اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : جعفریہ پریس
پیر

18 جون 2012

7:30:00 PM
323421

علامہ سید افتخار حسین نقوی:

اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین کی رولنگ؛ کونسل کی بحث میں فقہ جعفری کا لحاظ رکھنا چاہئے

علامہ افتخار حسین نقوی نے کہا: موجودہ چئیرمین نے دو اہم کئے ہیں: ایک یہ کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی آئینی حیثیت کو بحال کیا ہے دوسرا یہ کہ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں چاہئے کہ قانون اور عدالت کی زبان میں باقاعدہ فقہ مدون کرکے دے دیں تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ ہی کے لئے حل ہو،جہاں ضرورت ہو قوانین پاس کرانے کی قوانین پاس کرائے جائیں اور جہاں ترمیم کی ضرورت ہو ترمیم کی جائے اس سلسلے میں انہوں نے ٤ کمیٹییاں بنائیں۔

 انٹرویو کا مکمل متن:

جعفریہ پریس۔علامہ صاحب آپ اس وقت پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبرہیں ،اس کونسل کے متعلق آگاہی دیں کہ آئینی اعتبار سے یہ ریاستی ادارہ ہے یاحکومت کاذیلی ادارہ؟علامہ افتخارحسین نقوی۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم ،یہ ادارہ آئینی ادارہ ہے اور ریاست کا ادارہ ہے حکومت کا ذیلی ادارہ نہیں ہے،جس طرح سپریم کورٹ ہے ،جس طرح لیکچرکمیشن ہے۔ اور اس کا براہ راست تعلق اسمبلی سے بنتا ہے،اور یہ صدر کے انڈر ہوتی ہے ،البتہ جس طرح سے سپریم کورٹ کا تعلق وزارت قانون سے بنتا ہے لیکن وزارت قانون کے انڈر نہیں ہوتے یا اس کا ذیلی ادارہ نہیں ہوتا اس طرح اسلامی نظریاتی کونسل کا تعلق جو ہے وزارت مذہبی امور سے اور وزارت قانون سے ہے، دونوں سے ریلیٹڈ ہے لیکن یہ وزارت مذہبی امور کا ذیلی ادارہ نہیں ہے۔ البتہ ٧٣ کے آئین میں اس کا نام اسلامی نظریاتی کونسل ہے،١٩٥٠میں قرارداد مقاصد پاکستان کے عنوان سے ایک کمیٹی بنی و تیار ہوئی اور اسکے بعد جو دستور بنانے کے مختلف مراحل گذرے اور بعد میں دستور نافذ کرنے کی بحث وغیرہ ہر دور میں علماء کی ایک کونسل کا ادارہ موجود رہا ہے جس میں علماء ، قانون کے ماہرین اورجج وغیرہ تھے ،اس کی با قاعدہ شکل  ١٩٧٣ کے آئین میں آئی اور اس کا نام اسلامی نطریاتی کونسل رکھا گیا۔  جعفریہ پریس۔علامہ صاحب اسلامی نظریاتی کے اراکین کی تعداد کتنی ہے؟علامہ افتخارحسین نقوی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے کم ازکم ٨  ارکان ہوتے ہیں جن میں سے ٤ علماء، ایسے علماء جن کا فقہی تدریس میں١٥سالہ تجربہ ہو، جس مسلک کی وہ نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں ،٢جج ریٹائرڈ ہوں یا حاضر سروس ہوں، ایک خاتون اور ایک اور آدمی وہ عالم بھی ہو سکتا ہے غیر عالم بھی ہو سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ان کی تعداد ٢٠ ہے۔ اس میں یہ مشخص نہیں ہے کہ کس مسلک کے کتنے افراد ہونے چاہئیں، مختلف شعبوں کے ماہرین، اقتصاد کے، قانون کے، ججز اور علماء اسلام۔

