اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
ہفتہ

22 دسمبر 2012

8:30:00 PM
374638

کفن پوش دھرنے کے بارےمیں علامہ ناظرنقوی کے انٹرویوکےخاص نکات

صوبہ سندھ کے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے عالم دین اور شیعہ علماء کونسل سندھ کے جنرل سیکرٹری علامہ ناظر عباس تقوی ملک بالخصوص کراچی میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کیخلاف 14 دسمبر کو کفن پوش دھرنا دینے کا اعلان کیا جو 16 دسمبر کی صبح تک جاری رہا۔ اس دھرنے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں مجلس وحدت مسلمین، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، جعفریہ الائنس، شیعہ ایکشن کمیٹی، تنظیم عزاء سمیت دیگر ملی تنظیمیں بھی بھرپور طریقے سے شریک ہوئیں جو کہ دشمن کی شکست کا کھلا پیغام تھا۔ اسلام ٹائمز نے ان سے دھرنے کے فوائد اور بعد کی صورتحال پر ایک انٹرویو کیا ہے، جس کے خاص نکات:

 ٭ دھرنے کے فوائدملت تشیع جس خوف و ہراس کی فضاء میں عزاداری سیدالشہداء علیہ السلام کر رہی تھی جس کا علماء کرام وغیرہ نے مشترکہ طور پر جائزہ لیا کہ قوم کو خوف و ہراس کی کیفیت سے باہر نکالا جائے اور عزاداری کے حوالے سے حکمرانوں کی پیدا کردہ دہشت کی فضا اور جمود کو توڑا جائے؛ ہم اس بنیادی ہدف کو حاصل کرنے میں سو فیصد کامیاب ہوئے ہیں اور وہ جو خوف و ہراس کی فضاء تھی، اس کو توڑا اور اس کی وجہ سے ساری دنیا کو یہ پیغام گیا کہ تشیع کسی خوف یا کسی دوسری کمزوری کی وجہ سے اپنے فرائض و عزاداری سے پیچھے نہیں ہٹی ہے، بلکہ اپنی قوت و طاقت کا مظاہرہ کرکے ملت تشیع نے اپنے اس الٰہی نعرے کو عملی طور پر ثابت کر دیا کہ یہ درس کربلا کا ہے کہ خوف بس خدا کا ہے۔٭ گورنر سندھ کے ساتھ زیر بحث آنے والے موضوعاتدھرنے کے موقع پر علماء کرام نے مشترکہ طور پر طے کیا کہ کچھ مطالبات بھی سامنے رکھے جائیں۔ اس حوالے سے تمام شریک علماء کرام و تنظیمیں چار دن غور و فکر کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچیں کہ ہمیں حکمرانوں سے کوئی خاص امید نہیں ہے، لیکن ہمیں بتایا جائے کہ دہشت گردوں کے پیچھے کون کون سی قوتیں ہیں اور جب ہم نے یہ مسئلہ اٹھایا تو باقاعدہ لیپ ٹاپ پر ایک اہم بریفنگ دی گئی اور اگر میں وہ بریفنگ لوگوں کے سامنے بیان کردوں تو ایسے انکشافات ہوئے کہ انسان حیران رہ جائے کہ یہ ملک کس ڈگر پر چل رہا ہے اور دہشت گردوں کی صورتحال کیا ہے!اندازہ یہاں سے لگا لیں کہ پاکستان کے ادارے، پاکستان کی فورسز پریشان ہیں اپنا تحفظ کرنے کیلئے، جو صورتحال ہمیں بتائی گئی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادارے کمزور ہیں دہشت گرد قوتوں کے آگے اور بالکل بے بس ہیں، وہ اپنا دفاع کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے شہداء کے لواحقین جن کے گھر میں کوئی کفیل نہیں ہیں، ان کا اگر بیٹا ہے تو اس کی سرکاری نوکری کی بات کی ہے، ہماری بات ہوگئی ہے، انشاءاللہ آج کل میں نوٹیفیکیشن ہمارے ہاتھ میں آجائے گا۔ جو زخمی حضرات دہشت گردوں کا نشانہ بن کر معذور ہوگئے ہیں ان کیلئے بھی ہم نے سرکاری نوکری کا مطالبہ کیا ہے، تو یہ بھی ہمارا مطالبہ قبول ہوگیا۔اس کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہونے والوں کے گھروالوں کو کم از کم بیس لاکھ روپے معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا جو انہوں نے پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔توہین رسالت و توہین صحابہ قانون کے نام پر غیر قانونی و بلاجواز مقدمات، اے ٹی سی کے تحت درج کی جانی والی ایف آئی آر جن کی ایک سال تک ضمانت نہیں ہوتی۔ یہ قانون تو موجود ہے مگر اس کا غیر قانونی استعمال کیا جا رہا ہے اس حوالے سے میٹنگ ہوچکی ہے، اور عمل درآمد پر غور کیا گیا ہے، ہمارے وکلاء نے اطمینان ظاہر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ حکومت اس حوالے سے سنجیدہ ہے اور انشاءاللہ وہ اس پر جلد اقدامات کرے گی۔اس کے علاوہ گلگت میں یوم حسین (ع) کے انعقاد پر طلباء پر بلاجواز تعلیمی پابندی لگائی گئی اس پر صدر زرداری نے (گلگت بلتستان کے وزير اعلی) مہدی شاہ کو فون کرکے کہا ہے کہ یونیورسٹی کے نوٹیفیکیشن پر عمل درآمد نہیں ہونا چاہئے۔ ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، صدر پاکستان کی جانب سے کہ جو طریقہ کار طے کرے گی۔گورنر سندھ نے بتایا کہ اس شہر کے اندر سرنگیں بنی ہوئی ہیں، لوگ تصور نہیں کرسکتے، دہشت گرد وہاں تک پہنچ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ فوجی آپریشن کے حوالے سے بات ہوئی ہماری اور سزا یافتہ سڑسٹھ دہشت گردوں کو پھانسی دینے کے حوالے سے بات ہوئی جو کہ وفاقی سطح کا مسئلہ ہے، اگرچہ انہوں نے ایک مایوس کن بات کی لیکن نتیجہ اللہ پر رکھنا چاہئیے، انہوں نے ایک جملہ یہ کہا کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں ہے، انہوں نے حقائق تسلیم کئے، میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے حقیقت پر مبنی بات کی ہے کہ ہم نے جب کہا کہ صدر مملکت، تو کہنے لگے کہ یہ ان کے بس کی بات بھی نہیں ہے!!!انہوں نے ایک اشارہ دیا جن کے سر پر چار افواج کی کیپ موجود تھی وہ یہ کرنے میں ناکام رہے۔ تو ان باتوں سے ہمیں اندازہ ہوا کہ حکومت میں کتنا وزن ہے، کتنی طاقت رکھتی ہے۔ تو ہمیں کوئی خاص امید یا توقعات نہیں رکھنی چاہئیے! سب سے بڑا فائدہ جو ہمیں، پوری قوم کو ہوا وہ جو اتحاد کی فضاء قائم ہوئی ہے، وہ لوگ جو بے چارے پریشان تھے کہ قوم میں اتحاد نہیں ہے، قوم میں انتشار ہے۔ تو کوئی ایک ایسا نکتہ نہیں ہے کہ جس پر ہمارے درمیان اتحاد نہ ہو۔ پروگرام کے آغاز سے مطالبات تک سب کا ایک ہی مؤقف تھا، سب ایک مؤقف پر ڈٹے رہے۔ لہٰذا یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ دیکھئے اس وقت ہمارے پاکستان میں صورتحال بہت زیادہ خراب ہے، ہم نے مشترکہ جدوجہد کرنی ہے، اگر کوئی یہ گمان کرتا ہے کہ ایک دن میں اس ملک میں انقلاب آجائے گا تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ احمقوں کی دنیا میں رہتا ہے۔ مسلسل جدوجہد کرنی پڑے گی تشیع کے تحفظ کیلئے، ایک راستہ معین کرنا پڑے گا، نتائج کے حصول کیلئے تسلسل کے ساتھ سفر کرنا پڑے گا۔ ہم نتائج کے حوالے سے مایوس نہیں ہیں۔ ہم نے گورنر سندھ کو یہ بھی یادداشت دی ہے کہ ہم پورے سندھ کا ڈیٹا دینے کیلئے تیار ہیں کہ وفاق کی کچھ سرکاری مساجد ایسی ہیں کہ جہاں وہ تکفیری گروہ بیٹھا ہے جو شیعوں کی توہین کرتا ہے، ان سرکاری مساجد سے ان کو فارغ کیا جائے، ہٹایا جائے، تاکہ سرکاری مساجد سے تشیع کے خلاف، مسلمہ فرقوں کے خلاف کوئی بات نہ ہو اور انہوں نے کہا ہے کہ آپ ہمیں ڈیٹا جمع کرکے دیں، ہم نے خط لکھ دیا ہے، آپ ہمیں نشاندہی کرائیں ہم جتنا ہوسکے روکنے کی کوشش کریں گے۔٭ اگر گورنر سندھ عمل نہ کرے تو لائحہ عمل کیا ہوگا؟دیکھیں میں نے بتایا ہے آپ کو کہ ہمارا مطالبات پر اتنا فوکس نہیں تھا، اب تک ان کی نیت صاف ہے اور چیزیں اچھے انداز سے چل رہی ہیں، آج بھی جو لڑکا دہشت گردوں کے حملے میں زخمی ہوا، ہم نے اسے آغا خان اسپتال میں داخل کیا، حکومت نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم اس کا خرچہ اٹھائیں گے، اب تک ان کی نیتیں صاف ہیں، وہ عمل درآمد کر رہے ہیں۔ جب تک وہ ہمارے ساتھ ہیں، ہم بھی ان کے ساتھ چل رہے ہیں، اگر کوئی مسائل پیدا کیے گئے تو اس کیلئے بھی ہم نے حکمت عملی بنائی ہے، جو وقت کے ساتھ تبدیل ہوسکتی ہے اور اس حکمت عملی کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔٭ دھرنے میں اتحاد کا مظاہرہخدا کا شکر ہے اور یہ بہت خوش آئند بات ہے اور انشاءاللہ اس عمل کو مزید بڑھایا جائے گا، آج کل میں ہماری ایک اور مشترکہ میٹنگ ہو رہی ہے، جس میں ہم اپنے نقائص کا جائزہ لیں گے، مشکلات کا جائزہ لیں گے اور کیا فوائد ہم نے حاصل کئے اس پر بھی بات ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دھرنا پاکستان کی تاریخ کا واحد دھرنا ہے کہ جس پر پوری دنیا کی نگاہیں تھیں کیونکہ آپ میڈیا سے وابستہ ہیں آپ کو پتہ ہے کہ جس پر مراجع کی نگاہیں تھیں، تو میں سمجھتا ہوں کہ مراجع کی نگاہیں ہمارے ساتھ ہیں تو یہ ہماری کامیابی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔میں تمام تنظیموں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور مجلس وحدت مسلمین نے ہمارے ساتھ مخلصانہ انداز میں بھرپور تعاون کیا، مشکلات میں ہم نے مشاورت کی، مشورے کئے اور انہوں نے بھی مشکلات سے نکالا۔ میں ان تمام رہنماؤں کا جنہوں نے ہمارا ساتھ دیا، تہہ دل سے ممنون و مشکور ہوں۔ انشاءاللہ ہماری کوشش ہوگی کہ اپنے تمام مفادات کو بالائے طاق رکھ کر جس سلسلے کا آغاز کیا ہے، اس سلسلے کو آگے بڑھائیں۔ ہماری پالیسی بھی یہی ہے کہ جب کہیں جہاں کہیں مثبت کام ہو کہ قرآن کا بھی اصول ہے کہ نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔ تو جہاں اچھا کام ہوگا ہم تعاون کریں گے اور اگر کہیں مخالفت میں اقدام کیا جائے گا تو ہم اپنا دامن کھینچ لیں گے، مگر اس کی مخالفت نہیں کرینگے، یہی ہماری پالیسی ہے۔ ہم نے ایک ساتھ کام کیا ہے، اعتماد بحال ہوا ہے، اتحاد کی فضاء قائم ہوئی ہے، مجھے امید ہے کہ یہ سفر جاری و ساری رہے گا۔٭ سیاسی اور مذہبی جماعتیںبہت ساری سیاسی غیر سیاسی جماعتوں نے ہمیں اپنی حمایت کا یقین دلایا، جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان، سنی تحریک، اے این پی حتیٰ کہ عیسائی رہنماؤں نے ہم سے رابطہ کیا اسلام آباد سے، اس کے علاوہ کچھ این جی اوز نے بھی ہم سے رابطہ کیا۔ بہت سارے لوگ ہمارے ساتھ اس دھرنے میں شریک ہونے کیلئے تیار تھے لیکن کچھ مسائل ایسے تھے کہ ہم ان کی شرکت کو یقینی نہیں بنا پائے۔٭ قوم کے نام پیغامقوم ان عناصر سے محتاط رہے کہ جو پروپیگنڈہ پھیلا کر چاہتے ہیں کہ قوم میں اس دھرنے کے حوالے سے مایوسی پھیلائی جائے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس پروپیگنڈہ سے خود بھی بچیں اور قوم کو بھی محفوظ رکھیں۔ یہ ایک مخصوص گروہ ہے کہ جو ہمیشہ قوم کے درمیان اس ناپاک حرکت میں ملوث رہتا ہے۔ ان لوگوں کو پروپیگنڈہ کے بجائے حقائق کی طرف آنا چاہئیے، قوم کے درمیان جو اتحاد و وحدت کی فضاء قائم ہوئی ہے اس کو آگے بڑھانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں، نہ کہ اپنی اور قوم کی توانائی منفی پرپیگنڈہ میں ضائع کریں۔ پروپیگنڈہ کرنے والوں کو یہ بھی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ پروپیگنڈہ کرنے کے بجائے شہداء کے خانوادوں کے کوائف جمع کریں جو پریشان حال ہیں، یہ ایک دشوار کام ہے، اس میں ہمارے ساتھ تعاون کریں، تاکہ ان کو حقوق دلائے جاسکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔/110