اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
ہفتہ

14 اپریل 2012

7:30:00 PM
308949

خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں شہیدہونےوالے نوید کی والدہ؛

ساری دنیا بھی ساتھ چھوڑ دے میں حسینیت کے علم کے سائے سے نہیں ہٹوں گی

گلزار بی بی نے ملت سے مخاطب ہوکر کہا: اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرو ورنہ یہ دشمن تمہارے انتشار کا فائدہ اٹھا کر تمہیں مار دے گا۔ اسیران کی قانونی مدد کرنا ہر پاکستان کے شہری کا آئینی حق ہے/ اسیران قوم کی عزت ہیں ان کے مقدمات میں دلچسپی لیں / شہداء کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کرو؛ ان کے بچوں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھو / یاد رکھو! محسن کش قومیں ہمیشہ ذلیل رسوا ہی ہوئی ہیں / ایک باغیرت قوم بننے کیلئے اپنے بندخول سے باہر نکلو / کسی اسیر کی مدد کرنا، کسی شہید کی مدد کرنا خوشنودی خدا اور خوشنودی آئمہ اہلبیت علیہم السلام ہے۔

اشارہ: بیٹا اور خاوند راہ خدا میں قربان کرنے والی 67 سالہ خاتون کا اسلام ٹائمز کیساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ میرا اپنی قوم کے نام بس اتنا ہی پیغام ہے کہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرو ورنہ یہ دشمن تمہارے انتشار کا فائدہ اٹھا کر مار دے گا۔ اسیران کی قانونی مدد کرنا ہر پاکستان کے شہری کا آئینی حق ہے۔ لہٰذا اسیران کسی بھی قوم کی عزت ہوتے ہیں ان کے مقدمات میں دلچسپی لیں۔ شہداء کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کریں اور ان کے بچوں کو بھی اپنے بچوں کی طرح سمجھیں۔ یہ یاد رکھیں کہ محسن کش قومیں ہمیشہ ذلیل رسواء ہی ہوئی ہیں۔ ایک باغیرت قوم بننے کیلئے اپنے بندخول سے باہر نکلیں۔ کسی اسیر کی مدد کرنا، کسی شہید کی مدد کرنا خوشنودی خدا اور خوشنودی آئمہ اہلبیت (علیہم السلام) ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان کی باہمت اور پر عزم 67 سالہ خاتون گلزار بی بی کا خاوند، بڑا بیٹا اور داماد فرقہ ورانہ دہشتگردی کے نتیجہ میں شہید ہو چکے ہیں اور ایک بیٹا دو سال سے خفیہ ایجنسیوں کی غیر قانونی حراست میں ہے۔ ایک بیٹا 4 ماہ سے جھوٹے مقدمہ قتل میں اسیر ہے۔ دلوں کو محبت اہل بیت (علیہم السلام) سے معطر کر دینے والا انٹرویو قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ سوال: سب سے پہلے آپ ہمارے قارئین کو اپنا تعارف کروائیں۔ جواب: میرا نام گلزار بی بی زوجہ امداد حسین شہید قوم بلوچ سکنہ بستی استرانہ شمالی ڈیرہ اسماعیل خان ہے۔ سوال: آپ کن کن مسائل کا شکار ہیں، تفصیل سے بتائیں۔؟ جواب: سب سے پہلے اسلام ٹائمز کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ میری آواز کو سنا اور پوری قوم تک میری آواز کو پہنچانے کا اہتمام کیا ہے۔ جہاں تک مسائل اور مشکلات کا تعلق ہے تو مجھے اب بی بی فاطمة الزہرا س کا وہ فرمان یاد آرہا ہے کہ میرے اوپر اس طرح مصائب آئے ہیں کہ اگر وہ روشن دنوں پر آتے تو وہ سیاہ راتوں میں تبدیل ہو جاتے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی مخدوش صورتحال اور فرقہ ورانہ قتل و غارت گری نے پورے علاقہ کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ حکومت خاموش تماشائی بنی رہی اور دہشتگرد عناصر کھلم کھلا اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرتے رہے۔ فرقہ ورانہ دہشتگردی کی وارداتوں سے علاقے کا امن تباہ ہوا۔ عوام الناس کی معیشت تباہ ہوئی۔ لوگوں میں شدید خوف و ہراس پیدا ہوا۔ ملکی سطح پر اور بالخصوص عالمی دنیا میں اسلام کی بدنامی ہوتی رہی۔ خفیہ ہاتھ اپنے کرائے کے قاتلوں کو اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے استعمال کرتے رہے اور ہماری خفیہ ایجنسیاں الٹا اس کا حصہ بنتی رہیں۔ میرے 4 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں۔ ایک کنال رقبہ پر مشتمل ہمارا ذاتی مکان بستی استرانہ شمالی میں تھا۔ 5 مئی 2007ء کو میرے خاوند امداد حسین بلوچ کو شہید کر دیا گیا۔ اور میرے کزن پروفیسر نیاز حسین کو بھی شہید کردیا گیا۔ اسی طرح 8 مارچ 2008ء سے بڑا بیٹا اظہار حسین جو کہ الیکٹریشن کا کام کرتا تھا تاحال لاپتہ ہے۔ جس کے بارے میں خدشہ ہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ کے دہشتگردوں نے اسے بھی شہید کردیا ہے۔ میرے داماد فخر عباس کو 22 اگست 2010ء کو شہید کر دیا گیا اور میری بیوہ بیٹی اپنے دو بچوں کے ہمراہ ہمارے پاس منتقل ہو چکی ہے۔ اس کی 7 سال کی بیٹی اور 10 سال کا بیٹا ہے۔ میرے بیٹے نوید حسین کو گزشتہ 2 سال سے خفیہ ایجنسیوں نے غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے۔ یکم فروری 2011ء کو سپریم کورٹ میں رٹ نمبر HR965 دائر کی۔ 10 فروری کو دیگر 3 شیعہ نوجوان جو پولیس کی تحویل میں تھے رہا کر دئیے گئے۔ مگر میرا بیٹا تا حال لاپتہ ہے۔ دسمبر 2011ء میں میرے بیٹے افتخار حسین جو کہ محکمہ ہیلتھ میں درجہ چہارم میں ملازم ہے۔ کو ایک جھوٹے مقدمہ قتل میں گرفتار کیا گیا جو تاحال پابندہ سلاسل ہے۔ ظلم یہ ہے کہ اس مقدمہ میں ایک بے گناہ شیعہ نوجوان کو سزائے موت سنائی گئی۔ جبکہ اسی مقدمہ میں مختلف مواقع پر 8 شیعہ نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔کہیں بھی میرے بیٹے کا نام نہیں آیا۔ اب گزشتہ 4 ماہ سے جیل میں اسیر ہے۔ ضمانت کیلئے بھی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ہوئی۔ سب سے چھوٹا بیٹا ذوالقرنین حیدر جس کی عمر 24 سال ہے وہ بھی محکمہ ہیلتھ میں درجہ چہارم میں ہے۔ گزشتہ ایک سال سے محکمہ ہیلتھ نے خفیہ ایجنسیوں کے پریشر میں آکر غیر قانونی طور پر اس کی تنخواہ بند کی ہوئی ہے۔ میرے گھر میں فوج اور پولیس نے درجنوں مرتبہ چھاپے مارے اور اس وجہ سے ہم نے اپنا ایک کنال کا مکان فروخت کردیا اور اب گزشتہ ایک سال سے بھکر منتقل ہو گئے ہیں۔ سوال: اس وقت آپ کے گھریلو اخراجات کیسے چل رہے ہیں۔؟ جواب: خداوند متعال، بحق چہارداہ معصومین (علیہم السلام) اور باالخصوص امام صاحب العصر و الزمان (علیہ السلام) کا سایہ ہمارے سروں پر موجود ہے۔ معاشی مسائل بہت زیادہ ہیں۔ ہمیں شہید فائونڈیشن ماہانہ 14000روپے امداد دے رہی ہے۔ جس سے ہمارا گزر بسر ہو رہا ہے۔ باقی چند مومنین کرام ہیں جو صاحب درد ہیں کبھی کبھار ہماری مدد کرتے ہیں۔