جعفریہ پریس۔علامہ صاحب اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین کا طریقہ انتخاب یا انتصاب کیا ہے ؟علامہ افتخارحسین نقوی۔ ان کا طریقہ انتصاب یہ ہے کہ وزارت مذہبی امور کی طرف سے یا متفرق افراد ہیں، نمائندے ہیں، سینیٹر ہیں یاجماعتوں کی طرف سے یاکسی اور طریقے سے یہ اسامی مذہبی امور کے پلیٹ فارم سے جاتے ہیں وزیر اعظم کے پاس، وزیر اعظم انہیں بھیجتا ہے صدر کے پاس ، صدر نے نامزد کرنا ہوتا ہے اور ان کی مدت تین سال کے لئے ہوتی ہے اور ان کا ایک چیئرمین ہوتا ہے جو ان ہی اراکین میں سے ہوتا ہے یعنی اگر ٨ ہیں تو ان ٨  اراکین میں سے ایک چیئرمین ہے اور اگر ٢٠ ہیں توان ٢٠ میں سے ایک چیئرمین ہوگا۔جعفریہ پریس۔علامہ صاحب اسلامی نظریاتی کونسل کا کام کیا ہے اور کس قسم کے امور انجام دیتی ہے؟علامہ افتخارحسین نقوی۔ اس کا جو کام ہے وہ یہ ہے کہ ٧٣ کے آئین کے مطابق اسمبلی جو بھی قوانین پاس کریگی وہ قوانین قرآن و سنت کے مطابق ہونگے (قرآن وسنت کی تاویل ہر مسلک کی اس کے اپنے مطابق ہوگی ) اس کے لئے ایک ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل ہوگا، جو  قوانین اسمبلی میں پاس ہونگے ان کو دیکھے گا کہ خلاف قرآن وسنت تو نہیں ہیں اگر وہ خلاف قرآن وسنت ہونگے تو وہ اسمبلی کو دوبارہ بھیجے گا کہ یہ جو قانون پاس کیا گیا ہے یہ اسلام کے مخالف ہے اس پر دوبارہ تجدید کرو اور از خود بھی اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین کوئی تجویز یا سفارش بنا کر بھیج سکتے ہیں تاکہ اسلام کے حوالے سے اسمبلی اس پر قانون سازی کرے یا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی وزارت کی طرف سے یا صدر کی طرف سے اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سوال بھیجا جاتا ہے کہ اس کے بار ے میں اسلامی رائے ہمیں دی جائے ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا جو ادارہ ہے یہ ایک قانون ساز ادارہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مشاورت کا ادارہ ہے اور جتنے بھی قانون سازی کے ادارے ہیں یعنی صوبائی اسمبلیاں ہوں یا قومی اسمبلی یا سینٹ اس میں جتنے قوانین پاس ہوتے ہیں چاہے ان قوانین کا تعلق فوجداری سے ہو یا سول سے جس سے بھی ہو یا جو معاہدات ہوتے ہیں ملک کے غیر ممالک سے وہ بھی ایک قانون بن جاتاہے ان سب کا جائزہ لینا اور اسکے بارے میں رائے دینا اور ایک قسم راہنمائی کرنا  اس راہنمائی کے مطابق آگے اب اس پر عمل ہوتا ہے یا نہیں وہ الگ مرحلہ ہے عملا ہوا یہ ہے کہ اس ادارے کو حکومتوں نے ایک تشریفاتی پروٹوکول ہی رکھا ہے اور آئین کا کیونکہ تقاضا ہے اس کو پورا کرنا تھا اگر یہ نہ بنائیں تو ئین کی خلاف ورزی ہے لیکن اس سے جس طر ح فائدہ اٹھانا چاہئے وہ حکومتوں نہیں اٹھایا کیونکہ ہماری سیاسی حکومتیں نہیں چاہتی تھیں کہ سارے قوانین اسلام کے مطابق بنادئے جائیں اگرچہ اس وقت جو رائج قوانین ہیں ان میں زیادہ تر قوانین تو معاشرتی حوالے سے ہیں جو اسلام سے متصادم نہیں ہیں لیکن ظاہر ہے بہت سارے قوانین ایسے ہیں جو اسلام کے منافی ہیں مثلا فیملی لاز کے حوالے سے بعض  قوانین ایسے ہیں جو ایوب خان نے ایک آرڈیننس جاری کیا تھا وہ ہی فاملی لاز ابھی تک قائم چلا آرہا ہے۔ عدالتوں میں پرابلم ہوتا ہے بالخصوص شیعہ مسلک والوں کو دیگروں کو بھی ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کا آرڈیننس برقرار ہے جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل اپنی رائے دے چکی ہے کہ اس کی بعض شقیں اسلام کے خلاف ہیں، فقہ حنفی کے بھی خلاف ہیں فقہ جعفری کے بھی خلاف  ہیں، بلکہ ضیاء الحق کے دور میں اسلامی نظریاتی کونسل نے اس کی ترمیم کی سفارش دی،وزارت قانون نے بھی لکھا کہ یہ آرڈیننس جو ہے اسلام کے لئے بدنما داغ ہے ،وزارت مذہبی  امور نے بھی لکھا۔لیکن ضیاء الحق نے اس آرڈیننس کو تبدیل نہیں کیا اور اس کے بعد جو صدور آئے انہوں نے بھی نہیں کیا اور ابھی موجودہ صدر کو بھی لکھ کر بھیجا ہوا ہے کیونکہ صدر ہی اس آرڈیننس جو کہ نافذ ہے اس کے بارے میں ترمیمی آرڈیننس جاری کر سکتا ہے ، یا صدر مثلا اسلامی نظریاتی کونسل کو کہہ سکتا ہے کہ اس کے بارے میں تجویز دیں یا اس کو ازخود اسمبلی میں بھی اٹھایا جا سکتا ہے لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا یہ ایک بات اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ ہمیشہ اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمینی ایک غیرعالم ڈموکریٹ کے پاس رہی جن مین بعض رٹائر جج بھی تھے البتہ عربی پر ان کا تسلط تھا لیکن معروف معنا میں وہ علماء میں شمار نہیں ہوتے تھے۔مولانا کوثر نیازی کو بنایا گیا تھا لیکن وہ فقط ایک اجلاس کر سکے اور تین ماہ بعد فوت ہوگئے اور اب پہلی دفعہ یہ ہے کہ اسلامی نطریاتی کونسل کی چیئرمینی ایک عالم دین کے پاس ہے جن کا تعلق جمیعت علمائے اسلام مولانافضل الرحمن گروپ اوردیوبندی مسلک سے ہے،لیکن وہ کھلے ذہن کے مالک اور متوازن سوچ رکھنے والے ہیں ۔

