاس کا وہی مرکزی نقطہ۔ خداوند عالم نے حضرت زہرا کو پیغمبر اکرم، علی او حسنین علیہم السلام کی معرفت کا مرکز قرار دیا۔ لہذا معلوم ہوتا ہے کہ یہ خاتون نبوت اور ولایت کا حقیقی مرکز ہیں گویا نبوت اور ولایت کا درمیانی جوڑ ہیں۔پیغمبر اکرم نے حضرت زہرا کو ’’ام ابیہا‘‘ کی کنیت سے نوازا۔ بہت سے لوگ ام ابیہا کے معنی کو درک نہیں کر پائے کہ یہ کیا ہے؟ در حقیقت اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت زہرا (س) مرکزی نقطہ ہیں۔ لہذا ام ابیہا کا مطلب یہ ہو گا کہ اگر حضرت زہرا(س) نہ ہوں تو پیغمبر کے پاس کوئی مرکزی نقطہ نہیں رہے گا تو کائنات بکھر جائے گی۔دوسری بات حضرت زہرا کو پہچنوانے کے حوالے سے پیغمبر اکرم (ص) کا آپ کی نسبت عجیب قسم کا احترام تھا۔ دنیا کی رسم ہمیشہ یہ رہی ہے کہ امام یا نبی کا ہاتھ چوما جائے۔ یعنی ماموم کو امام کا ہاتھ چومنا چاہیے امت کو نبی کے ہاتھ کا بوسہ لینا چاہیے۔ لیکن یہاں برعکس نظر آ رہا ہے پیغمبر(ص) زہرا کے دست مبارک کا بوسہ لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ روایات میں ہے کہ جب رسول خدا (ص) حضرت زہرا (س) کے پاس آتے تھے تو حضرت زہرا (س) اپنی جگہ سے اٹھ جاتی تھیں اور بابا کو اپنی جگہ پر بٹھاتی تھیں اور بابا کے ہاتھ کا بوسہ لیتی تھیں اور جب فاطمہ (س) رسول اسلام(ص) کے پاس جاتی تھیں تو رسول اپنی جگہ سے اٹھ کر فاطمہ (س) کو اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے اور آپ کے ہاتھ کا بوسہ لیتے تھے۔ ان روایات کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یقینا اگر یہ بانو اس اعلی مرتبہ پر فائز نہ ہوتیں تو پیغمبر اپنی عظمت کے ساتھ آپ کے ہاتھ کا بوسہ لیتے؟

آپ کی ایک اور بے نظیر فضیلت آپ کی ولادت کی داستان ہے۔ میں نے ایام فاطمیہ کی پہلی مجلس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا۔ مفسرین معمولا "انا اعطيناك الكوثر"(6)  کی تفسیر میں کوثر کے مادہ یعنی ک ث ر کی طرف گئے ہیں اور اس کے معنی کئے ہیں خیر کثیر۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ حضرت زہرا (س) کس طرح سے خیر کثیر تھیں؟ اور پھر کچھ شقیں اس میں سے نکالتے ہیں۔ میری نظر میں یہ تفسیر اچھی ہے میں اس کو رد نہیں کرتا۔ لیکن ممکن ہے کوثر ایک دوسری جہت سے بھی مراد ہو۔  حضرت زہرا (س) کی ولادت کا واقعہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) ’’ ابطح‘‘ کے مقام پر کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک جبرئیل امین نازل ہوئے اور کہا یا رسول اللہ آج سے خدیجہ کے پاس نہیں جانا۔ چالیس راتیں اللہ کی عبادت میں صرف کریں۔ آنحضرت اس مدت جناب خدیجہ کے پاس نہیں گئے اور ام ہانی کے گھر میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ چالیسویں رات کو بہشت سے آپ کے لیے کھانا آیا جس میں بہشتی خرما، انگور اور آب کوثر تھا۔ آنحضرت نے اس بہشتی مائدہ کو تناول فرمایا اس کے بعد حضرت خدیجہ کے پاس گئے اور اس بہشی غذا سے حضرت زہرا وجود میں آئیں۔ احتمال پایا جاتا ہے کہ جو حضرت زہرا کو کوثر کہا جاتا ہے وہ اس لیے ہو کہ «لانها خُلقت من ماء الكوثر» آپ آب کوثر سے پیدا ہوئیں۔ یعنی خدا جو اس سورہ میں فرما رہا ہے کہ ہم نے آپ کو کوثر دیا یعنی زہرا کو آب کوثر سے خلق کر کے آپ کو دیا۔ میں نے تحقیق کی یہ چیز خود رسول خدا کے سلسلے میں بھی مجھے نہیں ملی کہ آپ کا وجود بھی آپ کوثر سے خلق ہوا ہو۔ امیر المومنین امام حسن یا امام حسین علیہم السلام کسی اور کے لیے یہ فضیلت نہیں ملتی۔