سوال: ان مسائل اور مشکلات میں لوگوں کے روئیے کیسے رہے بالخصوص رشتہ دار حضرات کے۔؟ جواب: ان مسائل باالخصوص آرمی کے چھاپوں اور بار بار پولیس گردی کی وجہ سے ہمارے خاندان والے اور قریبی عزیز گھبرا گئے اور ہم سے دور رہے۔ البتہ چند غیرت مند مومنین نے ہمارے سر پر دست شفقت رکھا اور ہماری دل جوئی کی اور ہر ممکن سہارا دیا۔ سوال: آپ نے کن کن اداروں سے تعاون حاصل کیا اور اسکی تفصیل سے ہمارے قارئین کو آگاہ کریں۔؟ جواب: ہمارا رابطہ تو اداروں سے نہ ہونے کے برابر تھا۔ البتہ جیسے جیسے لوگوں نے ہمیں بتایا ہم نے رابطہ کیا۔ سب سے پہلے شہید فائونڈیشن نے ہماری ماہانہ مدد 14000 روپے شروع کی، عید پر عیدی وغیرہ بھی بجھواتے رہتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر مجلس وحدت مسلمین کے لوگ جنہوں نے فروری 2011ء میں میرے لاپتہ بیٹے نوید حسین کی سپریم کورٹ میں رٹ دائر کروانے اور اسکی پیروی کرنے میں مالی مدد فراہم کی اور اس کے علاوہ ہماری مالی مدد بھی کر چکے ہیں۔ باقی چند علاقائی مومنین کرام ہیں جن کا نام لینا مناسب نہیں ہے۔ باقی ہمیں کسی اور جگہ سے مناسب جواب نہیں ملا اور نہ ہماری مدد کی گئی۔ سوال: آپ کے خاندان کو اتنے مسائل درپیش رہے۔ آپ نے قانونی جنگ کیسے لڑی اور قانونی کارکردگی سے کس حد تک مطمئن ہیں۔؟جواب: میرے خاوند امداد حسین کے قتل کی FIR درج ہوئی، اس پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی بلکہ مقدمہ قتل اب عملاً سرد خانے کی نذر ہو چکا ہے۔ میرے داماد فخر عباس کے قتل کی FIR میں ہم نے 4 افراد کو نامزد کیا ہے۔ پولیس ان نامزد ملزمان کیخلاف ایکشن کیلئے تیار نہیں ہے اور نہ ہی تحقیقات کو آگے بڑھا رہی ہے۔ سب سے بڑے بیٹے اظہار حسین کے لاپتہ ہونے کی درخواست دی تھی جس پر ابھی تک FIR درج نہیں ہو سکی۔ خفیہ ایجنسیوں کی غیر قانونی حراست میں بیٹے کی رہائی کیلئے CO (سٹیشن کمانڈر آرمی ) سے متعدد مرتبہ ملاقات کیلئے گئی۔ مگر انہوں نے ملاقات کی زحمت ہی نہ کی۔ سپریم کوٹ میں رٹ دائر کی مگر اس کا بھی عملاً رزلٹ نہیں نکل سکا۔ 4 ماہ سے جیل میں بے گناہ اسیر بیٹے کیلئے وکیل کا انتظام کیا اور ایک اچھی خاصی رقم خرچ کی، مگر عدالت نے ضمانت کی درخواست خارج کردی ہے۔ سب سے چھوٹے بیٹے کی تنخواہ کی بحالی کیلئے متعلقہ محکمہ میں متعدد مرتبہ درخواستیں دیں مگر نتیجہ تاحال صفر ہے۔ ظاہری طور پر مناسب کارکردگی نہیں ہے مگر ہم نے حوصلہ نہیں ہارنا۔ ہم یہ جنگ آخری سانسوں تک لڑیں گے، ہمارا دشمن ہمارے ساتھ دشمنی صرف محبت اہلبیت (علیہم السلام) کی وجہ سے رکھتا ہے اور ہماری تاریخ گواہ ہے کہ شیعت ہر دور میں سر خرور رہی ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ ہم اپنے دور کی کربلا میں ہیں ہم نے یہ جنگ ہر حال میں جیتنی ہے۔ ہم نے حسینیت کا علم اٹھایا ہوا ہے اور یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے۔ خداوند متعال نے آزمائش کیلئے ہمارے خاندان کو یہ سعادت بخشی ہے، آج انہی مسائل کی وجہ سے اگر ساری دنیا بھی میرا ساتھ چھوڑ دے مگر میں ایک لمحہ کیلئے بھی حسینیت کے علم کے سائے سے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہوں۔ میں اس مقدس مشن میں خود جیل جانے کیلئے بھی تیار ہوں۔ سوال: ڈیرہ اسماعیل خان کے مسائل اور مشکلات سے آپ اچھی طرح آگاہ ہیں اور عملاً اس کا حصہ ہیں، آپ کے نزدیک مسائل اور ان کا حل کیا ہے۔؟ جواب: یہ بہت تفصیل طلب ہے، مگر میں انتہائی مختصراً عرض کرونگی کہ ہمارے تشیع میں لیڈر شپ کی کمی ہے اور آپس کے اختلافات نے ہمیں حد سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ انتظامیہ کی بے حسی اور خفیہ ایجنسیوں کا منفی کردار سیاسی و مذہبی قائدین کی خاموشی، میڈیا کا خاموش تماشائی کا کردار، ہماری طرف سے مؤثر آواز کا بلند نہ ہونا، مؤثر احتجاج کا نہ ہونا اور مناسب قانونی پیروی کا نہ ہونا۔ دہشت گردوں کے حوصلے بڑھانے کا باعث بنتا رہا ہے۔ سول ہسپتال میں خودکش دھماکہ ہوا۔ شیر زمان کے جنازہ پر خودکش دھماکہ، شاہد شاہ جنازہ پر خودکش دھماکہ، مسجد روشن چراغ بم دھماکہ اور سب سے بڑھ کر مسجد لاٹو فقیر میں خودکش کا زندہ گرفتار ہونا اور اس طرح 396 شہداء کے مقدمات کی عدم پیروی اگر حکومت صحیح اقدامات کرتی اور قاتلوں کو قرار واقعی سزا دیتی تو آج ڈیرہ اسماعیل خان کا امن تباہ نہ ہوتا۔ پہلے لوگ اس کو شیعہ، سنی تنازعہ کے طور پر لیتے رہے، مگر اب یہ دہشتگردی کا طوفان بن کر لوگوں کے سامنے آیا ہے۔ جس نے ہر طبقہ فکر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، بچوں کا تعلیمی میدان میں استحصال ہو رہا ہے۔ کوئی اچھا استاد، کوئی اچھا ڈاکٹر ڈیرہ اسماعیل خان میں آنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ عوام الناس کے کاروبار تباہ ہو رہے ہیں۔ بے روزگاری میں خوفناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ ریاستی اداروں اور عوام نے ملکر ان مسائل کا حل نکالنا ہے۔ حکومتی ادارے اپنے فرائض درست طور پر انجام دیں، دہشتگردوں کو فوری طور پر گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دیں۔ کالعدم تنظیموں سپاہ صحابہ اور تحریک طالبان پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ مگر اس کے رہنماء اور کارکنان سر عام دنداناتے پھرتے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے وزیرستان کے افراد کو فوری طور پر علاقہ بدر کیا جائے، لا اینڈ آرڈ کو کنٹرول کرنے کیلئے انٹلیجنس کی کارکاردگی کا از سر نو جائزہ لیا جائے، جدید ترین آلات محکمہ پولیس کو فراہم کیے جائیں۔ عوام اور ریاستی ادارے ملکر دہشتگردوں کو بے نقاب کریں اور اسلحہ کے کاروبار اور دہشتگردی کے واقعات میں ملوث عناصر باالخصوص خودکش دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے مقدمات ایماندار آفیسران سے ری انو یسٹی گیٹ کروائے جائیں اور مندرجہ بالا مقدمات میں ملوث عناصر کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ سوال: کیا آپ ہمارے قارئین کو کوئی پیغام دینا چاہیں گی۔؟ جواب: اس وقت میری عمر 67 سال کے قریب ہے اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہوں، گزشتہ 1 سال سے ایک رات بھی آرام و سکون سے نہیں سو سکی ہوں۔ میرا اپنی قوم کے نام بس اتنا ہی پیغام ہے کہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرو ورنہ یہ دشمن تمہارے انتشار کا فائدہ اٹھا کر مار دے گا۔ اسیران کی