جعفریہ پریس۔ علامہ صاحب آپ نے فرمایاکہ اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمینی ہمیشہ غیرعالم کے پاس رہی ہے اوریہ پہلی بارہواہے کہ اس ادارے کی چیئرمینی ایک عالم دین کے پاس ہے کیاایک عالم دین کے پاس چیئرمینی منتقل ہونے کے بعداس ادارہ میں کوئی خاص تبدیلی رونماہوئی ہے؟علامہ افتخارحسین نقوی۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو جب سے یہ چیئرمین بنے ہیں انہوں نے دو کام کئے ہیں ایک تو یہ کام کیا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی جو آئینی حیثیت ہے اس کو بحال کیا جائے، سابقہ ادوار میں یہ ہوتا رہا کہ سفارشات جو مرتب کردی جاتی تھیں وہ وزارت مذہبی امور کو بھیج دی جاتی تھیں اور وزارت مذہبی امور ان کو دفتر میں ڈال دیتے تھے ۔البتہ ضیاء الحق کے دور میں اسلامی نظریاتی کونسل میں کام زیادہ ہوا کیونکہ وہ دعوے دار تھا کہ میں نظام مصطفی لانا چاہتا ہوں اور وہاں ڈاکٹر دوالئی بھی مصرسے خدمت کے لئے بلائے گئے تھے اور بھی تھے اور اس دور میں آپ کو معلوم ہے اور شیعہ حضرات آگاہ ہیں کہ ضیاء الحق نے کہا تھا کہ پاکستان میں فقہ حنفی کے مطابق قانون نافذ ہوگا جس پر اسلامی نطریاتی کونسل کا اتفاق ہے جس پر مفتی جعفرحسین اعلیٰ اللہ مقامہ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ضیاء الحق نے جھوٹ بولا ہے اور ہمارا اختلاف نظر ہے اور اسی پر ہی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ بنی اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ پاکستان میں بسنے والے تمام مسلمانوں پر فقہ جعفری نافذ کی جائے جیسا کہ مخالفین کی طرف سے یہ پروپگنڈہ ہوا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ٧٣ کے آئین میں جو ہمارا آئینی حق ہے ،اس آئینی حق کے تحت ہمارے لئے فقہ جعفری ہوگی۔ یہ خالی پاکستان کے آئین میں ہمارا حق نہیں ہے بلکہ دنیا میں پرسنل لا اور عبادات جو ہیں اس میں ہر شہری کا حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے مسلک اور مذہب کے مطابق عمل کرے ۔اسی بنیاد پر جب یہ کہا گیا کہ زکاة سب سے لینا ہوگی ، مفتی جعفر صاحب نے کہا کہ نہیں ہمارا اختلافی نوٹ ہے ہم زکاة نہیں دینگے کیونکہ ہمارے مسلک کے مطابق زکاة عبادات سے ہے اور اس میں تقرب الیٰ اللہ کی نیت شرط ہے اور خود دینے والے کو اطمینان ہو کہ زکات جہاں دے رہا ہے ٹھیک جگہ جا رہی ہے پھر یہ ہے کہ کرنسی کے نوٹوں پر ہمارے ہاں زکات نہیں ہے اور جبری بھی نہیں لی جا سکتی کہ بینکوں سے کم کرلیں،اور یہ بھی وہی آئین کا تقاضا تھا لہذا ضیاء الحق مجبور ہو ا اور اس نے شیعوں کو اس حوالے سے استثنیٰ دیا اور یہ اگر آئین میں گنجائش نہ ہوتی تو شاید پھر کوئی آئین میں ترمیم کی جاتی یا اور صورتحال نکلتی۔ ضیاء الحق کے دورمیں ہی قرار داد مقاصد کو باقاعدہ آئین کا حصہ بنا دیا گیا اس سے پاکستان میں شیعوں اور باقی مسالک کے سب پیروکاروں کو ڈبل تحفظ حاصل ہوا، ایک تو خود آئین میں بھی ہے پھر قرار داد مقاصد بھی یہی کہتی ہے اس طرح انہیں یہ تحفظ ملا۔(خیربات ہورہی تھی موجودہ چیئرمین کی )جب یہ ایک کام اس چیئرمین نے کیا کہ انکے اراکین جو حیثیت ہے اور ان کا جو پروٹوکول جو ہے وہ قومی اسمبلی کے ممبر اور سینیٹر کا ہے اور سابقہ ادوار میں بعض اختیارات ان کو مل رہے تھے بعض نہیں مل رہے تھے انہوں نے کوشش ہی نہیں کی نہ یہ کہ کوئی رکاوٹ تھی لیکن اس چیئرمین نے آکر یہ کوشش کی ہے ،دوسرا اس چیئرمین نے یہ کیا ہے کہ انہوں نے اپنے پہلے ہی اجلاس میں یہ کہا کہ ہمیں چاہئے کہ جو ہماری فقہ ہے چاہے وہ حنفی ہے یا جو بھی ،ہمارے مدارس کا اور ہمارے علماء کا فقہی مسائل،شرعی مسائل بیان کرنے کا ایک مخصوص انداز ہے جبکہ جو قانون اور لا ہے یا جو عدالتوں میں رائج زبان ہے وہ اور ہے ،تو ہمیں چاہئے کہ ہم اس زبان میں باقاعدہ فقہ مدون کرکے دے دیں تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ ہی کے لئے حل ہو،جہاں ضرورت ہو قوانین پاس کرانے کی قوانین پاس کرائے جائیں اور جہاں ترمیم کی ضرورت ہو ترمیم کی جائے اس سلسلے میں انہوں نے ٤ کمیٹییاں بنائیں،ایک احوال شخصیہ کی۔کیونکہ یہ انتہائی اہم ہے ،ایسا نہیں ہے کہ شیعوں کی فقہ کے مطابق عدالتوں میں فیصلے نہیں ہو رہے بلکہ فقہ حنفی کے مطابق بھی یہ فیصلے نہیں ہوتے یعنی یہ پرابلم سارے مسلمانوں کا ہے جو بھی پاکستان میں بستے ہیں،جبکہ آئین نے حق دیا ہے ،قانون سازی اسمبلی