یہ فضیلت مخصوص ہے حضرت فاطمہ زہرا (س) سے۔ لہذا اہلسنت کے راویوں نے جناب عائشہ سے یہ روایت نقل کی ہےکہ : پیغمبر اکرم اپنی بیٹی زہرا کا بہت زیادہ بوسہ لیتے تھے میں نے اس بات پر اعتراض کیا کہ یا رسول اللہ اچھی بات نہیں ہے آپ اپنی شادی شدہ بیٹی کا اتنا بوسہ لیتے ہیں۔ پیغمبر اکرم نے مجھے جواب دیا:  یہ بات مت کرو میں فاطمہ سے جنت کی خوشبو سونگھتا ہوں۔حضرت زہرا (س) ائمہ اطہار (ع) کے درمیان بھی عظیم مقام کی حامل ہیں۔ مثلا امام حسن عسکری(ع) فرماتے ہیں: "نحنُ حُجَجُ اللّهِ عَلى خَلقِهِ وَ فاطمةُ حُجةٌ عَليَنا (۷)ـ ہم اللہ کے بندوں پر اس کی حجتیں ہیں اور فاطمہ ہمارے اوپر حجت ہیں۔ لہذا آپ تمام بزرگان کے لیے اسوہ اور حجت ہیں۔ان چند ایک روایات سے جن کی طرف یہاں اشارہ کیا ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زہرا کا مقام سب سے بلند مقام ہے۔ابنا: بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ حضرت زہرا (س) چودہ سو سال پہلے کی خواتین کے لیے نمونہ عمل تھیں لیکن آج کے دور میں یعنی اس پیشرفتہ دور میں آپ کیسے نمونہ عمل ہو سکتی ہیں؟آیت اللہ علوی گرگانی: ایسا نہیں ہے کہ حضرت زہرا صرف ایک زمانے سے مخصوص رہی ہوں صرف صدر اسلام کے زمانے سے مخصوص رہی ہوں۔ ہم نے جو روایات بیان کی ہیں انہیں کے تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو یہ واضح ہو جاتا ہےکہ آپ چودہ سو سال پہلے کے زمانے سے مخصوص نہیں تھیں۔ بلکہ آپ کا وجود ابتدائے کائنات سے لے کر انتہائے کائنات تک مرکزیت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم نے اس گفتگو میں آپ (س) کی خلقت سے پہلے کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا۔ حضرت زہرا (س) اپنے ظاہری وجود سے پہلے بھی خلقت کا مرکز تھیں۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت زہرا کا مقام اس سے بہت بالا ہے کہ ہم انہیں درک کر سکیں ان کی توصیف کر سکیں جو کچھ رسول خدا(ص) اور ائمہ اطہار (ع) نے بیان کیا ہے اس سے ہم یہی سمجھتے ہیں کہ آپ کا وجود مبارک ہمیشہ سے باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گا اور آپ قیامت تک تمام انسانوں مرد و زن سب کے لیے نمونہ عمل ہیں۔

ابنا: یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ(س) کے بے نظیر فضائل اور کمالات بعض لوگوں کے لیے باعث تعجب بنتے ہیں یا آپ(س) ہی کے مشابہ البتہ نچلے مقام پر حضرت معصومہ(س) بھی ہیں، یہ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیسے یہ شخصیات اتنی کم عمر میں اتنے اونچے مقام پر فائز ہو گئیں کہ پیغمبر اکرم جیسی شخصیت جناب زہرا (س) کے ساتھ ویسا سلوک کرتی نظر آتی ہے اور ادھر امام موسی کاظم علیہ السلام ایک معصوم امام ہونے کے ناطے حضرت معصومہ (س) کے بارے میں یہ فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں: فداھا ابوھا۔ برائے مہربانی اس مسئلہ کی بھی وضاحت کر دیجئے۔آیت اللہ علوی گرگانی: یہ مسئلہ واضح ہے! جب یہ طے پا جائے کہ ان شخصیات کا کما حقہ ادراک ہمارے بس سے باہر ہے اس وقت یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کا مقام کیا ہے؟ اور کیوں ان کا اتنا احترام کیا جاتا رہا ہے؟ اس کو وہی سمجھ سکتے ہیں جو ایسا کر رہے ہیں یا جن کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔البتہ ہم صرف اتنا کہیں گے کہ یہ ذوات مقدسہ ایک استثنائی مخلوقات ہونے کے باوجود ظواہر پر عمل کرنے پر مامور تھے انہوں نے اپنا معنوی وجود دنیا والوں کے سامنے عیاں نہیں کیا تاکہ لوگ حیر